عظمیٰ نیوز سروس
ریاسی//ریاسی ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع بھبھر برہمناں رسیالاں اور چْمبھیاں گاؤں دریائے چناب کی طغیانی کے باعث گزشتہ 40 برسوں سے شدید خطرے میں ہیں۔ مقامی آبادی کی بارہا فریادوں کے باوجود حکومت کی جانب سے ان علاقوں کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔1986 سے لے کر آج تک ریاسی انتظامیہ نے متعدد بار یہ مسئلہ منتخب نمائندوں، سابقہ حکومتوں اور یہاں تک کہ مرکزی حکومت تک پہنچایا، لیکن زمینی سطح پر کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔ نتیجتاً یہ غریب آبادی بار بار سیلابی پانی اور کٹاؤ سے نقصانات برداشت کر رہی ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق دریائے چناب کے قریب قائم کا دیوتا علاقے سے لے کر چمبیان تک کئی کنبے اپنی زمینیں اور مکانات کھو بیٹھے ہیں۔ بھبھر برہمناں چْمبھیاںگاؤں کا تقریباً نصف حصہ پہلے ہی دریا میں سما چکا ہے۔ اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو باقی علاقہ بھی مکمل طور پر تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔اہل دیہہ نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر دریا کے کنارے ایک مضبوط حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے تاکہ گاؤں کو مزید بربادی سے بچایا جا سکے اور مقامی کسان اپنی کھیتی باڑی باعزت طریقے سے جاری رکھ سکیں۔علاقے کے سماجی کارکن اور شاعر عبدالقدیرکندریا نے اس طویل غفلت پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنی زندگی معاشرتی اصلاح، منشیات کے خلاف جدوجہد اور ڈوگرا ثقافت کے تحفظ کے لئے وقف کر دی، مگر اپنے ہی گاؤں کے تحفظ کے لئے کی گئی دہائیوں کی جدوجہد پر ہمیشہ حکومت خاموش رہی۔ آدھا گاؤں دریا میں سما چکا ہے اور اگر فوری اقدام نہ ہوا تو باقی حصہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا‘۔اسی دوران سابق سرپنچ بودراج بھگت نے متاثرہ علاقوں کا تحصیلدار ریاسی کے ہمراہ دورہ کیا اور کہا کہ حالیہ برسوں میں جن خاندانوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں، انہیں تاحال کوئی امداد نہیں ملی۔ کئی کنبے ٹین شیڈز اور کچی جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں جو کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے ہیں۔