میں اُس دنِ بلک بلک کر رویا تھا جب مُجھے معلوم ہوا کہ میری ماں کی دستاویز چند کھوٹے سکوں کے عوض نیلام ہوئی ہے!
’’کسِ نے کیایہ ؟۔ کیوں کیا؟۔ یہ سوال اکثر میرے ادراک کے دریچے پر سیاہ بالوں کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ یہ ماں کی عزت کا سوال تھا۔ میں ہر دربار میں گھُس کر اس دستاویز کا تقاضا کرتا تھا۔
میں در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا، یہاں تک کہ میرے پیروں میں چھالے پڑ گئے۔ آخر کار ایک بُزرگ کو میری حالت زار پر ترس آیا۔ اُس نے مُجھے اُس شخص کے بارے میں جانکاری دی جو والیٔ شہر تھا اور جس نے اس دستاویز کو حقیر دام کے عوض خریدا تھا۔ اُس بزرگ کی مدد سے ہی اُس شخص کے پاس پہنچا۔
’’کیسے آنا ہوا؟۔‘‘ والیٔ شہر نے پوچھا
’’جناب مُجھے دستاویز چاہئے۔‘‘ میں نے عاجزی کے ساتھ کہا۔
’’ٹھیک ہے تمہیں دستاویز ملے گی۔ لیکن اِس کے لئے تمہیں میری ایک شرط ماننی ہوگی۔ بولو۔ قبول ہے؟۔‘‘
’’جناب شرط کیا ہے؟۔‘‘ میں نے والیٔ شہر سے پوچھا۔
’’اس دستاویز کے بدلے تُم چنار میرے نام کروگے۔ منظور ہے؟۔‘‘
’’جناب ایسا ناممکن ہے۔ کچھ اور مانگئے۔‘‘ میں نے والیٔ شہر سے کہا۔
’’چنار میں ایسا کیا رکھا ہے؟۔‘‘ والیٔ شہر نے اونچی آواز میں پُوچھا۔
’’جناب دراصل چنار میری ماں کو مہر میں ملا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر ہاری پربت قلعہ میرے نام کردو۔‘‘
’’جناب یہ ہماری شانِ رفتہ کی علامت ہے۔ کچھ اور مانگئے‘‘ میں نے پھر والیٔ شہر سے عاجزانہ انداز میں کہا۔
’’اچھا پھر کوہِ سلیمان میرے نام کردو۔‘‘
’’جناب کوہ سلیمان پر وہ مقدس نقوش پا ثبت ہیں، جو ماں کی آن بان اور شان کے گواہ ہیں۔ میری ماں کو حضرت سلیمانؑ نے بسایا ہے اور باغِ سلیمان نام رکھا ۔۔۔ آں معمورئہ فردوسِ نشاں را باغ سلیمانؑ نام نہادہ۔۔۔‘‘
’’اچھا (ایسا)کرو وتستا (جہلم)کو میرے نام کردو۔‘‘
’’جناب کوئی بھی اولاد اپنی ماںکا دل نہیں بیچ سکتا ہے۔‘‘ میں نے والیٔ شہر سے کہا۔
’’اب آخری شرط ہے۔ بولو منظور ہے‘‘ والیٔ شہر غصے میں بولے۔
’’جی ہاں شرط بتاو‘‘
’’وادیٔ لولاب میرے نام کردو‘‘ والیٔ شہر بولا۔
’’جناب یہ کیسے ہوسکتا ہے۔‘‘
’’کیوںَ‘‘؟ والیٔ شہر غصے میں غُرائے۔‘‘
’’لولاب مشہور عالم دین، مفکر، محقق انور شاہ کشمیری کا مولد ہے۔‘‘
’’پھر۔ پھر کیا ہے تمہارے پاس مجھے دینے کے لئے، جس کے بدلے میں تمہیں دستاویز لوٹا دوں؟۔‘‘والیٔ شہر تعجب سے بولے۔
’’جناب ! میرے پاس وہ نایاب ہے جو شاید تمہیں دُنیا میں کہیں دستیاب نہیں ہوگا۔‘‘
’’جلدی بتاو کیا ہے وہ نایاب گوہر‘‘ والیٔ شہر تیز تیز بولے۔
’’جناب میرے پاس ’مہمان نوازی‘ ہے۔
ذرّہ ذرّہ ہے میرے کشمیر کا مہمان نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا مجھے پانی
والیٔ شہر کو میرا جواب خوب پسند آیا۔ اُس نے فوراََ اپنی تجوری سے دستاویز نکالی اور میرے ہاتھ میں تھما دی۔
دستاویز کے پہلے ہی صفحہ پر یہ تحریر رقم تھی۔
’’اس دستاویز کا دعویدار ہر وہ شخص ہے جو کشمیریت کی نگہبانی کا ضامن ہو۔۔۔!‘‘
تحریر پڑھکر میری زبان پر بے ساختہ یہ شعر آئے۔
کشمیر کا چمن جو مُجھے دلپذیر ہے
اُس باغِ جانفرا کا یہ بُلبُل اسیر ہے
ورِثے میں ہم کو آئی ہے آدمؑ کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
رابطہ:آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،9906534724