سرینگر//حکومت نے درگاہ حضرتبل کے ایک بڑے پلگرم ٹورسٹ پروجیکٹ کامذاق بناکررکھدیا ہے۔42کروڑ روپے کے اس پروجیکٹ کو چھوٹے چھوٹے پرجیکٹوں میں تقسیم کرکے انہیں تکمیل کیلئے مختلف اداروں کو دیاگیا ہے جبکہ وقف بورڈ کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبے کی بے ترتیب عمل آوری اس ماہ کے اوائل میں وقف بورڈ کے وائس چیرمین پیرمحمدیاسین کے مستعفی ہونے کے عوامل میں سے ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے ۔ مرکزی حکومت کے42کروڑروپے کے مالی تعاون سے شروع اس پروجیکٹ کامقصدپلگرم سیاحتی مقامات کے گردونواح میںڈھانچے کو قائم کرنا ہے۔اگرچہ وزارت سیاحت اس پروجیکٹ کے عملانے کی ذمہ دار ہے لیکن اسے چھوٹے پرجیکٹوں میں تقسیم کرنے سے وقف بورڈ نالاں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس پروجیکٹ کی دیکھ ریکھ وقف بورڈ کرے۔ درگاہ حضرتبل کی تحویل میں اس وقت12کنال اراضی ہے اور حکومت اس قطعہ اراضی کو پارکنگ کیلئے مخصوص بنانا چاہتی ہے۔ذرائع کے مطابق اس پروجیکٹ کی27فیصد رقم اس پارکنگ جگہ کی تعمیر پر صرف ہوگی اور یہاں 180 گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے جگہ ہوگی۔ وقف ذرائع کے مطابق وقف بورڈ اس زمین کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کاخواہاں تھاکیونکہ عرس اور جمعہ کے موقعہ پر یہ جگہ گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے ناکافی ہے کیونکہ یہاں صرف 180 گاڑیاں ہی پارک کی جاسکتی ہیں۔ سال میں کئی بار مختلف مواقع پر درگاہ حضرتبل میں عقیدتمندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ وقف بورڈ کے ایک افسر نے بتایا’’ اگلے ہفتے میلاد النبی ؐ کی تقریبات ہے اور اس موقعہ پرہمیں5ہزار گاڑیوں کیلئے پارکنگ سہولیات چاہیے اور یہ گاڑیاں ہم کشمیر یونیورسٹی ،آئی آئی ٹی اور دیگرخالی جگہوں میں پارک کراتے ہیں۔جمعہ کے موقعہ پر ہمیں800گاڑیوں کیلئے پارکنگ جگہ درکار ہوتی ہے اور11.5کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کئے جارہے اس پارکنگ پلاٹ سے ہماری کوئی ضرورت پوری نہیں ہوگی بلکہ اس سے وقف بورڈ آمدنی کے ایک بڑے ذریعے سے محروم ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت کے پالیسی سازوں نے وقف بورڈ ڈائریکٹروں کے فیصلے کااحترام نہیں کیا۔ وقف کے فیصلے کو رد کرنے سے وقف کے اس خیال کوتقویت ملتی ہے کہ وقف بورڈپرحکومت اپنی مرضی تھوپناچاہتی ہے۔ذرائع کے مطابق انجینئروں ،ٹھیکیداروں اور بارسوخ افراد کا ایک ٹولہ اس قطعہ اراضی کو پارکنگ لاٹ میں تبدیل کرنے کاکام جموں کشمیرپرجیکٹس کنسٹرکشن کارپوریشن کو دیا گیا ہے۔ پروجیکٹ میں وقف بورڈ کی طرف سے ہری جھنڈی مل چکے ،اسلامک انٹرپرٹیشن سینٹر کاقیام بھی شامل ہے۔وقف ذرائع کے مطابق درگاہ حضرت بل میں مدینۃ العلوم بھی ہے جس کے قیمتی اثاثے نذرآتش ہوگئے۔یہ اب یک منزلہ عمارت میں قائم ہے اور وزیراعلیٰ کی صدارت میں18فروری2017کی میٹنگ میں فیصلہ کیاگیا کہ اسلامک انٹرپرٹیشن سینٹر کے ساتھ مدینۃ العلوم کو بھی منسلک کیا جائیگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامک انٹرپرٹیشن سینٹر کاکام جموں کشمیر کیبل کار کارپوریشن کو تفویض کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ کیبل کار کارپوریشن کو کودیگر کام جن میں ٹورسٹ فیسلٹیشن سینٹر کی تعمیر بھی دیا گیا ہے۔جموں کشمیرہاوسنگ بورڈ کو زیارت کے فرش پر دیوری پتھربچھانے کا کام سونپا گیا ہے جو اس وقت ڈل جھیل طرف سے جاری ہے۔وقف بورڈ نے زیارت کے صحن میں بڑی بڑی چھتریوں کو نصب کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ زائرین برف باری یا سخت دھوپ میں یہاں نمازاداکرسکیں۔ وقف کی اس تجویزکو منظور کرکے یہ کام سیکاپ کودیا گیا۔ایس کے آئی سی سی کو بھی ایک کام تفویض کیاگیا ہے اور وہ ہے زیارت میں لائٹ اور ساونڈ کاانتظام کرنا۔زیارت کے صحن کی دیواربندی محکمہ سیاحت کوسونپی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق اس پرجیکٹ کے حصے بخرے کرنے سے اس پروجیکٹ کی دیکھ ریکھ بھی متاثر ہوئی ہے اورپروجیکٹ کے مختلف حصوں کی تکمیل پر مامور ایجنسیوں کے درمیان تال میل کیلئے بھی یہاں کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔اگرچہ ایک بار ڈپٹی کمشنرسرینگر کو اس کیلئے تال میل افسر مقرر کرنے کا وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا لیکن کوئی تحریری حکمنامہ اس سلسلے میں پھرجاری نہ کیاگیا۔ذرائع کے مطابق اس پروجیکٹ کے حصے انجینئروںاور اثررسوخ رکھنے والے کئی ٹھیکیداروں کی ایما پر کئے گئے ہیں۔