۔3. "مضمون کے مندرجات پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے ہی پیراگراف میں خطیب اور علماء کو لپیٹ لیا گیا ہے۔ علماء و خطیب تو آقائے نامدارﷺ کی سیرت بیان کرتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ کے فہم وفراست اور فلسفہِ علی کرم اللہ کے تذکرے کرتے ہیں۔ مغرب کے خطیب ہارون اور مامون کو دہراتے ہوں گے۔" آگے جا کر ایک جگہ لکھتی ہیں کہ "پھر اس کے آگے کس کی مجال جو ان جیتی جاگتی مثالوں کے بعد سازشوں ،خون ریزیوں کے بل پر قائم دنیاوی بادشاہتوں میں کٹھ پتلی کرداروں کی تجسیم کرے ۔نام کے سکے ڈھلنے سے حدیث کی روایت کرنا بدرجہا اولیٰ ہے۔"
تاریخ سے واقف خطیب بیت الحکمہ کے دور کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ دور رسالتؐ کے علاوہ کسی اور تاریخی کردار کا تذکرہ کیا مراسلہ نگار کے نزدیک حرام ہے؟ کیا خدانخواستہ ہماری چودہ سو سالہ تاریخ دور رسالت ؐو خلافت کے بعد بانجھ ہوگئی تھی؟ مراسلہ نگار بتانا چاہیں گی حدیث کے علاوہ اور کوئی مثال دینا کس اصول کے تحت گناہ ہے۔ یا ہماری دینی غیرت اب اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ آقائے نامدارؐ، صحابہ اور صحابیاتؓ کے علاوہ کسی اور تاریخی کردار کا تذکرہ Blasphemy شمار ہوگا؟
4. "بنو عباس کا عہد محض ایک عورت پر نہ قائم ہوا تھا اور نہ ہی برقرار رہا۔ یہ تاریخ سے ثابت ہے۔"
یہ دعویٰ مراسلہ نگار کو مضمون میں جہاں نظر آیا اس کی نشان دہی کر دیں۔مراسلہ نگار مضمون میں ایسی باتیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو اس میں موجود نہیں اور جو موجود ہے یعنی حل اس کے وجود کا انکار کر رہی ہے .
5. "اس سے پہلے امویوں کا بانوے سالہ دور بھی۔ بنو امیہ نے اقتدار کے لیے کیا حربے استعمال کیے؟ عباسیوں کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کیا؟ اور پھر عباسیوں کی خون ریزیاں ثقافتی اور سنہری دور کے پردے میں کس طرح دھندلا دی گئیں؟ یہ مسلمانوں کے سیاسی عروج کا زمانہ تھا۔ جس کی بنیاد قرون اول کے افراد نے ڈالی تھی۔ خیز راں کا کردار بطور مسلمہ رول ماڈل ایک خاص مائنڈ سیٹ کی حکمت عملی ہے۔ کنیز سے ملکہ کا سفر یوں ہی نہیں طے ہوا تھا۔ اس کی ترقی کا راز علم ، حکمت اور صلاحیتوں کے علاوہ ذاتی پسند نا پسند اور پالیسیوں میں مضمر تھا۔"مضمون نگار تاریخ اور صحافت کی ادنیٰ طالبعلم ہے مراسلہ نگار جتنا علم نہیں رکھتی مگر مؤدبانہ عرض ہے کہ کسی بھی مضمون میں مثال ایسی منتخب کی جاتی ہے جو نفس مضمون کے مقصد کو پورا کرتی ہو۔ محض تاریخ کے تذکرے سے علمی قابلیت کا اظہار مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ مثال جس ادارے، فرد یا دور کی دی جائے اس کا بھی وہ پہلو زیر بحث لایا جاتا ہے جو مضمون سے متعلق ہو۔ اموی اور عباسی سلطنت کی سیاسی اور عسکری تاریخ نفس مضمون نہیں ہے۔ ہاں یوم خواتین کے موقع پر اس دور کی ایک ماں کو ضرور یاد کیا گیا ہے کہ جب مسلمان دنیا کی علمی اور سیاسی امامت کر رہی تھے اور بغداد کو واحد سپر پاور کی حیثیت حاصل تھی کہ ایک سابق سپر پاور کو دور فاروقی میں فنا کر دیا گیا تھا اور دوسری سے عباسی دور میں خراج وصول کیا جاتا تھا تو یہ جائزہ لے لیا جائے کہ ماؤں کا قبلہ کس طرف تھا ع
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظرکیا کیجے
