مرے بابا! ترے در پہ کوئی بیٹھا، پکارو تو
بھکاری ہے، سوالی ہے، فدائی ہے کوئی اپنا
جسے تم جانتے پہنچاتے ہو۔ اُس کو برسوں سے
کھلایا ہے، پلایا ہے، اُسے نازوں سے پالا ہے
اُسے سردی جولگتی تھی تری بانہوں میں آتا تھا
اُسے گرمی جو لگتی تھی تری چھائوں میں رہتا تھا
کھلونے پہ کسی بچے کی ضد کر بیٹھتا تھا جب
کبھی پہلو بدلتے تھے، کبھی لازم سمجھتے تھے
صدائیں اب بھی دیتا ہے کوئی سنتا نہیں اُس کی
کوئی تو فرق بھی ہوگا کسی اپنے پرائے میں
ہاں! اُس کی بیوی بچے ہیں اور اُن کا بھی فریضہ ہے
اُسے اُن کا بھی ذمہ ہے اطاعت بھی تری لازم
وہ نادم ہے، وہ خادم ہے، وہ مجبوری میں جیتا ہے
پکارو نا! اُسے بابا کہ ضد اتنی نہیں اچھی
کرالہ ٹینگ سوپور،موبائل نمبر:8493014235