عالمی یوم خواتین پر لکھے گئے مضمون، "خدانخواستہ بیٹی نہ ہو جائے" کے جواب میں ہماری ایک بہن نے ایک طویل، دلچسپ اور تاریخی حوالوں سے مزین مراسلہ ارسال کیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں مراسلہ اور اس کے بعد اس کا جواب دیا گیا ہے۔
اصل مضمون یہاں دیکھا جا سکتا ہے: "خدانخواستہ بیٹی نہ ہو جائے"
مراسلہ
"جس تحریر نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا، وہ یوم خواتین کے حوالے سے ہے۔ تحریر کے تعارف میں درج دونوں معاشروں کے تقابل کو کئی بار بغور مطالعہ کرنے کے باوجود نہ پا سکی۔ بین السطور کچھ ہو تو نہیں کہا جا سکتا۔ شاید مغرب کے مکین ہونے کا لحاظ کیا ہو۔ بہرحال تحریر کا مقصد مسلم معاشرے کی زبوں حالی پر افسوس ہے، سائنس اور ٹیکنا لوجی سے پیدل امہ کو آئینہ دکھانا ہے۔مضمون کے مندرجات پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے ہی پیرا گراف میں خطیب اور علماء کو لپیٹ لیا گیا ہے۔ علماء و خطیب تو آقائے نامدارﷺ کی سیرت بیان کرتے ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ کے فہم وفراست اور فلسفہ ٔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے تذکرے کرتے ہیں۔ مغرب کے خطیب ہارون اور مامون کو دہراتے ہوں گے۔ بنو عباس کا عہد محض ایک عورت پر نہ قائم ہوا تھا اور نہ ہی برقرار رہا۔ یہ تاریخ سے ثابت ہے۔ اس سے پہلے امویوں کا بانوے سالہ دور بھی۔ بنو امیہ نے اقتدار کے لیے کیا حربے استعمال کیے؟ عباسیوں کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کیا؟ اور پھر عباسیوں کی خون ریزیاں ثقافتی اور سنہری دور کے پردے میں کس طرح دھندلا دی گئیں؟ یہ مسلمانوں کے سیاسی عروج کا زمانہ تھا۔ جس کی بنیاد قرون اول کے افراد نے ڈالی تھی۔ خیز راں کا کردار بطور مسلمہ رول ماڈل ایک خاص مائنڈ سیٹ کی حکمت عملی ہے۔ کنیز سے ملکہ کا سفر یوں ہی نہیں طے ہوا تھا۔ اس کی ترقی کا راز علم، حکمت اور صلاحیتوں کے علاوہ ذاتی پسند ناپسند اور پالیسیوں میں مضمر تھا۔ اس کے مقابل دوسو سال پہلے جس اسلامی معاشرے کی بنیاد مدینہ میں ڈالی گئی تھی۔ خواتین کے کردار عباسیوں کے سنہری دور سےبہت زیادہ بلند نظر آتے ہیں۔ یہ اسلام کا روحانی عروج کا دور کہلاتا ہے۔ یہ بات آج ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ ظاہری شان وشوکت کے بجائے اندرونی پاکیزگی مقدم ہے ، چاہے انفرادی ہو یا معاشرے کی۔ در اصل دین فطرت فرد کی ذاتی ،سماجی معاشی اور سیاسی ضروریات سے بخوبی واقف ہے اور ان تمام پہلووں کے لئے ضابطہ زندگی فراہم کرتا ہے۔ عورت جو فرد بھی ہے اور معاشرے کا نصف بھی۔ اس کی نفسیات سے کیسے غفلت برتی جاتی؟
خواتین کے لحاظ سے دور اول جو بہترین تھا، فلک نے جس کا نظارہ پھر کبھی نہ کیاوہ امہات المومنینؓ کا سنہری دور تھا۔ روحانی اور اخلاقی برتری کا دور ،خواتین کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین دور تھا۔ جہاں فاطمہ ؓبنت رسولؐ اپنے خاوندحضرت علی ؐکے ہمراہ پر مشقت زندگی پر راضی ہیں ۔ جہاں سیدنا عمرؓ عورتوں کے مسجد آنے کی اجازت پر بحث کرتے ہیں، جہاں اُم المومنین عائشہؓ حدیث وفقہ کی روشنی بانٹتی ہیں۔ حضرت صفیہؓ یہودی جاسوس کو چوب سے مرنے کےبعد سر قلم کرتی ہیں اور جہاں سرکار دو عالمؐ اپنی رضاعی والدہ اور بہن کی تعظیم فرماتے ہیں۔ جہاں گھر، بچے، خاوند سے پہلے عورت اپنے رب کی بندگی میں آزاد تھی۔ پھر اس کے آگے کس کی مجال جو ان جیتی جاگتی مثالوں کے بعد سازشوں، خون ریزیوں کے بل پر قائم دنیاوی بادشاہتوں میں کٹھ پتلی کرداروں کی تجسیم کرے۔ نام کے سکے ڈھلنے سے حدیث کی روایت کرنا بدرجہا اولیٰ ہے۔