دنیا کے عظیم ترین ریسرچ کے مرکز بیت الحکمہ کی تعمیر میں ایسی ماؤں اور دادیوں کا کردار رہا ہوگا جو غلامی میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہ رہیں، یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے، جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس میں خیزران کی خوبی کا شاید اتنا دخل نہ ہو جتنا بادشاہ کے انتخاب کا کہ اس دور میں بادشاہ کی ذاتی پسند پر پورا اترنے کے لیے اور کنیز سے ملکہ کا سفر کے لیے بھی علم کا حصول لازمی تھا۔ یہی وہ معاشرتی فکر ہے، جس کی دوبارہ ترویج کی مضمون نگار خواہش مند ہے کہ میرے آقا کے تشکیل کردہ معاشروں میں عورت کی انٹلیکچوئل اہلیت کی بھی جانچ ہوتی تھی اور اس کی ذہنی صلاحیت کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ یہ مضمون نگار کا ذاتی تجزیہ ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر جس دور میں یمن سے اسپین تک مسلم دنیا کتاب کے سحر میں گرفتار تھی، اس دور کی کسی مثال کے انتخاب پر مراسلہ نگار اتنی چراغ پا کیوں ہیں، اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی؟ جہاں تک اموی اور عباسیوں کے ایک دوسرے کے خلاف حربوں کا تعلق ہے تو وہ اس دور کے سیاسی تقاضے تھے اور اس کا مضمون کے متن سے کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔جہاں تک ایک کنیز کے ملکہ بننے کا تعلق ہے تو یہ میرٹ بھی میرے آقا کے تشکیل کردہ معاشرے کی خوبیوں ہی کا ایک اعجاز ہے کہ بادشاہ کی ذاتی پسند ایک اعلیٰ خاندانی بیوی کو چھوڑ کر اپنی ملکہ بنانے کے لیے ایک ادنیٰ کنیز کا انتخاب کرے اور اس میں کوئی شرم محسوس نہ کرے۔ آگے چل کر میرٹ کے اصول کی بنیاد پر تشکیل کردہ معاشرے میں یورپ سے لائے ہوے غیر عرب غلام بادشاہ بن جاتے ہیں اور مصر، شام، فلسطین اور یمن کے ساتھ ساتھ حجاز کے سید النسل کے لوگوں پر بھی حکومت کرتے ہیں۔ کیا مراسلہ نگار ان غلاموں کی مثال پر ایسے ہی چراغ پا ہوں گی کہ غلام سے بادشاہ کا سفر "ذاتی پسند ناپسند" یا "پالیسیوں" (ہمارے نزدیک سیاسی تقاضے) کی بنیاد پر طے ہوا؟ یا "یوں ہی طے نہیں ہو گیا " کا یہ اعتراضات مراسلہ نگار کے نزدیک خواتین تک ہی محدود ہے؟اسلامی تاریخ سازشوں سے آلودہ اور خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ بات مغربی متعصب مصنفین دور خلافت کے عسکری اور بنو عباس کے دور کے علمی کارناموں کو دھندلانے کے لیے ضرور کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو تمام تر خرابی کے باوجود بنو امیہ اور بنو عباس کو اسلامی دور ہی سمجھا۔ رہا سوال قتل اور فتنہ کا تو ہم سب جانتے ہیں کہ آخری دو خلیفہ راشد کی شہادت اسی کی وجہ سے ہوئی۔ اس سے آگے خاندان رسولؐ کے ساتھ کربلا میں جو کچھ ہوا اس کا مضمون کے متن سے کوئی تعلق نہیں مگر واقعہ کربلا مراسلہ نگار کے مؤقف کو کمزور ہی نہیں کر رہا بلکہ اس کی قطعی طور پر نفی کر رہا ہے۔
6. مراسلہ نگار آگے ایک جگہ لکھتی ہیں کہ "ہم ایک زوال پذیر اور پسماندہ قوم ہیں مگر اپنی پسماندگی کا رونا رونے کے بجائے کوئی لائحہ عمل پیش کیا جانا چاہیے۔" آخر میں پھر رقم طراز ہیں کہ "بے شک انسانی معاشرے ہر لمحے تبدیل ہو رہے ہیں، ہم اپنے معاشرے میں اس تبدیلی کو خیر کی طرف موڑنے کے لیے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کون کرے گا؟ اگر ہم نہیں کریں گے تو کیا دوسرے تو کب کا کر چکے۔"
