جرسِ ہمالہ
میر شوکت پونچھی
وادی کی ہوائیں اگست کی نمی میں بھیگی ہوئی تھیں، جیسے کوئی غمگین راگ فضا میں بکھرا ہوا ہو۔ سری نگر کا بخشی سٹیڈیم، جو کبھی کرکٹ کی شور شرابے سے گونجتا تھا، آج ایک الگ ہی تھیٹر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ قومی ترانے کے بول بادلوں کو چھوتے ہوئے بلند ہو رہے تھے، رنگ برنگے بینر ہوا میں لہراتے جیسے آسمان کو پیغام دے رہے ہوں اور غبارے فضا میں آزاد اڑتے، گویا وادی کی امیدوں کی پرواز کی علامت۔ اسٹیج کے سامنے ہجوم کا سمندر تھا،ایک لہر امید کی، دوسری اضطراب کی اور تیسرے میں بے یقینی کی گردشیں—سب مل کر ایک معلق سی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔ اچانک روشنیوں کا سیلاب اسٹیج پر بہہ آیا، جیسے کوئی ستارہ اتر آیا ہو۔ وہاں عمر عبداللہ کھڑے تھے، سفید کرتے میں معصوم روشنی اور سیاہ واسکٹ میں سنجیدگی کی چادر اوڑھے۔ مائیک کے سامنے آ کر ان کی آواز گونجی، جو دکھ کی لہروں سے بھری تھی اور اعلان کی شان سے جڑی:’’ہم اپنی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے ایک عظیم دستخطی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ جو چاہے اس میں شریک ہو، دستخط کرے، جو نہ چاہے وہ یہ سمجھ لے کہ ہم نے ہار مان لی ہے۔‘‘
لمحہ بھر کو تالیوں کا طوفان اٹھا، پرچموں نے ہوا کو کاٹا، مگر فضا میں ایک سوال بھی تیرتا رہ گیا، جیسے کوئی نادیدہ پرندہ: ’’بھائی صاحب! ہم نے تو ووٹ دے کر اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، کیا اب دستخط بھی ضروری ہیں؟ کیا ہماری انگلیوں کی سیاہی دھندلی پڑ گئی تھی یا اسمبلی کی کرسیوں پر قلم کی روشنائی ختم ہو گئی؟‘‘
یہ اعلان محض ایک منظر نہیں تھا بلکہ پورے سیاسی تھیٹر کا پردہ اٹھانا تھا۔ عوامی مینڈیٹ کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے نیشنل کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ ووٹ کی مقدس مہر کے باوجود اب دستخطوں کا ہجوم اکٹھا کرنا ہوگا، گویا مینڈیٹ کی روح ابھی کاغذ کی سلجھنوں میں الجھی ہوئی تھی اور اسے نئی روشنائی کی ضرورت تھی۔ مگر اپوزیشن نے اس تماشے کو ہاتھوں ہاتھ لیا، جیسے کوئی مزاحیہ ڈرامہ دیکھنے کا موقع مل گیا ہو۔
وحید پرہ اپنے دفتر میں میز پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے، ان کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر اور بھی بلند ہو رہی تھی: ’’یہ کون سا کھیل ہے، بھائی؟ عوام نے ووٹ دے کر اپنا فیصلہ تو سنا ہی دیا تھا، اب یہ دستخطی کمپین کا کیا مطلب؟ یہ سیاست ہے یا مشقِ خطاطی کا کلاس روم؟‘‘
سجاد لون مونچھوں کو تاؤ دیتے، جیسے کوئی قدیم جنگجو تیاری کر رہا ہو، بولے: ’’ارے بھائی! اسمبلی کی ایک قرارداد ہزار دستخطوں سے بھاری ہوتی ہے۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہے۔ دستخط جمع کیے جا رہے ہیں اور قرارداد الماری کے تاریک کونے میں قید ہے، جیسے کوئی بھولی ہوئی یاداشت۔‘‘
میڈیا کے کیمرے بھی اس سیاسی تماشے میں اپنا رنگ بھرنے پہنچ گئے، جیسے کوئی بڑا میلہ لگا ہو۔ رپورٹرز مائیک آگے بڑھاتے، سوالوں کی بارش کرتے: ’’اگر دس لاکھ دستخط ہو جائیں تو کیا دہلی کی سرکار ریاستی حیثیت کو تھالی میں سجا کر پیش کر دے گی؟ یا یہ کاغذ عدالتوں میں بطور ثبوت پیش کیے جائیں گے، جیسے کوئی قدیم دستاویز؟‘‘
اسٹوڈیو میں بیٹھے اینکر نے تو اور بھی کمال کا اضافہ کیا، ان کی آواز میں طنز کی چمک تھی: ’’اب ریاستی حیثیت عوام کے ووٹ پر نہیں، بلکہ ان کی ہینڈ رائٹنگ پر منحصر ہے۔ جو خوش خط ہے، وہ ریاست کا سچا دوست؛ اور جس کی لکھائی ٹیڑھی میڑھی ہے، وہ شاید ریاست کا دشمن! یہاں تک کہ خوش خطی کا مقابلہ شروع ہو جائے گا۔‘‘
