ریاست جموں وکشمیر جسے جنت ارضی کہاجاتاہے کادوسرانام ’’پیراواڑی ‘‘یاپیروں اورصوفیوں کے رہنے کی جگہ بھی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ریاست میں جگہ جگہ پر اولیائے اللہ کے مقبرے موجود ہیں جنھوں نے محنت ِ شاقہ کے ساتھ دینِ اسلام کی اشاعت فرمائی ہے ۔ریاست جموں وکشمیر کے اہم اولیاء کرام میں حضرت بُلبل شاہ،حضرت شیخ جلال الدین بخاریؒ ،حضرت سید حسین سمنانی ؒ،حضرت امیرکبیرمیرسیدّعلی ہمدانیؒ (شاہ ہمدان ؒ)،حضرت مولاناپیرحاجی محمدقاریؒ،حضرت سیدبہاء الدین ؒ،حضرت سیدمحمدسراجؒ،حضرت سیدّجعفرؒ ،حضرت سیدمحمدکبیر بیہقیؒ ،حضرت سید محمدعین پوشؒ ،حضرت سید شہاب الدین ؒ،حضرت سید نعمت اللہ ؒ،حضرت بہاء الدین ثانی ؒ،حضرت سادات محمدؒ واحمدؒ ،حضرت سیدمحمدحصاری ؒ،حضرت سیدمحمدکرمانی ؒ ،حضرت سیدفخرالدین ؒ،حضرت سید عبداللہ ؒ ،حضرت سید میرمحمدہمدانی ؒ ،حضرت سید احمدسامانی ؒ ،حضرت سیدقاضی حسین شیرازی،حضرت سید محمدخاوری ؒ ،حضرت سیدعلاء الدین بیقہیؒ،حضرت سیدجلا الدین بخاری ؒ ،حضرت سیدعلی اکبرؒ ۔حضرت سیدنورالدین ،حضرت سید شہاب الدین ،حضرت سیدحضوراللہ ،حضرت شیخ بہاء الدین گنج بخش کشمیری ؒ ،علمدارکشمیر حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ المعروف نندہ ریشی ،حضرت باباجوہرالدین ریشی ؒ،سلطان العارفین حضرت شیخ حمزہ مخدوم کشمیریؒ،باباغلام شاہ بادشاہ شاہدرہ شریف راجوری ،باباجیون شاہ ولی گمٹ ،بابابڈھن علی شاہ تے بابافیض بخش شاہ بخاری ؒوغیرہ شامل ہیں۔تمام اولیائے کرام اپنی اپنی کرامات اورمرتبہ رکھتے ہیںتاہم یہاں پربابافیض بخش شاہ بخاری کی کرامات کاتذکر ہ کرنامقصودہے۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ روئے زمین پرکئی ایسے بادشاہ ہوگذرے ہیں جنھوں نے کامل فقیروں کے آستانے پرحاضریاں دیںاورمرادیں پائیں۔ کسی فقیرکامل نے مطلب براری کیلئے بادشاہ وقت کے آگے ہاتھ پھیلایاہو ایسی کوئی مثال نہیں ۔ خدارسیدہ فقیرسوائے رب العالمین کے ،کسی اورکے درپرسجدہ کرے یہ ناممکن امرہے ۔پاگل جانوروں کے کاٹے لوگوں کے مسیحا بابا فیض بخش شاہ بخاری ؒ بھی ایسے ہی خدارسیدہ فقیرتھے۔ جن کی متبرک درگاہ مندروں کے شہر جموں سے 30 کلومیٹرکی دوری پراکھنورکے آگے جوڑیاں پلانوالہ سڑک کے کنارے دائیں طرف گوڑہ براہمناں (بل باغ ) گائوں میں مقام شفاکادرجہ رکھتی ہے۔
اس درگاہ میں ابدی نیند آرام فرمارہے ’’حضرت فیض بخش شاہ بخاری ‘‘کی جائے پیدائش ، سن پیدائش یاسن وفات بارے کوئی مصدقہ جانکاری یاکوئی تواریخی ثبوت دستیاب نہ ہے ۔اس فقیر کامل کے خاندان کے کسی فرد، کسی مرید، یادرگاہ کے گدی نشینوں میں سے کسی شخص نے درگاہ میں مدفون درویش بارے کھوج کرنے ،مواداکٹھاکرنے کی طرف دھیان نہی دیاہے جوبھی تحریرکیاجارہاہے سینہ بہ سینہ سنی سنائی یادداشت اوربیان کردہ کہانی پرمنحصر ہے۔
