عبدالقادر کی آنکھوں کی روشنی پچھلے ایک سال سے کمزور ہوگئی تھی۔ علاج و معالجہ کرنے کے باوجود اُسے دھندلا دھندلا دکھائی دیتا تھا۔ گھر والے پریشان تھے کہ اب کیا کیا جائے، کیونکہ اگر روشنی مزید کم ہوتی چلی گئی تو اُس کے لئے بہت مشکل ہوجائے گی۔ایک دن اس کا ایک پرانا دوست اُسے دیکھنے کے لئے آیا تو اس نے صلح دی کی حکم نواب صاحب آنکھوں کا بہت اچھا علاج کرتے ہیں اور اگر انہیں دکھایا جائے تو شائد کچھ بہتری آئے۔
گھر والوں نے بھی خیریت اسی میں سمجھی اور اس کو حکم نواب صاحب کے پاس لے چلے۔حکیم صاحب نے کچھ جڑی بوٹیاں وغیرہ دیں اور دو ہفتوں کے بعد ملاحظہ کے لئے پھر آنے کیلئے کہا۔ اب عبدالقادر نے دوائی استعمال کرنا شروع کی تو اس عرصہ میں اُسے قدرے راحت سی محسوس ہونے لگی۔ یوں تو وہ ایک سال پہلے مسجد بھی جایا کرتا تھا اور گھر کے لئے ضروری اشیاء خریدنے کے لئے بازار بھی جاتا تھا۔ لیکن بینائی کم ہوجانے کے سبب اب نہ وہ مسجد ہی جاپاتا تھا اور نہ ہی بازار۔ بہرحال مقررہ وقت پر وہ پھر حکیم صاحب کے پاس چیک اپ کیلئے چلے گئے، وہاں پہنچتے ہی حکیم صاحب نے پوچھا آج حالت کیسی ہے۔ قدر بہتر، عبدالقادر نے جواب دیا۔
حکم صاحب نے دوبارہ معائینہ کرتے ہوئے کہا، چلو اب یہ دوائی دو مہینے تک استعمال کرنا۔ انشاء اللہ آنکھوں کی بینائی واپس آجائے گی۔ عبدالقادر نے سرجھکاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دو مہینے بعد اس کی آنکھوں کی روشنی میں بہتری آگئی۔ وہ اللہ کا شکرگزار ہو اور حکیم صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
اب وہ پھر سے پہلے کی طرح دنیاوی کاموں میںجُٹ گیا اور اس کے گھر والے پھولے نہ سمائے۔
ایک دن عبدالقادر بازار سے کچھ چیزیں خریدنے کے لئے ایک دوکان پر گیا۔ ایک سال پہلے اس نے اسی دوکان سے کچھ چیزیں خرید ی تھیں۔ دوکاندار نے جب پرانے گاہک کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس کو اپنی دکان میں کرسی پر بٹھایا اور اس کے لئے چائے منگوائی۔ اسی دوران اسکولوں میں چھٹی ہوگئی اور بازار میں طلاب کی چہل پہل دیکھنے کو ملنے لگی۔ اس نے پیالہ ہاتھ میں لیا اور چائے کی چسکیاں لینے لگا کہ اچانک وہ سہم سا گیا اور چائے پیالے سے گرنے لگی۔
دکاندار گھبرا گیا اور کہنے لگا، حضرت کیا بات ہے؟ رُک کیوں گئے؟
عبدالقادر نے قدرے مایوس لہجے میں کہا،کچھ نہیں طالبات کی طرف دیکھ رہا تھا۔
دوکاندار : کیوں؟
عبدالقادر: وہ دیکھو پائجامے ٹخنوں کے اوپر پہنچ گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
کوئی تکلیف تو نہیں ہے بے چاریوں کے ٹخنوں میں؟
دکاندار نے ٹھاہ ٹھاہ کرکے ہنستے ہوئے کہا، حضرت چائے پی لیں۔ یہ فیشن ہے۔ تازہ تازہ ہمارے شہرے میں وارد ہوا ہے۔
عبدالقادر کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرنے لگے اور خود سے بڑبڑانے لگا، یہ بھی کوئی فیشن ہوا، جس میں طالبات اپنے جسم کی حفاظت بھی نہیں کرپا ہیں۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ اسکی آنکھوں کی بینائی کیوں لوٹ آئی۔ اس کے لب ہل رہے تھے شاید وہ اللہ سے کچھ مانگ رہا تھا۔ ان بچیوں کے لئے دعاء یا پھر حکیم صاحب کے لئے بددعاء کہ جنکے علاج سے انکی روشنی لوٹ آئی تھی۔
موبائل نمبر؛ 9906852918