ہم اکیسویں صدی کے مسلمان ہیں۔ اگر اسے دجالی دور یا عہد فتن مانا جائے توشاید غلط نہ ہوگا ۔ دورِ فتن کی مسلم اُمہ کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں پر غیر اقوام(دشمن ِاسلام ممالک اورقومیں) اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے، اُس دور کے مسلمان کے کردار کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباًساڑھے چود ہ سو سال قبل متنبہ کیاہے کہ مسلمان’’وھن‘‘ کا شکار ہوجائیں گے۔ ۔۔ وھن کا مطلب پوچھا گیا۔۔۔ فرمایا اُنہیں زندگی سے پیار اور مو ت سے نفرت ہو گی۔ہم اسلام کا وہ نام لیوا ہیں،جو اپنی بے عملی اور بدعملی کی بدولت اس وقت دنیا کی مظلوم ترین قوم ہیں۔ مشرق و مغرف، شمال و جنوب میں ہمارا قافیۂ حیات تنگ کیاجارہا ہے۔ ہمارے شب و روز میںہر وقت ہمیں بے دھڑک ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم تعداد میں ڈیڑھ اَرب ہیں اور ہماری اپنی 57 آزادریاستیں اور مملکتیں دنیا کے نقشہ پر موجود ہیں ، اس کے علاوہ ایسا کوئی ملک نہیں جہاں ہم موجودد نہ ہوں، مگر حالت زاریہ ہے کہ افرادی قوت کے باوجود ہماری حیثیت سمندر کے پانیوں میں اُس جھاگ سے زیادہ نہیں ہے، جسے ہوا کا ایک معمولی جھونکا بھی بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ قدرتی وسائل سے ہماری سر زمین مالا مال ضرور ہے لیکن ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کے لیے بھی ہم ہی غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے محتاج بن بیٹھے ہیں۔ ہمارے وسائل کا استعمال وہ بے دریغ کررہے ہیں، ہماری زمین پر اُن کی اجارہ داریاں ہیں،ہماری معیشتوں پران کا کنٹرول ہے ، ہماری خارجہ پالیسیاں ان کی مرضی سے بنتی ہیں ، ہمارے داخلہ امور میں وہ دخیل ہیں ، ہمارے ملکوںمیں گھس کر وہ ہمیں ہی مارتے جار ہے ہیں، عراق ہو یا شام، فلسطین ہو یا پھر کشمیر، مصر ہو یا میانمار ، بنگلہ دیش ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا شیشان، ہرجگہ ہمارے خون کی ہولیاں بلا خوف وخطر جارہی ہیں، ہر جگہ ہماری لاشوں کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں، ہر جگہ ہماری ملاک تباہ و برباد کی جارہی ہیں، ہر جگہ ہمارے معصوم بچوں کا قتل عام ہورہا ہے، ہر جگہ ہماری عزت و عصمت پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، ہر جگہ ہم پر ہی برے برے الزامات لگتے ہیں اور تہمتیں ملتی ہیں۔ ہمارے لیے ہی گوانتاناموبے ، بگرام ائر بیس کابل ،اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ تعذیب خانوں کے دروازے کھلے ہیں۔ہمیں جرم بے گناہی کی پاداش میں سولیوں پر چڑھایا جارہا ہے۔ ہمارے ہی آشیانوں اور بستیوں کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘ کے نام سے زمین بوس کیا جاتا ہے، ہماری ہی مساجدپر بم برسائے جارہے ہیں، ہمارے ہی سجدوں پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں۔ہم سے ہی اذیت ناک سوال ہوتا ہے کہ ہم کیوں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرتے ہیں، ہماری داڑھی پر اعتراض ، ہمارے حجاب پر پابندی ، ہمارے عبادات پر اعتراض سے، ہمارے دینی شعائر کی تضحیک کی جارہی ہے، ہماری دینی کتب پر اعتراضات کئے جار ہے ہیں ۔ ہم کیوں اپنے دین کی بات کہتے یا سنتے ہیں، ا سپر بھی ناک بھوئیں چڑھائی جارہی ہیں ۔ ہماری ہر بات ہر ادا سے دنیا کو شدت پسندی کی بو آتی ہے، ہمارے لباس سے ہم اُنہیں دہشت گرد دکھائی دے رہے ہیں، ہماری نماز اُنہیں گوارا نہیں، ہماراطواف اُنہیں قبول نہیں، ہماری بات انہیں برداشت نہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ ہمارا خاموش رہنا بھی اُنہیں اپنی زندگی میں طوفان برپا کرنے والا عمل دکھائی دیتا ہے۔