ایک خدارسیدہ دوریش کاکہناہے کہ چارسوسترسال قبل بابا فیض بخش شاہؒ کی پیدائش سعودی عرب میں ہوئی ۔بچپن اُدھرہی گذرا ،خداپرستی کارجحان ورثہ میں ملا ۔جوانی کی دہلیزپر قدم رکھتے ہی بخارہ چلے آئے۔عین جوانی کے عالم میں بخارہ کوخیربادکہہ ،حق کی تلا ش میں افغانستان سے ہوتے ہوئے سرزمین ہندپرقدم رکھے۔
ایک کہاوت کے مطابق لگ بھگ چارسوسال پہلے کچھ مست مولا فقیروں کے ہمراہ ’’فیض بخش شاہ ؒ ‘‘ جموں آئے ۔موجودہ ’’رہاڑی کالونی ‘‘ میں تب ’’رہاڑ‘‘نامی درختوں کاجنگل ہواکرتاتھا ۔اُسی جنگل میں بابافیض بخش شاہ اورساتھی فقیروں نے آن ڈیرہ لگایا۔ اورعبادت الٰہی میں محورہنے لگا۔ ساتھی فقیرنزدیکی دوکاندارسے آٹا دال نمک وغیرہ اُدھارلاکرروکھی سوکھی کھاکر گذراوقات کرتے۔جب کوئی عقیدت مند کچھ چڑھاوا چڑھاجاتاوہ پیسے دوکاندارکودے دیتے۔
خداکی قدرت بہت دنوں تک کوئی عقیدت مندنہ آیا۔ اُدھارمعمول سے زیادہ ہی ہوگیا۔دوکاندارنے آ’’’بابافیض بخش شاہ ؒ ‘‘ سے اپنی رقم کاتقاضاکیا ۔نہایت تحمل سے ’’بابا‘‘ نے کہا۔بھائی دوکاندار اس وقت تجھے دینے کوتوکچھ ہے نہیں، البتہ کل شام تک پائی ۔پائی اداکردی جائے گی۔ ذراتلخی سے دوکاندارنے کہا۔’’اس وقت ہے نہیں،کل کہاں سے آئیگا؟‘‘ ۔فقیرنے جواب دیا۔’’تیری سوچ تیری عقل سے اوپربھی کوئی طاقت ہے،وہ اللہ بڑاکارسازہے ۔وہ بھیج ہی دیگا‘‘۔
اُسی دن چندباوے (پاگل) گیدڑوں نے بستی میں گھُس کرلوگوں اورمویشیوں کوکاٹناشروع کردیا۔ہرطرف ہاہاکار مچ گیا۔لوگ لٹھ لئے اُنہیں مارنے دوڑے ۔ ایک پاگل گیدڑفقیرکی جھونپڑی کی طرف بھاگا آیالوگ لٹھ تھامے اُس کاپیچھاکررہے تھے۔بابافیض بخش شاہ ظہرکی نماز کی غرض سے ’’باڑی ‘‘ تھامے وضوکرنے جھونپڑے سے نکلا۔وہ پاگل جانور’’بابا‘‘ کے قدموں میں آن گرا۔مانو زندگی کی بھیک مانگ رہاہو ۔رحم دِل فقیرنے ’’باڑی ‘‘کے پانی کاایک چھینٹا اُس جانورپرمارا،وہ پاگل جانوردرویش کے پائوں چاٹنے لگ گیا۔
یہ کرامت دیکھ کرلوگ ’’بابا‘‘کے پاس آئے اورکہا۔’’اے فرشتۂ رحمت ! ایسے باولے جانوروں نے بستی میں انسانوں اورمویشیوں کوکاٹ کاٹ کرلہولہان کردیاہے ۔اُن پرکچھ کرم کیجئے ‘‘۔
درویش نے کہا۔’’اِن پاگل جانوروں کاکاٹاجوبھی کل دوپہرتک ادھرآجائیگا،خداکا فضل سے اُس پراِن جانوروں کے کاٹنے کااثرنہ ہوگا‘‘۔یہ خبر سب طرف پھیل گئی ۔دوسرے دن سویرے کچھ گیدڑوں کے کاٹے لوگ اورمویشی اورباباکے عقیدت مند آنے شروع ہوگئے ۔درویش فیض بخش شاہ ؒ نے اُسی مٹی کی باڑی کے پانی کے چھینٹے اُن پرمارے۔شفایابی کی دعارب سے کی۔