عوام کا حال بھی ایک زندہ تصویر تھا۔ بڈگام کا ایک بزرگ، ہاتھ میں ترنگا تھامے، بیٹے سے کہہ رہا تھا، اس کی آواز میں برسوں کی تھکن اور امید کی جھلک: ’’پتر! ہم نے ووٹ دیا، اب دستخط کر رہے ہیں۔ کل کو شاید یہ کہیں کہ شناختی کارڈ بھی دوبارہ بناؤ۔ یہ سیاستدان روز نئی رسید مانگتے ہیں،کبھی ووٹ کی، کبھی دستخط کی، کبھی نعرے کی جیسے ہماری جدوجہد ایک لامتناہی زنجیر ہو۔‘‘
بیٹا ہنستے ہوئے، آنکھوں میں شرارت کی چمک لیے بولا: ’’ابا جی، ہو سکتا ہے کل خواب دیکھنے پر بھی دستخط کروائیں۔ اعلان ہو کہ صرف وہی لوگ ریاستی حیثیت کے خواب دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے کاغذ پر پہلے سے اجازت طلب کی ہو، جیسے کوئی سرکاری فارم بھرا ہو۔‘‘
لال چوک کے ایک پرانے چائے خانے میں دانشوروں کی بیٹھک جمی تھی، جہاں دھوئیں کی لہریں اور چائے کی خوشبو فضا میں گھل رہی تھیں۔ ٹیلی ویژن پر خبر کی ہیڈلائن چل رہی تھی: ’’این سی کی دستخطی مہم زور و شور سے جاری، عوام میں جوش و خروش کی لہر‘‘۔ ایک دانشور نے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے، جیسے کوئی فلسفیانہ گوہر نکال رہا ہو، کہا: ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے شادی کے بعد روز نکاح نامے پر دوبارہ دستخط کروائے جائیں، کہیں بھروسہ بڑھ رہا ہے یا کم ہو رہا ہے۔‘‘
دوسرے نے، آنکھیں سکڑتے ہوئے، اضافہ کیا: ’’اصل میں یہ سیاست کا جادو ہے: ووٹ کو دستخط میں بدلنا، دستخط کو نعرے میں اور نعرے کو اخبار کی شاندار شہ سرخی میں۔ عوام خوش کہ وہ کچھ کر رہے ہیں، جیسے کوئی عظیم انقلاب کا حصہ، اور سیاستدان مطمئن کہ وقت کی گھڑیاں آہستہ آہستہ گزر رہی ہیں، بغیر کسی حقیقی تبدیلی کے۔‘‘
دہلی کی راہداریوں میں جب یہ مہم کی گونج پہنچی، تو وہاں بھی قہقہے گونجے، جیسے کوئی قدیم محل میں مزاحیہ کہانی سنائی جا رہی ہو۔ ایک بابو نے، فائلوں کے ڈھیر میں گھرا ہوا، کہا: ’’اگر دستخط سے ریاستی حیثیت ملنے لگی تو ہمیں کاغذوں کی نئی وزارت بنانی پڑے گی، جہاں ہر دستخط کو شمار کیا جائے گا جیسے کوئی قیمتی جواہر۔‘‘
دوسرے نے، مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’اور عدالتوں کے کمرے دستخطوں کے ڈھیروں سے بھر جائیں گے۔ انصاف کی کرسی کاغذ کے سمندر میں ڈوب جائے گی، اور جج صاحبان قلم کی بجائے کاغذ کے پیمانے استعمال کریں گے۔‘‘
یوں یہ مہم ایک سنجیدہ سیاسی سوال کی بجائے ایک طنزیہ تماشے میں تبدیل ہو گئی، جیسے کوئی رنگین میلہ جس میں ہر کردار اپنا ڈائیلاگ ادا کر رہا ہو۔ عوام سوچنے لگے کہ اگر ریاستی حیثیت دستخطوں سے ملنی ہوتی تو شاید ہم اسکولوں کے حاضری رجسٹروں ہی کے ذریعے آزادی حاصل کر لیتے، جہاں ہر دستخط ایک چھوٹی سی انقلاب کی علامت ہوتا۔ اصل سوال ہر گلی کوچے میں گونج رہا ہے، جیسے کوئی نادیدہ نعرہ: ’’ریاستی حیثیت کیا عوام کے قلم کی روشنائی سے واپس آئے گی یا اسمبلی اور پارلیمان کی قراردادوں کی طاقت سے؟‘‘
تاریخ شاید یہ لکھے کہ یہ دستخطی مہم عوامی جذبے کا استحصال کم اور سیاسی تماشہ زیادہ تھی ،ایک ایسا تماشہ جس میں ہر دستخط ایک نیا نعرہ تو بن سکتا ہے، مگر آئینی حل کا دروازہ نہیں کھول سکتا۔ عوام کے ووٹ کا مینڈیٹ ایک مقدس تحریر ہے، جیسے کوئی قدیم صحیفہ، اسے بار بار سادہ کاغذ پر دہرانے سے اس کی طاقت کمزور نہیں ہوتی، بلکہ ایک مذاق بن جاتی ہے۔ اور ووٹ سے حاصل اقتدار کو کاغذی دستخطوں کے کھیل میں ضائع کرنا اور عوام کو یقین دلانا کہ’’یہ بھی جدوجہد ہے۔‘‘ دراصل، یہ جدوجہد کم اور تماشہ زیادہ ہے، جسے تاریخ قلم کی روشنائی میں نہیںبلکہ ہنسی اور افسوس کے رنگوں میں رنگ دے گی، جیسے کوئی غمگین شاہکار۔