ہم اپنے خلاف اغیار کا یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہیں۔ اپنی کمزوری کو اللہ کی’’ آزمائش‘‘ یا ’’صبر‘‘ کی منطق میں چھپالیتے ہیں۔ اپنی سلطنتوں کو تحت و تاراج ہوتا دیکھ کر بھی ہر ستم ہر نشتر سہہ لیتے ہیں، اپنے نونہالوں اور معصوموں کی لاشوں پر آہ بھی کرتے ہیں تو بڑی احتیاط کے ساتھ۔ وہ ہمیں دہشت گرد کا نام دیں تو ہم اپنی خاموشی سے اسے قبولتے ہیں، وہ ہمیں شدت پسند کہیں تو ہم سزا کے لیے اپنی پیٹھ پیش کرتے ہیں۔ وہ ہمارے قبرستان آباد کرتے ہیں تو ہم اسے تقدیر کا کھیل سمجھ کر اپنی نصیب کی کتاب کو دوش دیتے ہیں،وہ ہمارے پڑھے لکھے بچوں اور سکالروں کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں، ہم بس سینہ کوبی کرتے ہوئے نماز جنازہ پڑھتے ہیں، وہ ہمارے وسائل پر ڈاکہ ڈال دیتے ہیں، ہم خندہ پیشانی سے جان کی امان کے بدلے اسے اللہ کی مرضی سمجھ لیتے ہیں۔وہ ہمارے گھر اُجاڑ دیتے ہیں تو ہم اُف بھی نہیں کرتے ، وہ ہماری مسجدوں پر بمباری کرتے ہیں تو ہم زمین کے ہر گوشے کو مسجد کہہ کر اپنی بزدلی کو چھپاتے ہیں۔وہ ہماری عزت مآب ماؤں اور بہنوں کے چہرے سے نقاب اُتارتے ہیں تو ہم’’ دل کا پردہ ہونے‘‘ کا بے حمیت فلسفہ اُدھار لیتے ہیں۔ وہ ہماری پرسنل لاء میں مداخلتیں کر تے ہیں ، وہ ہمارے خوردونی اشیاء طے کر تے ہیں کہ ہم کیا کھائیں کیا نہیں اور ہم لبیک کہتے ہیں ، جو حکم سرکار۔ وہ ہمارے انسانی وایمانی وجود کے ضامن قرآن کریم پر اُنگلی اُٹھاتے ہیں ،ہم کلام اللہ کی اصطلاحوں کی من مانی تشریح کرکے اُن کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہاراتعدد ازواج، سود ، جنسی آزادی پر قدغن وغیرہ انسانی حقوق کی ’’بدترین خلاف ورزیاں ‘‘ ہیں ، ہم روشن خیال بن کر اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ہم اُن کے اُٹھائے ہوئے بے معنی سوالات اور بے ہودہ اعتراضات پر اپنے دینی احکامات اور اعمال تک ترک کردیتے ہیں۔۔۔ وا حسرتا! وہ ہماراکچھ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم اُن کی ہر بات مانتے پھر تے ہیں تاکہ وہ ہمیں جینے کی مہلت دیں، حالانکہ وہ چنگیز اور ہلاکو کی طرح بس ہمارے مٹ جانے پر ہی خوشی محسوس کر تے ہیں۔ وہ اُلجھنے کو ہی زندگی کہتے ہیں، وہ خون کے پیاسے ہیں، وہ حریص اور لالچی ہیں، وہ مکاری اور فریب کاریاں کر کر کے ہمارے منہ کا نوالہ تک چھین لینے کے درپے ہیں۔
انہوںنے ہمارے خلاف سب اوچھے حربے آزمالئے،اب اس کے بعد وہ حدود پھیلانگ رہے ہیں۔ وہ اُس لکیر کو پار کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہمارے ایمان کو نئی حرارت اور ہامری زندگی کو تازہ دم سانسیں عطا کرتی ہے۔ وہ ہماری ہماری بے پایاں محبت ، ہماری عزت وآبرو، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، ہمارے دل کے قرارپر وار کرنے لگے ہیں، یعنی وہ ہمارے رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقداس اورشان علویت پر خاکم بدہن گستاخی پر اُتر آئے ہیں۔ان کم بخت اور ذلیل وکمینہ لوگوں کو شاید تاریخ معلوم نہیں کہ جن شیطان صفت افراد نے ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اُن کا کیا حشر ہوا۔ کاش اُنہیں معلوم ہوتا کہ ابو لہب نے جب گستاخی میں حد کر دی تو اللہ تعالیٰ نے تاصبح قیامت ’’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ‘‘کی وعید سنا کر اُسے نشانِ عبرت بنادیا۔ ابو لہب کی طرح اُن کا بیٹا بھی اپنے باپ کی طرح شاتم رسولؐ تھا۔ اس بدبخت نے رسولؐکو ایسی تکلیف پہنچائی کہ آپؐ نے خلاف معمول اس کے لیے یہ بددعافرمائی: ’’اے اللہ! اس پر تو اپنے کتوں میں سے ایک کتامسلط فرما دے‘‘پھر جب ابو لہب کے بیٹے کو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بددعا کا پتہ چلا تو اس کی نیندیں حرام ہوگیں۔ وہ ہروقت اس خطرے کی ٹوہ میںتھا کہیں محمد عربیؐ کی بددعارنگ تو نہ لائی ۔ وہ شقی القلب جانتا تھا کہ قدرت اس کے نامراد بیٹے کا انتقام لے کر رہے گی۔ ایک دفعہ اس کا یہ کم نصیب لاڈلا تجارتی قافلے کے ہمراہ کاروباری سفر پر تھا کہ رات کا اندھیراچھاگیا۔اس نے لوگوںسے کہا: سنوقافلے والو! تمام سامان میرے ارد گرد رکھ دو اور خود بھی میرے آس پاس حلقہ بناکر پڑائو ڈالو، میری جان کی حفاظت کرو، کہیں کوئی جانور مجھ پرحملہ آور نہ ہو سکے۔لوگوں نے ایسا ہی کیا مگر اسی رات کو اللہ کا بھیجا ہوا کوئی درندہ آیا اور اس ملعون کی چیر پھاڑ کر کے چلاگیا۔ اسی طرح دجال کے چیلوں کو غزوہ اُحد کا وہ منظر بھی یاد کرنا چاہیے جب دشمنان اسلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب پہنچے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے آپؐ پر بھاری پتھر پھینکا ، آپؐ کا جسم نازنیںزمین پرگر پڑا،آپؐکے دندانِ مبارک شہید ہوگئے، چہرہ مبارک بھی زخمی ہو گیااور نچلے لب ہائے مبارک سے خون کافوارہ چھوٹنے لگا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان گڑھوں میں سے ایک گڑ ھے میں آگئے جس کو ابو عامر فاسق نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے میدان جنگ میں کھودا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے آپؐ کادستِ مبارک پکڑکر اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی علیہ تعالیٰ عنہمانے اپنی گود میں لے کر آپؐ کو باہر نکالا۔ آپ ؐ کوعبداللہ بن قمیہ نے بھی بڑی اذیت پہنچائی تھی اور آپؐ کے چہرے مبارک کو بھی زخمی کیاتھا۔طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسولؐکا چہرہ انور اس کافر نے زخمی کیا۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور سے خون بہہ رہا تھا یہ لعین کہہ رہا تھا کہ ’’میرا یہ وارسنبھال اور میں قمیہ کا بیٹا ہوں۔‘‘آپؐنے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے اس کی یہ شیخی سن کر فر مایا :’’قماک اللہ‘‘۔ اللہ تجھے ذلیل و خوار کر ے۔ اس بددعاکا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑ ی بکر ا مسلط کیا ،جس نے سینگ مار مار کر اس بدبخت کا انگ انگ الگ کردیا۔
اِن گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا تعلق اس قوم و ملت سے ہے جن کے اسلاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں کو ایک پل کے لیے بھی برداشت نہیں کرتے۔ وہ اصحابِ رسولؓ کس عشق سے سرشار تھے کہ اُن میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کر نے والے کا جگر چیر کر ہی اطمینان کی سانس لی اور کسی نے نذر مان لی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ زندہ رہے گااور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کا سرلاکر رکھ دیا۔ تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک نابینا صحابی ؓنے اپنے دو بچوں کی ماںکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی پاداش میں عبرت ناک انجام سے ہمکنار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ:’’ ایک اندھے شخص کی ایک اُم ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں بدکلامیاں کرتی تھی، وہ اسے منع کرتا تھا وہ باز نہ آتی ، وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی ، ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی شروع کیں، اس نابینا صحابیؓ نے ایک بھالا لے کر اس کی پیٹ میں پیوست کردیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ کہ بر سرموقع مر گئی۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا: میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے یہ کیا۔ اُس نے جو کچھ کیا میرا اُس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہوگیا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔اس نے آکر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشنام سے باز نہیں آتی تھی۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ ٔحیات تھی ۔ گزشتہ رات جب وہ آپ ؐ پر سب وشتم کر نے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کی پیٹ میں پیوست کردیا۔ میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مرگئی۔‘‘( ابوداؤد)۔
ہمارے پاس سوائے متاعِ حُب رسولؐ کچھ نہیں بچا ہے۔ ہم عملی طور پر کمزور ہیں، ہمارے پاس دنیاکے عیش و آرام بھی نہیںہیں۔دنیا بھر کی شیطانی طاقتوں نے ہمیں مادیت کے دلدل میں پھنسا دیا، سود کی لعنت میں مبتلا کردیا، بے حیائی اور بے شرمی ، فحاشیت و عریانیت کی وباء کا شکار بنا دیا۔ ہمیں اللہ اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرنان بناکے رکھ دیا گیا۔ ہماری ایمانی غیرت و حمیت ہم سے چھین لی گئی۔ گویا ہرحیثیت سے ہم اُس معیار کا نہیں رہے ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلمان کے واسطے کا میابی کے لئے مطلوب ہے۔ہمیںروحانی اور فکری معنی میں حیات ہونے کی اب صرف ایک ہی امید باقی بچی ہے ،جو اتنی مضبوط ہے کہ ہمیںپھر سے ذوق خدائی والیس مسلمان کردے اور یہ ہمارے رگ وپے میں جاگزیں حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ہم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے آقا ئے مامدار، سرورکائنات ، فخر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں خاکم بدہن بے ادبی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ مسلمان ایمان کے اعتبار سے کتنے بھی گئے گزرے ہوں ،انہوں نے ہر دور میں رسول اللہ ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کوہرحال میں اپنے بُرے انجام کو پہنچتے ہوئے یا پہنچاتے ہوئے سکون پایا۔ ا سلئے دنیا کو جان لینا چاہیے کہ ہمارے دلوں میں اپنے نبی محترم ومکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر محبت رَچی بسی ہے کہ اپنی جان ، اہل وعیال،مال و اسباب قربان کرنا تو چھوٹی بات، ا س کے لئے ہماری کوئی بھی غیر معمولی قربانی ہمارے لئے معمولی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں کسی بھی نوع کی بے ادبی کے خلاف دنیا بھر کے مجروح جذبات کے بے قید اظہار کو کوئی دہشت گردی کہے یا شدت پسندی، جہالت کی پھبتی دے یا مذہبی جنونیت کاطعنہ سنائے… مومن کو ایسا ہر طعنہ، ہر ہجو ، ہر بُر القب اور ہر دل آزار فقرہ قبول ہوتا ہے کیونکہ ہمارا غیر متز لزل ایمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ صرف ہماری ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کی واحد، واحد اور واحدآبرو ہے اور آپ ؐآدمیت کی مشترکہ متاع گراں مایہ ہیں ۔ ا سی لئے ہر مسلمان فقط آپ ؐ کی ذات اقدس پر اپنے ماں باپ فدا ہو نے کا کلمۂ ممنونیت اور مشکوریت خوشی اور فخر کے ساتھ بتکرار ورد ِ زبان رکھتاہے ۔