کوئی رات بھر قصہ یوسف ؑسنے اور صبح اٹھ کر کہے زلیخا مرد تھی یا عورت تو اس کے جواب میں سر ہی پیٹا جا سکتا ہے۔ میری بہن یہ مضمون معاشرتی ڈھانچے پر تنقیدی بحث کا آغاز ہی ہے، آپ بھی وسیع النظری کا ثبوت دیں ،اور اس بحث کو آگے بڑھائیں۔ مضمون کا واضح اور بین السطور مقصد یہ احساس دلانا بھی تھا کہ جب تک ہم اپنی معاشرتی خرابیوں کا بے لاگ جائزہ لے کر انہیں دور نہ کریں گے جب تک نشاط ثانیہ سمیت کسی خواب کی تکمیل ممکن نہیں۔ معاشرتی فکر کی تبدیلی ہی وہ حل ہے۔ رہا سوال کون کرے گا تو ہم سب کو اپنی اپنی جگہ رہ کر کام کرنا ہے۔ ’’بتول‘‘ کے قاری کو ایک داعی کے طور پر معاشرے کی توجہ دلوانی ہے اور لکھنے والوں کو قلم کے ذریعہ۔ویسے تفصیلی جواب سننا چاہتی ہے تو مذہبی، علمی اور ادبی اور سیاسی طبقات معاشرے میں تبدیلی کا سب سے بڑا انسٹرومنٹ ہوتے ہیں اور اس کے لیے لکھنے والے معاشرے کی علمی اور ادبی رہنمائی بھی ماشاللہ مقدور بھرکر رہے ہیں۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ مضمون شروع سے آخر تک اسی حل کی طرف توجہ دلوا رہا مگر مراسلہ نگار کی تیز نگاہ غالباً تقابل کی خواہش میں اسے نظر انداز کرگئی.ع شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
7. آگے چل کر میری بہن شکایت کرتی ہیں کہ "تحریر کامرکزی نقطہ مسلم معاشروں کی صورت حال ہے۔ جس میں مسائل اور مروجہ روایات و نظریات کا جائزہ مثالوں کے ساتھ پیش ہے۔مگر معاشرتی خرابیوں کی بنیادی وجوہات پر تفصیلی ،نکات وار روشنی نہیں ڈالی گئی۔" آگے پوچھتی ہیں "وہ کون سے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے بیٹی کی پیدائش پر ذلت کا داغ مت جائے۔آخر وہ کون سا راستہ ہے جس پر گامزن ہو کر عورت کی تذلیل کا سلسلہ ختم ہو جائے جو بقول سارے زمانہ کےآج ہمارے معاشرے میں رائج ہے اور جن سے ہماری بچیوں کے آزادی نسواں کے فریب میں پھنسنے کا امکان ہے؟"
میری بہن اسباب کے لیے ہی اتنی لمبی تمہید بندھی گئی ہے کہ ہم نے قرآن میں جو مرتبہ عورت کو دیا گیا، اسے، اور جو معاشرہ میرے سرکار ؐنے تشکیل دیا، اس میں عورت کی جو حیثیت تھی، اسے فراموش کر دیا گیا ہے، اور ہم اسے دوسرے معاشروں اور نظریات کے زیراثر دوبارہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اس کا رول ہانڈی چولہے تک محدود رکھنے اور اسے گھرداری کا سلیقہ ہی سکھانے کو اس کے وجود کا مقصد مان لیا گیا۔ اسے دینی اور علمی سرگرمیوں اور بحثوں سے الگ کر دیا گیا۔یہ ہمارے زوال کے ایک اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہےاور اس کا حل جو پورے مضمون میں کہیں واضح اور کہیں بین السطوردرج ہے وہ یہ کہ ہمیں معاشرتی فکر میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہےاور اس کا علاج دوسرے معاشروں سے تقابل کر کے اپنے کو اعلیٰ اخلاقی مناسب پر فائز کرنا نہیں، بلکہ عورت کی جو درگت ہمارے معاشرے میں بن رہی ہے، اسے درست کرنے کی نظریاتی، فکری اور عملی جدو جہد کرنا ہے۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ یہ کون کرے گا؟ تو جواب پھر حاضر ہے کہ میں اور آپ کریں گے۔ یہ کام طویل جدو جہد کا متقاضی سہی لیکن اس کے بغیر چارہ نہیں۔ بچیوں سے متعلق ان ایشوز کو جن کا مضمون میں تذکرہ کیا گیا اور بہت سے ایسے ایشوز کا جن کا تذکرہ نہیں کیا گیا اپنی گفتگوؤں میں لیکر آئیں گے اور قرآن و سنت کو اپنے عمل کی میزان بنائیں گے۔ جب ہم اپنی ذاتی گفتگو اور سماجی فورمز اور دروس میں ان موضوعات کو شامل کریں گے تو معاشرے کی فکر میں تبدیلی آئے گی لیکن صدیوں کے جمود کو ہفتوں یا سالوں میں نہیں توڑا جا سکتا اس میں وقت لگے گا۔ ہماری بچیاں حمل سے ہوں گی تو انھیں لڑکے کے حصول کے وظیفے بتانے کے بجائے انہیں ایسے جسمانی اور ذہنی مشاغل میں مصروف رہنے کی ہدایت دیں گے جو آنے والے یا والی کی ذہنی نشونما میں معاون ہوں کہ میرے آقا کی امت کو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح سوچنے والے ذہن کی ضرورت ہے۔اس سے آگے بڑھ کر ہمارے گھروں اور خاندانوں میں یہ بحثیں چھیڑنے کی ضرورت ہے کہ جہاں کہیں بیٹی پیدا ہو میں اور آپ بھرپور مبارکباد کے پردے میں ماں اور باپ کو ان کی بیچارگی کا احساس دلانے والے نہ ہوں بلکہ امت کے مستقبل کی ماں کو ویژن دینے کی اور نئی نسل کی تعمیر کے لیے تیار کرنے کی حوالے سے گفتگو ہو. ان شاءللہ اس سے ایک چین ری ایکشن کا آغاز ہوگا. کام طویل ہے لیکن سمت درست ہو تو منزل ما دور نیست۔ جن معاشرتی رویوں کا تذکرہ میری بہن آپ نے کیا وہ معاشرتی فکر میں تبدیلی سے ختم ہوں گے.
8. آگے میری دینی بہن رقم طراز ہیں "اس کے مقابل دوسو سال پہلے جس اسلامی معاشرے کی بنیاد مدینہ میں ڈالی گئی تھی خواتین کے کردار عباسیوں کے سنہری دور سےبہت زیادہ بلند نظر آتے ہیں ۔یہ اسلام کا روحانی عروج کا دور کہلاتا ہے۔ یہ بات آج ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ ظاہری شان وشوکت کے بجائے اندرونی پاکیزگی مقدم ہے ، چاہے انفرادی ہو یا معاشرے کی ۔"مضمون نگار تعصب کی عینک اتر کر دیکھیں تو مضمون میں انھیں حضرت مریم ؑسے لے کر حضرت عائشہ ؓ اور دور فاروقیؓ تک کی مثالیں نظر آ جائیں گی مگر پھر عرض ہے کہ مثال نفس مضمون کے مطابق ہونی ضروری ہے. دور رسالتؐ اور عباسی دور کا تقابل مراسلہ نگار کو کہاں نظر آیا؟ جن باتوں کا پورے فسانے میں ذکر نہیں ان پر بہن کو کیوں اتنا اصرار ہے۔ دور رسالتؐ کی روحانی پاکیزگی کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کا نبی (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) درمیان میں موجود تھے اور قرآن لائیو نازل ہو رہا تھا، مگر کسی "ذی عقل" تو چھوڑیں، ایک عام ذہن رکھنے والا بھی یہ بات محسوس کر سکتا ہے کہ نفس مضمون نہ تو "روحانی پاکیزگی" ہے اور نہ ہی "ظاہری شان و شوکت" مضمون نگار تو یوم خواتین کے موضوع پر خواتین کے حقوق اور ان سے اُمت کا عروج و زوال جڑا ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوشش کامیاب ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتی ہے۔ اگر مراسلہ نگار کو اس تجزیہ پر اعتراض ہے تو وہ صاف صاف کیوں نہیں کہتیں؟ خواتین کے حصول علم کے شوق کی اپنی نرینہ اولاد میں منتقلی کی طرف امت کا دھیان دلانے کے لیے مضمون نگار کو ہارون کی اور مامون کی دادی کی مثال بر محل لگی اور اس کے استعمال پر اسے اب بھی کوئی افسوس نہیں۔ پھر بھی مضمون نگار نے پھر بھی اصرار کیا کہ دور رسالت سے لیکر بعد کے ادوار تک اس موضوع پر یعنی مسلمانوں کے عروج و زوال پر سنجیدہ تحقیق ہونی چاہیے۔