تحریر کا مرکزی نقطہ مسلم معاشروں کی صورت حال ہے۔ جس میں مسائل اور مروجہ روایات و نظریات کا جائزہ مثالوں کے ساتھ پیش ہےمگر معاشرتی خرابیوں کی بنیادی وجوہات پر تفصیلی ،نکات وار روشنی نہیں ڈالی گئی۔ ہمارے خاندانی نظام کیا ہے؟ اسلامی یا مقامی؟ اس کی خوبیاں دوسرے معاشرے کے مقابلے میں کیا ہیں؟ جن کو بچانے کی فکر درپیش ہے؟ وہ کون سے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے بیٹی کی پیدائش پر ذلت کا داغ مٹ جائے۔ عورت کی تعلیم میں رکاوٹیں دور ہوجائیں۔ وراثت کے حقوق بن مانگے مل جائیں ۔وہ روز گار اختیار کر نے پر مجبورنہ ہو۔ آخر وہ کون سا راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر عورت کی تذلیل کا سلسلہ ختم ہو جائے جو بقول سارے زمانہ کے آج ہمارے معاشرے میں رائج ہے اور جن سے ہماری بچیوں کے آزادی نسواں کے فریب میں پھنسنے کا امکان ہے؟
ہم ایک زوال پذیر اور پسماندہ قوم ہیں مگر اپنی پسماندگی کا رونا رونے کے بجائے کامیابی کاکوئی لائحہ عمل پیش کیا جانا چاہیے۔ روحانی ترقی کی منازل طے کرکے اگلے سنہری دور کا دروازہ کھولنے کی جدو جہد پر مبنی تحریر یوم خواتین پر جذبات کو زیادہ مہمیز عطاکرتی۔ بے شک انسانی معاشرے ہر لمحے تبدیل ہورہے ہیں ہم اپنے معاشرے میں اس تبدیلی کو خیر کی طرف موڑنے کے لئے معاشرتی ڈھانچے پر تنقیدی بحث کا آغاز کب کریں گے؟اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کون کرے گا؟اگر ہم نہیں کریں گے تو کیا دوسرے تو کب کا کر چکے۔ امت کا عروج ،ظاہر ہے ہم میں سے ہر عورت اپنی زبان ، رویے اور عمل کو "سیرت صحا بیاتؓ کی روشنی میں تول کر دیکھے تو امت کا عروج یقینی ہے۔
مراسلے کا جواب حاضر ہے:
مراسلہ نگار میری بہن پتہ نہیں کیوں خاصی ناراض نظرآتی ہیں۔ اپنی بہن کی ناراضگی کو نکات وار دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوشش کی کہ ایک موضوع سے متعلق حصوں کو ایک جگہ جمع کر کے جواب دیا جائے۔ مراسلہ نگار کے الفاظ کو قوسین میں درج کیا گیا ہے:
مراسلہ نگار ابتدأ میں رقم طراز ہیں "تحریر کے تعارف میں درج دونوں معاشروں کے تقابل کو کئی بار بغور مطالعہ کرنے کے باوجود نہ پاسکی۔ بین السطور کچھ ہو تو نہیں کہا جا سکتا۔"مؤدبانہ عرض ہے کہ سب سے اوپر یہی بات اسی لیے دی گئی ہے کہ تقابل مقصد نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہیں۔ مضمون کا اصل مقصد اپنے معاشرے کے بدصورت رویوں کی نشان دہی کر کہ اس بات کا احساس دلانا تھا کہ اگر نشاۃ ثانیہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا ہے تو عورت اور حصول علم کی جدوجہد کو معاشرے میں وہی حیثیت دینی ہوگی جو میرے آقا ؐکے تشکیل کردہ معاشروں کے عروج کے ا دوار میں اسے حاصل تھی۔ پورا مضمون شروع سے آخر تک قاری کو مختلف مثالوں کے ذریعہ یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا طویل مضمون (جس کے آغاز میں Disclaimer موجود ہے) بار بار پڑھنے کے باوجود مگر اس کے اصل موضوع کو نشانہ بنانے کے بجائے اس میں وہ ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی رہی، جو اس میں تھا ہی نہیں ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
دوسرے ہی پیرا میں مضمون یہ کہہ رہا ہے کہ کسی دوسرے معاشرے کی خرابی ہمارے معاشرے کی خرابی کی دلیل نہیں بن سکتی۔ پھر بھی مراسلہ نگار مغرب سے تقابل ہی ڈھونڈتی رہیں۔ یہ یاد دلانا بر محل ہوگا کہ یہ غفلت کا شکار معاشروں کی صفت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خامیاں سن کر ہی اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں اور اپنی خوبیاں سن کر مزید چین کی نیند سوتے ہیں،دینی اورعلمی طبقات کا کام نیند سے جگانا ہوتا ہے جسے مضمون نگار انجام دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
