ریاست کے گرمائی دارالحکومت میں دربار مو سے منسلک دفاتر کی جموں منتقلی کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور آئندہ ہفتے سرینگر میں دفاتر بند ہو کر 5نومبر کو جموں میں کھل رہے ہیں۔اگرچہ سرینگر اور جموں میں باری باری دربار کا لگنا اور بند ہونا کوئی نہیں بات نہیں ہے بلکہ کم و بیش گزشتہ ڈیڑھ صدی سے جاری ہے اور یہ عمل ہر دور میں ریاستی عوام کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں رہاہے۔کیا جموں کشمیر میںاس فرسودہ روایت کا کبھی خاتمہ ہوگا، جو اقتصادی لحاظ سے اس پسماندہ ریاست کے خزانہ عامرہ پر ایک غیر ضروری بوجھ ہے؟عقل کا تقاضا ہے کہ جس ریاست کے پاس اپنے ذرائع سے ملازمین کی تنخواہیں فراہم کرنے کی سکت بھی نہ ہو، اس میں اس طرح کی شاہ خرچیوں کا تصور کرنا بھی حماقت ہے۔ ڈوگرہ شخصی حکمرانوں کے پاس دربار مو کی روایت قائم کرنے کی ایسی وجوہات تھیں جس کا موجودہ زمینی حالات کے ساتھ ذرّہ بھر تعلق نہیں ہے۔ ایک تو وہ شخصی حکومتی سلسلہ کے داعی تھے، جس میں اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب اور درباریوں کی زیادہ فکرکرنا سسٹم کا حصہ ہوتا تھا۔ ثانیاً یہ کہ اس زمانے میں واقعی شدت کی سردیوں اور ہوش اڑادینے والی گرمیوں کے تدارک کیلئے وہ ساری سہولیت میسر نہ تھیں جو آج ہیں۔ویسے بھی ڈیڑھ صدی قبل کے شاہی دربار کے بارے میں تصور کریں تو وہ کبھی اتنا بڑا نہیں رہا ہوگا ، جتنا آج ہے۔ گورنر ہائوس اور منتخب حکومت کے دوران وزیر اعلیٰ آفس سے لیکر درجنوں وزراء کا لاو لشکرتقریباً دس ہزار ملازمین کا قافلہ جب ہزاروں فائلوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے تو لوگوں پر گویا مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔کشمیرخطے میں اب سردی کی شدت سے لوگ بے حال ہوجائیںگے اور اسی بدحالی میں انہیں ارباب اقتدار اور بہتر انتظامیہ کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ لیکن ’ جمہوری حکومت عوام کو اس بدحالی میں چھوڑ کرروانہ ہو جائے گی۔ بالکل ایساہی جموں میں بھی ہوتا ہے جب دربار واپس سرینگر آتا ہے۔ اس منتقلیکے باعث پیدا ہونے والے ان گنت مسائل کی وجہ سے ریاست کے دونوں خطوں کی آبادی کی کمر دوہری ہوجاتی ہے ، لیکن مصائب کے مواقع پر حکومت کے فیصلہ ساز دارے اُن سے سینکڑوں میل دور ہوتےہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دو دار الحکومتوں کے درمیان اس شفٹ کا سب سے زیادہ خمیازہ کشمیری عوام کو اٹھا نا پڑ تاہے۔سرما میں یہاں بجلی بحران بھی اپنی انتہائوں پر ہوتا ہے اور واحد شاہراہ وقفے وقفے سے بندہوجانے کی وجہ سے اشیائے لازمہ اور رسوئی گیس وغیر کی کی قلّت بھی ہوجاتی ہے۔ایسے میں اگر ارباب اقتدار یہاں بیٹھیں تو شاید انہیں بھی آٹے دال کے بھائو معلوم پڑتے اور اس کے نتیجے میںشاید وہ اس طرح کے مسائل کا تدارک بھی کرتے۔اگرچہ حکومتی انتظام کے تحت دربار کی منتقلی کے دوران باری باری اعلیٰ حکام وادی اورجموں میں رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ محض ایک یا دو وزراء کے قیام سے ان گنت مسائل حل ہونے کا توقع رکھنا بھی عبث ہے۔دربار مو کے اس عمل کی حمائت کرنے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں وادی اور جموں دونوں خطوں کی آبادیوں کو یکساں طور حکومت کی قربت نصیب ہوجاتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جموں کے پیر پنچال اور چناب خطوں کے باشندگان کیلئے اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ انہیں اپنے مسائل نمٹانے میں سرینگر سیکرٹریٹ جانا پڑ ے یا جموں سیکرٹریٹ۔ کیونکہ انہیں ہر دو صورت میں لمبی مسافتیں طے کرنا پڑتی ہیں۔دربار مو صرف عوام کے مسائل میں اضافے کا باعث ہی نہیں بنتا ہے بلکہ اس دقیانوسی روایت کی وجہ سے خزانہ عامرہ پر بے تحاشا بوجھ پڑنے کے ساتھ ساتھ وقت کا زیاں بھی ہوجاتا ہے۔ ہر بار دربار موء کیلئے فائلیں سمیٹنے ، اور پھر انہیں اور ملازمین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں 10 دن سے20 دن کا وقت نکل جاتا ہے اور سال میں دو بار اس عمل کو دہرانے کا مطب یہ ہوا کہ کام کاج کا ایک مہینہ ضائع ہوجاتا ہے۔متمدن معاشروں میں اس حد تک وقت ضائع کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ دربار موء کے اس نقصان دہ عمل کو بدلنے کے بارے میں ایک مثبت سوچ ابھاری جائے۔ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرورہوتا ہے لیکن اسکے لئے مثبت اپروچ ،جرات اور ٹھوس اقدمات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ابتدائی مرحلے پر ایسی کسی تبدیلی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے اس موضوع پر ایک بحث چھیڑنے کی ضرورت ہے جس کے دوران ماہرین کی آرا جمع کی جاسکتی ہیں، تاکہ ایک ایسا نظام معرض وجود لایا جاسکے جسکے نتیجے میں ریاست کے ہر خطے کے لوگوں کوآسانی سے بہتراور شفاف انتظامیہ میسر رہے اور خزانہ عامرہ کو اضافی بوجھ سے بچایا جاسکے۔کیا حکومت اس نازک لیکن اہم مسئلے پر ایک کھلی بحث شروع کرائے گی؟۔فی الوقت ریاست میں کوئی منتخب حکومت نہیں لہٰذا گورنر حکومت کو عوام کے مصائب اور مشکلات کا ازالہ کرنے کےلئے خصوصی انتظامات کرنے چاہیں۔