9. آگے چل کر بہن مزید لکھتی ہیں، "خواتین کے لحاظ سے دور اول جو بہترین تھا فلک نے جس کا نظارہ پھر کبھی نہ کیاوہ امہات المؤمنینؓ کا سنہری دور تھا۔ روحانی اور اخلاقی برتری کا دور، خواتین کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین دور تھا۔ جہاں فاطمہؓ بنت رسولؐ اپنے خاوندحضرت علی ؓکے ہمراہ پر مشقت زندگی پر راضی ہیں۔ جہاں سیدنا عمرؓ عورتوں کے مسجد آنے کی اجازت پر بحث کرتے ہیں، جہاں عائشہؓ حدیث وفقہ کی روشنی بانٹتی ہیں۔ حضرت صفیہ ؓیہودی جاسوس کو چوب سے مرنے کے بعد سر قلم کرتی ہیں۔ اور جہاں سرکار دو عالم ؐاپنی رضاعی والدہ اور بہن کی تعظیم فرماتے ہیں۔ جہاں گھر، بچے، خاوند سے پہلے عورت اپنے رب کی بندگی میں آزاد تھی۔" آگے مزید لکھتی ہیں، "امت کا عروج، ظاہر ہے ہم میں سے ہر عورت اپنی زبان، رویے اور عمل کو سیرت صحابیات کی روشنی میں تول کر دیکھے تو امت کا عروج یقینی ہے."بار بار دہرائے گئے جملوں ایک بار پھر دہرانا یا جذباتی عقیدت کا اظہار مقصود ہوتا تو میں بھی "چشم فلک کے نظاروں" اور اپنے "اعمال تولنے" کو عروج کا راستہ گردانتی مگر گستاخی معاف کہ مضمون نگار کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ محض ان جذباتی باتوں سے ہم نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تکمیل کر سکتے ہیں.معاشرے ہمیشہ تغیرات کی زد میں رہتے ہیں ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اور ان تغیرات سے نمٹنے کے لیے دینی، علمی اور سیاسی لیڈرشپ میں بالغ نظری کی ضرورت ہے تاکہ آج کے دور میں امت کو جو چیلنجز درپیش ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید فکری ہتھیاروں سے لیس ایک ٹیم تیار کی جا سکے۔ یہی وہ حل ہے جس کے لیے ماں کا حصول علم کا شوق بہت اہم ہے۔ مضمون میں بار بار یہی حل دہرایا گیا۔ آج کے دور کے چیلنجز مختلف ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹریٹجیز بھی آج کے دور کے انسان ہی کو تلاش کرنی ہوں گی۔ اس دور کا تذکرہ ایسے کرنا کہ "چشم فلک نے دیکھا نہ سنا" اس طرز فکر پر بھی ہمیں نظر ثانی کرنی ہوگی کہ جو کچھ ہونا تھا اس دور میں ہو گیا، اب آگے کچھ کرنے کی نہ گنجائش ہے اور نہ مسلمان قوم میں اس کی استطاعت ہے۔ راقم کا ماننا ہے کہ ہر دور کے اپنے چیلنجز ہیں اور اس کا مقابلہ اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے اسی دور اور سرزمین میں رہتے ہوئے زمینی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جا سکتا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ اسی لیے آنحضرت ؐنے معاذ بن جبل کو یمن بھیجتے ہوئے پہلے قران، پھر سنت، پھر اجتہاد کا حکم دیا گیا۔ اجتہاد دراصل ان نئے چیلنجز سے نمٹنے ہی کا نام ہے جو ہمیں قران اور حدیث میں نہیں ملتے۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ اس دور میں بھی معاشرے کو چیلنجز کا سامنا تھا اور آج بھی ہے۔ انسانی جذبات اس وقت بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں۔ ہاں اس وقت اللہ کا رسول ان کے درمیان موجود تھا اور لائیو وحی نازل ہو رہے تھی۔ واقعہ افک اس دور کی انسانی کمزوریوں کی ایک مثال ہے لیکن مراسلہ نگار قرآن پاک اٹھا کر دیکھیں تو سورہ تحریم، سورہ آل عمران، سورہ توبہ، سورہ نور میں اس دور کے مسلمانوں اور سرکار کے قریبی ساتھیوں ہی کی کمزوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ موضوع بہت وسیع ہے اور ایک الگ مضمون کا مطالبہ کرتا ہے۔
