چھ ماہ تک سکریٹریٹ جموں میں رہنے کے بعد اب سری نگر میں کھْل رہا ہے اور عوام کوضروریہ اْمید ہے کہ متعلقہ محکموں میں کام کاج بغیر کسی تاخیر کے شروع ہوگا تاکہ دربار کی منتقلی کے سبب رْکے پڑے کاموں کی انجام دہی کی راہ ہموارہو۔ اگرچہ سرینگر اور جموں میں باری باری دربار کا لگنا اور بند ہونا کوئی نہیں بات نہیں ہے بلکہ یہ کم و بیش گزشتہ ڈیڑھ صدی سے جاری ہے اور یہ عمل ہر دور میں ریاستی عوام کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں رہاہے۔کیا کبھی جموں کشمیر میںاس فرسودہ روایت کا خاتمہ ہوگا، جو اقتصادی لحاظ سے اس پسماندہ ریاست کے خزانہ عامرہ پر ایک غیر ضروری بوجھ ہے؟عقل کا تقاضا ہے کہ جس ریاست کے پاس اپنے ذرائع سے ملازمین کی تنخواہیں فراہم کرنے کی سکت بھی نہ ہو، اس میں اس طرح کی شاہ خرچیوں کا تصور کرنا بھی حماقت ہے۔ ڈوگرہ شخصی حکمرانوں کے پاس دربار مو کی روایت قائم کرنے کی ایسی وجوہات تھیں جس کا موجودہ زمینی حالات کے ساتھ ذرّہ بھر تعلق نہیں ہے۔ ایک تو وہ مطلق العنان راجہ تھے اور رعایا سے زیادہ انہیں خود کی، اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب اور درباریوں کی زیادہ فکر تھی۔ ثانیاً یہ کہ اس زمانے میں واقعی شدت کی سردیوں اور ہوش اُڑادینے والی گرمیوں کے تدارک کیلئے وہ ساری سہولیت میسر نہ تھیں جو آج ہیں۔ویسے بھی ڈیڑھ سو سال پہلے کے شاہی دربار کے بارے میں تصور کریں تو وہ کبھی اتنا بڑا نہیں رہا ہوگا ، جتنا آج ہے۔ ہزار وںملازمین کا قافلہ جب ہزاروں فائلوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے تو لوگوں پر گویا مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔جموں خطے میں اب گرمی کی شدت سے لوگ بے حال ہوجائیں گے۔اور اسی بدحالی میں انہیں اربارب اقتدار اور بہتر انتظامیہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن عوام کو اس بدحالی میں چھوڑ کر چلے آئےہیں۔ بالکل ایسا وادی میں بھی ہوتا ہےجب موسم سرما شروع ہوتے ہوتے دربار جموں منتقل ہوتا ہے اورموسم کے باعث پیدا ہونے والے ان گنت مسائل کی وجہ سے یہاں کی آبادی کی کمر دوہری ہوجاتی ، لیکن انہیں مصائب کے مواقع پر حکومت یہاں سے سینکڑوں میل دور ہوتی ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دو دار الحکومتوں کے درمیان اس شفٹ کا سب سے زیادہ خمیازہ کشمیری عوام کو اٹھا نا پڑ تاہے۔سرما میں یہاں بجلی بحران بھی اپنی انتہائوں پر ہوتا ہے اور واحد شاہراہ وقفے وقفے سے بندہوجانے کی وجہ سے اشیائے لازمہ اور رسوئی گیس وغیر کی کی قلّت بھی ہوجاتی ہے اور رواں برس تو اس حوالے سے وادی کے عوام پر طرح طرح کے مصائب ٹوٹ پڑے ہیں۔ایسےمیں اگر ارباب اقتدار یہاں بیٹھیں تو شاید انہیں بھی آٹے دال کے بھائو معلوم پڑتے اور اس کے نتیجے میںشاید وہ اس طرح کے مسائل کا تدارک بھی کرتے۔اگرچہ حکومتی انتظام کے تحت دربار کی منتقلی کے دوران عوامی حکومت میں باری باری ایک دو وزراء اور گورنر راج میں مشیر وادی اورجموں میں رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ محض ایک یا دو صاحبانِ اقتدار کے قیام سے ان گنت مسائل حل ہونے کا توقع رکھنا بھی عبث ہے۔دربار مو کے اس عمل کی حمائت کرنے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں وادی اور جموں دونوں خطوں کی آبادیوں کو یکساں طور حکومت کی قربت نصیب ہوجاتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جموں کے پیر پنچال اور چناب خطوں کے باشندگان کیلئے اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ انہیں اپنے مسائل نمٹانے میں سرینگر سیکرٹریٹ جانا پڑ ے یا جموں سیکرٹریٹ۔ کیونکہ انہیں ہر دو صورت میں لمبی مسافتیں طے کرنا پڑتی ہیں۔دربار مو صرف عوام کے مسائل میں اضافے کا باعث ہی نہیں بنتا ہے بلکہ اس دقیانوسی روایت کی وجہ سے خزانہ عامرہ پر بے تحاشا بوجھ پڑنے کے ساتھ ساتھ وقت کا زیاں بھی ہوجاتا ہے۔ ہر بار دربار موء کیلئے فائلیں سمیٹنے ، اور پھر انہیں اور ملازمین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں 10 دن سے20 دن کا وقت نکل جاتا ہے اور سال میں دو بار اس عمل کو دہرانے کا مطب یہ ہوا کہ کام کاج کا ایک مہینہ ضائع ہوجاتا ہے۔متمدن معاشروں میں اس حد تک وقت ضائع کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ دربار موء کے اس نقصان دہ عمل کو بدلنے کے بارے میں ایک مثبت سوچ ابھاری جائے۔ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرورہوتا ہے لیکن اسکے لئے مثبت اپروچ ،جرأت اور ٹھوس اقدمات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ابتدائی مرحلے پر ایسی کسی تبدیلی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے اس موضوع پر ایک بحث چھیڑنے کی ضرورت ہے جس کے دوران ماہرین کی آرا جمع کی جاسکتی ہیں، تاکہ ایک ایسا نظام معرض وجود لایا جاسکے جسکے نتیجے میں ریاست کے ہر خطے کے لوگوں کوآسانی سے بہتراور شفاف انتظامیہ میسر رہے اور خزانہ عامرہ کو اضافی بوجھ سے بچایا جاسکے۔کیا حکومت اس نازک لیکن اہم مسئلے پر ایک کھلی بحث شروع کرائے گی؟۔