پیر عرفہ معین
جموں و کشمیر میں تکثیری اور کثیر جہتی ثقافت کا عظیم ورثہ ہے۔ جموں و کشمیر میں مختلف ثقافتی رجحانات کے انضمام نے ایک منفرد تہذیبی فریم ورک کو جنم دیا ہے۔جموں و کشمیر کی دستکاری صنعت اس ارتقائی ہم آہنگی کا بہترین امتزاج ہے۔ اس خطے پر حکمرانی کرنے والے مختلف خاندانوں نے اپنے مختلف فن اور دستکاری کی روایات کی وجہ سے اپنے اہم نقوش چھوڑے ہیں۔
یہ شاہی خاندان اپنے ساتھ فن کی منفرد شکلیں لے کر آئے جو یہاں ضم ہو گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتے رہے ۔ شاہمیر خاندان کے زین العابدین یا بڈ شاہ نے فن اور دستکاری کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ وہ فارس سے کاریگر لائے تاکہ مقامی کاریگروں کو فن کی مختلف شکلیں سکھائی جاسکیں۔
جموں و کشمیر کی دستکاریوں کو پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ اس یونین ٹریٹری میں یہ دستکاریاں کڑھائی سے لے کر شالبافی، لکڑی کی نقاشی سے لے کرپیپرماشی، قالین بافی سے لے کر نمدہ سازی، دھات اور پتھر کے کام اور زیورات بنا نے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کشمیری شالیں جیسے پشمینہ، شہتوش اور کانی شال عالمی سطح پر ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔
دستکاری صنعت کے معاشی پہلو نے عالمی منڈی میں اس کی بڑے پیمانے پر توسیع دیکھی ہے۔ عالمی سطح پر اس توسیع کو فروغ دینے کیلئے چھوٹے پیمانے کے ہنر مند کاریگروں کو مختلف سرکاری مراعات جیسے کم سود پر قرضے اور مختلف اقتصادی سکیموں کے فوائد فراہم کرکے ان کی کم از کم اجرت بڑھانے پر زور دیا جانا چاہئے۔
مختلف حکومتی پالیسیوں کے مطابق بیداری کے مختلف پروگرام بھی مرتب کئے جانے چاہئیں جن میں دستکاری ملازمین کو دستکاری کے کام کے بارے میں تعلیم دینے، نئی ٹیکنالوجیز سے آگاہی اور مارکیٹ کی ذہانت کو فروغ دینے پر توجہ دی جائے گی۔
یہ تمام پالیسیاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گی اور سرپلس مارکیٹ ویلیو کو بھی وسعت دیں گی۔ حکومت کے معاشی ڈھانچے کو حکومت کی سرپرستی میں بڑے پیمانے پر کارخانوں کے قیام پر خاص طور پر نوربافی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے بڑی سرمایہ کاری کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
پیداوار جتنی زیادہ ہوگی جی ڈی پی میں اضافہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔مختصراً دستکاری صنعت کو فروغ دینے کیلئے متحرک اقتصادی ایجنڈے کے ساتھ ایک جوابدہ ماڈل کی ضرورت ہے۔ اس پر مناسب حساسیت اور اس ثقافتی ورثے کے زیادہ سے زیادہ استعمال کیلئے کچھ منظم اقدامات کی ضرورت ہے۔
(پیر عرفہ معین جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی ریسرچ سکالر ہیں۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)