2- آگے جا کر مراسلہ نگار رقم طراز ہیں کہ "سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدل اُمہ کو آئینہ دکھایا ہے۔"
مؤدبانہ عرض ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا تو نام بھی نہیں لیا گیا اور نہ مضمون نگار کی نظر میں یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہے، اصل مسئلہ سوچنے والے ذہن کی کمی ہے جو اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکے یا کم از کم جو لوگ مسائل کا حل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدیوں پرانے دلائل کو چھوڑ کران کی بات ٹھنڈے دماغ سے سن لی جائے۔ ٹیکنالوجی کو تو امپورٹ بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے، مگر امت کی بدحالی اور اس کے مسائل پر تنقیدی نگاہ ڈال کر ان کے اسباب کےحل کے لیے سوچ بچار کرنے والے دماغ ہمیں اپنے گھروں میں مینوفیکچر کرنے پڑیں گے۔ مگر ہم جہالت کے جس عمیق سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں وہاں ہماری نظر سائنس اور ٹیکنالوجی کے عملی مظاہر سے آگے نہیں جاتی۔ مضمون نگار کی عاجزانہ رائے میں سائنس دانوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر ہمیں پالیسی میکرز اور تھنک ٹینکس کی زیادہ ضرورت ہے، اور اس سے آگے نظریاتی اور پروفیشنل تربیت یافتہ ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں، صحافیوں اور فلم میکرز کی۔ ہم اپنے اعلیٰ ترین اذہان کو ڈاکٹر انجنیئر منیجر اور اس سے آگے بڑھ کر چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ کے طور پر skilled لیبر کا حصہ بنانے کو دنیا اور آخرت کی فلاح گردانتے ہیں کہ "مال کی محبّت" میرے سرکار کی امت کا فتنہ ہے اور نشاۃ ثانیہ کی راہ میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ کہ ایک تو حصول علم کا شوق نہیں اور اگر تھوڑا بہت ہے تو اس کا مقصد محض اپنی دنیا کو بہتر کرنا ہے، اور معذرت کے ساتھ کے دینی گھرانوں کا منشور بھی اولاد کو انہیں شعبوں میں بھیجنے تک محدود ہے جہاں سے پیسہ کمانے کی امید ہو۔ امت کے فلاح پر غور و فکر والی قوم، حصول علم کی شوقین مائیں ہی تیار سکتی ہیں جن کی دنیا کی تاریخ، معاشرت اور سیاسیات پر گہری نگاہ ہو کہ جو کتاب اس قوم پر اتری وہ جگہ جگہ غور و فکر کرنے اور زمین کی سیر کر کے ماضی سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیتی ہے۔کوئی تیرہ مقامات پر "سیروا فی الارض" کا حکم موجود ہے جس کا ذکر کسی خطیب کے خطبے میں سنائی نہیں دیتا۔اس کے لیے حضرت مریمؑکی ماں جیسا ویژن ضروری ہے۔ مضمون نگار کے نزدیک اپنے بچوں کی ماں کو ویژن دیے بغیر اور Empower کیے بغیر بہتری کی کوئی راہ نہیں، چاہے ہم جذباتی ہو کر کتنا بھی دور رسالت ؐو خلافت کی مالا جپیں۔
3. "مضمون کے مندرجات پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے ہی پیراگراف میں خطیب اور علماء کو لپیٹ لیا گیا ہے۔ علماء و خطیب تو آقائے نامدارﷺ کی سیرت بیان کرتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ کے فہم وفراست اور فلسفہِ علی کرم اللہ کے تذکرے کرتے ہیں۔ مغرب کے خطیب ہارون اور مامون کو دہراتے ہوں گے۔" آگے جا کر ایک جگہ لکھتی ہیں کہ "پھر اس کے آگے کس کی مجال جو ان جیتی جاگتی مثالوں کے بعد سازشوں ،خون ریزیوں کے بل پر قائم دنیاوی بادشاہتوں میں کٹھ پتلی کرداروں کی تجسیم کرے ۔نام کے سکے ڈھلنے سے حدیث کی روایت کرنا بدرجہا اولیٰ ہے۔"
(بقیہ اگلے’’ گوشہ خواتین‘‘ میں ملاحظہ کیجئے )