ہرشخص نے حیثیت اورعقیدت کے مطابق ایک آدھ سکہ فقیرکے قدموں میں رکھا۔خاصی رقم جمع ہوگئی۔ دوکاندارکوبلواکراُس درویش نے حکم دیا کہ ’’وہ اُدھارکی جملہ رقم معہ سوداُٹھالے جائے ‘‘۔
باقی ماندہ پیسے باقی فقیروں میں بانٹ کرسبھی کواپنی اپنی راہ پکڑنے کوکہااورخودخالی ہاتھ وہاں سے چل کردریائے چناب کے کنارے آبادگائوں گوڑہ پتن میں ڈیرہ لگایا۔
’’بل باغ ‘‘اکھنورکاایک بے اولادارائیں کافی عرصہ تک روزانہ دریائے چناب عبورکرکے اُس درویش کودودھ پہنچاتارہا ۔وہیں ارائیں اُس فقیرکواپنے گائوں لے آیا۔موجودہ مقبرہ والی جگہ ایک جھونپڑی بنوادی جس میں فیض بخش شاہ ؒ وہ درویش عبادت میں مصروف رہتا۔
ایک روزدُودھ کابرتن تھامے جب وہ ارائیں فقیرکے جھونپڑے میں داخل ہوا۔فقیرکو حالتِ عرفان میں پایا ،کئی سالوں سے دِل میں دباکررکھی بات کہہ دی۔’’بارگاہِ الٰہی سے میرے لئے اولادکی دُعاکر‘‘سمادھی ٹوٹنے پرفقیرنے کہا۔دُعامنظورہوئی۔پسرہوگامگرماں باپ کاسایہ ایامِ طفلی میں ہی چھوٹ جائے گا۔‘‘ارائیں نے اولاد کی خاطرخوشی خوشی موت قبول کی۔ ایک سال بعدایک چاندسے بیٹے نے جنم لیا۔ارائیں نے بچہ فقیرکی جھولی میں ڈال دیا۔بچے کے سرپرہاتھ رکھتے ہوئے بچے کولوٹاتے ہوئے بولا ۔’’خداکی اس دین ’’مرادبخش‘‘کوامانت کے طورپرپاس رکھ ،وقت آنے پرسنبھال لوں گا‘‘۔
چارسال ہنسی خوشی سے گذرے ،ایک رات اچانک مکان گرا،ارائیں اوراُس کی بیوی ملبہ میں دب کراللہ کوپیارے ہوگئے۔بچہ ’’مرادبخش ‘‘کوخراش تک نہ آئی ۔کفن دفن کے بعدحضرت فیض بخش ؒ اُس یتیم بچے کواپنے حُجرہ میں لے آئے ۔روحانی دولت سے فیض یاب ہوکر جانشین مقررکیا۔
دوران حیاتِ بابا فیض بخش شاہ بخاری ؒ نے اپنے جھونپڑے کے سامنے ایک کنواں کھدوایا ۔ایک بیری کاپیڑ لگواکردریائے چناب کے کنارے سے ایک بڑاسیاہ رنگ کاگول پتھرلاکربیری کے پاس رکھا۔
بعدازوفات حسب ہدایت اُس کامل فقیربابافیض بخش شاہ بخاری کواُسی جھونپڑے میں دفن کردیاگیا جس میں اُنہوں نے زندگی کابیشترحصہ یادِالٰہی میں گذارہ ۔بنی نوع انسان کوبرابری ،بھائی چارے کادرس دیا۔اُس فقیرکامل کواعزازکے طورپرعالیشان درگاہ،خوبصورت گنبد نماعمارت ،مغلیہ عہدکے فن تعمیر، کاریگری ونقش نگاری کانادرنمونہ ،کب اورکس نے بنوائی دریں بارہ کوئی واضح ثبوت نہ ہے ۔جب پاگل کتے یادیگر پاگل جانورکاکاٹا کوئی فرد شفایابی کیلئے اس درگاہ ’’مقام شفا ‘‘پرآتاتودرگاہ کامجاوراپنا ایک پائوں اس گول پتھرپراوردوسرابیری پر رکھ کراُسے سات بار اپنی ٹانگوں کے نیچے سے گذارکربابافیض بخش سے اُسکی شفاوصحت کی دعاکرتاہے۔اس مقدس درگاہ پرہرسال ماہ مئی کے آخری ویروارکے دن عرس پردوردرازسے ہزاروں عقیدت مندحاضری دیتے ہیں۔خوب رونق ہوتی ہے ۔