نظم تخیل کی زمین سے پھوٹتی ہے
نظروں سے اوجھل کئی بے رنگ آسمانوں کے خیمے ہیں
کئی خلاؤں کے نہتے دربدر دشت و صحرا
جنکی پہنائییوں میں لاشعوری پرندہ اُڑتا رہتا ہے
عنوان کا بیج اسی کی چونچ سےگر کے زمیں سے اُگ آتا ہے
وقت سے باہر کی وادیوں کا بانجھ پن
زرخیز ہو جاتا ہے
سطریں، معانی، اسلوب، بلاغت وغیرہ
شاخیں، پتے، پھول، ثمر کی طرح ہیں
اشک اوس بن کے آبیاری کرتا ہے
وصل کی دھوپ تازگی لاتی ہے
تو ہجر کی قینچی شاخ تراشی پہ اُتر آتی ہے
ہجر سخت کڑوا سچ ہے
شبنم کو پالا بنا دیتا ہے
محبت کے شعلوں سے اُتری ہوئی
گیلی راکھ کی طرح۔
لفظوں کے پتوں میں زرد کہرا پھیلا دیتا ہے
زرد موسم رقص کرنے لگتا ہے
گردو غبار کے لباس میں۔۔
نظم اپنی ہریالی پہ بین کرتی ہے
اپنے تخلیق کار کے ہمراہ
دسمبر کے آنگن میں
زرخیز زمین کا بانجھ پن اوڑھ کر۔۔۔۔۔!
نئے خواب کا موسم
بچپن کی یادیں مٹھی میں بھر کے
تتلیاں ڈھونڈنے نکلا تھا
شبنم کے قطرے چھو لئے
تو ہجر کے آبلے پھوٹنے لگے
سرد ہوا کا جھونکا دل کی دھڑکن پہ آ گرا
بجھتی دھوپ نے سہارا دینا چاہا
کہ اندھیروں نے اپنا سایباں کھول دیا
سفر تھک چکا تھا
بند مٹھی کھولی
تو زرد موسم کے سوکھے پتے ہی ملے
ایک ایک کرتے گرتے رہے
خالی مٹھی میں خشک پتوں کی آوازیں دم توڑ نے لگیں
رات کے سائے روشنی کی دہلیز کب کے پار کرچکے ہیں
شب کی آغوش میں انگڑائیاں لیتے
گرم بستر میں سرد سلوٹوں کی سرگوشیاں
نئے خواب کا موسم بُن رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087