ہم جب اس دور کی عورت کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں تسبیح فاطمی تو یاد رہتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے سرکار ؐکی بیٹیوں اور بیویوں کا تقابل ہم اپنے گنہ گار وجود سے نہیں کر سکتے مگر ہم حضرت فاطمہؓ کو اپنا لیڈر ماننے والی آج کی ہزاروں عورتوں کی مشقّت زندگی کو بھول جاتے ہیں جو اس دور سے بہت زیادہ complex انوائرنمنٹ میں اپنے گھر اور بچوں کو بھی دیکھ رہی ہے، بعض سورتوں میں اپنے شوہر کے گھر والوں کی خدمت بھی اس کی ذمہ داری ہے اور کبھی کبھی اسے خاندان کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے بھی نکلنا پڑتا ہے، مگر اگر کبھی وہ کسی تکلیف کی شکایت کرے تو ہمارے معاشرے کے کچھ طبقا ت اسے ڈرامہ قرار دیتا ہے۔ کوئی یہ یاد نہیں دلاتا کہ میرے سرکار نے یا کسی صحابیؓ نے کبھی نہیں کہا کہ عورتیں ڈرامہ کرتی ہیں اور اس امت کی ماؤں کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کر کے، جسے آپ کی نسلوں کو پروان چڑھانا ہے، ہم نئی نسل کو کیا بتا رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی زبان موقع پر ہی پکڑی جائی اور دور رسالتؐ و صحابہؓ کی یاد دلائی جائے، مگر ایسے مواقع پر ہمیں کوئی واقعہ یاد نہیں آتا۔مغرب کے مکین ہونے کا لحاظ خیر یہ سب میرا ذاتی تجزیہ ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر جو چیز پھانس کی طرح دل میں ترازو ہوگئی، وہ ذاتیات پر مبنی یہ جملہ تھا "شاید مغرب کے مکیں ہونے کا لحاظ کیا ہو۔"
مؤدبانہ عرض ہے کہ مسلم معاشروں کے قارئین کے لیے مسلمانوں کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دینا اور مغرب میں بیٹھ کر مشرق کی کمزوریاں بیان کرنا اور دونوں صورتوں میں داد سمیٹنا بہت آسان ہے۔جو چیز مشکل ہے اور جس پر ہم جیسوں کو ہر جگہ جوتے پڑتے ہیں وہ Counter Narrative دنیا ہے کہ جسے سننے کے لیے غفلت کا شکار مسلم معاشروں میں تو خیر مغرب میں بھی برداشت ذرا کم ہے۔ لگتا ہے راقم کا بیانیہ narrative عام بیانیہ سے اتنا ہٹ کر ہے کہ مراسلہ نگار کو نیت پر ہی شبہ ہو گیا شاید اس لیے کہ میں مغرب کی مکین ہوں اور اسلام صرف مشرق کے لیے اترا ہے۔ مغرب کی وادیوں میں اذان دینے کا اور یہاں چرچ خرید کر (بعض جگہوں پر ) ہزاروں مسجدیں قائم کرکے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا جو گناہ کر رہے ہیں ۔اس کے بعد ہماری بات قابل غور ہو بھی نہیں سکتی ع
تم ہی بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے
مراسلہ نگار کے نزدیک میرا قصور یہ ہے کہ میں نے مغربی عورت سے تقابل کی ضرورت محسوس نہیں کی یا صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے علاوہ بھی اسلامی تاریخ سے کوئی مثال دے دی؟ کیا اس چھ ہزار الفاظ کے طویل مضمون کے اصل موضوع کو چھوڑ کر یہی اعتراضات قابل توجہ تھے۔ مراسلہ لکھ کر مجھے اپنا مؤقف مزید واضح کرنے کا موقع دینے کا شکریہ۔ آخر میں میں مضمون نگار سے درخواست کروں گی کہ آپ کو اللہ نے قلم کی جو طاقت دی ہے اسے خیر کی جدوجہد کا ساتھ دینے کے لیے بروئے کار لائیں۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