Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

درَجوابِ آں غزل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 15, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
23 Min Read
SHARE
  ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں توصیفی مضمون’’۔۔۔۔عاصمہ امر ہو چکی ہے‘‘ پڑھ کر حیرت ہوئی۔حیرت سے زیادہ دُکھ ہوا۔کیا عاصمہ اس لیے امر ہوئی کہ وہ اسلام اورپاکستان کی بدترین دشمن تھی؟میں آپ کو اپنی ایک تحریر اشاعت کے لیے بھیج رہا ہوں، چھاپیں ضرورتاکہ آپ کے قارئین تصویر کے دونوں رُخ دیکھ سکیں۔
عبدالہادی احمد
  عاصمہ جہانگیر کا راج پال سے کیا تعلق تھا…اورقانونِ توہین رسالت(295.C) بنانے اور نافذ کرنے میں عاصمہ جہانگیر کا کیا کردار تھا؟ یہ سوال وجواب بجائے خود ایک دور کی کہانی سناتے ہیں۔ یہ جولائی1984 کی بات ہے جب عاصمہ جہانگیر نے حضور ختمی مرتبت علیہ و الصلوٰۃوالتسلیم کے بارے میں گستاخانہ انداز میں اظہار خیال کیا ۔ اسلام آبادمیں خواتین ایک سیمی نار میں اس نے جو خیالات حضور والا تبار صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ظاہر کیے،ان سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم راج پال کی دریدہ دہنی کی بو آتی تھی۔ اس کی گھٹیا زبان سے اتنے گھٹیا الفاظ ادا ہوئے جن کو دوبارہ بیان کرنا یا درج کرنا بھی گستاخی ہے۔ اس بد نصیب عورت کو ہمیشہ تھوڑے سے اپنے جیسے مردو زن ،خصوصا ًقادیانی فرقے کا تعاون حاصل رہا۔اس کی دریدہ دہنی کے خلاف پاکستان میں ناموس رسالتؐ کے حق میں تحریک چلی،طویل جدوجہد ہوئی اور قانون ناموسِ رسالتؐ C۔ 295 )وجود میں آیا۔ اس طرح انگریزی دور میں اگر تعزیراتِ ہندکی شق295 میں دفعہA '' کی شمولیت راج پال نامی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا نتیجہ تھی، تو تعزیراتِ پاکستان کی اسی دفعہ میں''C''کا اضافہ راج پال کی فکری اولاد عاصمہ جہانگیر کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دریدہ د ہنی کی وجہ سے ہوا۔
راج پال سے پہلے تعزیراتِ ہند کے آرٹیکل''295''کی رو سے کسی بھی جماعت کی عبادت گاہ کی تذلیل کے مرتکب افراد کو دو سال تک قید کی سزا دی جاسکتی تھی۔ مسلمانوں کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حکومت ہند نے تعزیراتِ ہند کے اس قانون میں دفعہ ''الف''کا اضافہ کیا ،جس کی رُو سے کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی جذبات کی بے حرمتی (تحریری یا زبانی )کے مرتکب مجرموں کے لیے دوسال تک کی سزا مقرر کی گئی۔ تاہم اس دفعہ میں کسی جماعت کے مذہبی جذبات واعتقادات کے متعلق وضاحت موجود نہیں تھی،بس ایک مبہم سا قانون تھا،اس لیے توہین کے مرتکب افراد وکلا کی قانونی موشگافیوں کی بنا پر عدالتوں سے بری ہوجاتے تھے۔ بد بخت ناشر راج پال کی طرف سے نہایت گھٹیا، توہین آمیز اور بے حد دل آزار کتاب کی اشاعت پر بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا ، عدالت نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں اسے چھ ماہ قید کی سزا دی،مگر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے یہ سزا ختم کر کے اسے بری کردیا۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہوگیا،لیکن اختیارواقتدارپرسیکولر طبقہ ،خصوصا انگریزی تہذیب کے دلدادہ لوگ قابض رہے،انگریزی قوانین میں کتاب وسنت کی روشنی میں توہین رسالت کے متعلق کسی قسم کی قانون سازی نہ کی گئی۔ 295الف ویسے ہی ناکافی تھا،اس پرسیکولر اور مذہب بیزار حکمرانوں کا رویہ مستزاد تھا ۔ حکومت،عدلیہ اور بیورو کریسی اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر مجرمانہ چشم پوشی اختیار کرلیتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی دل آزاری کا ارتکاب زیادہ تر قادیانی فرقے کی طرف سے کیا گیا،مگر اسے نبوت و رسالتؐ کے خلاف زہریلے نظریات کے اظہار کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ قادیانیت کے خلاف ایک رسالہ لکھنے کے ’’جرم ‘‘میں مولانا سیدابوالاعلی مودودی کو سزائے موت سنائی گئی،لیکن توہین رسالت کے قانون کو اسلامی شریعت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی، نہ ہی کسی گستاخ کی زبان بندی کا فیصلہ ہوا۔ شاتمانِ رسول کی جسارتیں بڑھتی رہیںاور انہوں نے اپنی گستاخیوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ شمع رسالت ؐکے پروانوں نے ان ناپاک زبانوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی روایات کو زندہ رکھا۔ ایک عیسائی مبلغ پادری سموئیل نے مغل پورہ ورکشاپ میں دورانِ تبلیغ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس پر مشتعل ہوکر زاہد حسین نامی نوجوان نے اس گستاخ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔مشتاق راج نامی ایک وکیل جس کے بارے میں مشہور تھا کہ قادیانی ہے، اس نے ''آفاقی اشتمالیت'' نام سے کتاب میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ تمسخر کیا ،تمام مذاہب اورادیان کا مذاق اڑایا اور دینی پیشوائوں کو برا بلا کہا ۔ انبیائے کرام علیہم السلام پر نہایت گھٹیا اور سوقیانہ حملے کیے گئے اورانتہا یہ کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کی جسارت کی ۔ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے نتیجے میں یہ کتاب ضبط کر لی گئی۔ مشتاق راج کے خلاف توہین مذہب کے جرم میں زیر دفعہ 295۔الف تعزیراتِ پاکستان مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تعزیراتِ پاکستان میں توہین ِرسالتؐ جیسے سنگین اور دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ اسی لیے مشتاق راج کی گرفتاری عمل میں نہ آئی جس سے مسلمانوں میں اضطراب کی شدید لہر دوڑ گئی،اب اس بات کا قوی امکان تھا کہ اس نابکار کو کوئی غیور مسلمان ٹھکانے لگا دے گا۔
راج پال کی فکری اولاد
مشتاق راج کی گستاخانہ جسارت کے خلاف مسلمانوں کے جذبات ابھی گرم ہی تھے کہ عاصمہ جہانگیر کی طرف سے پیغمبر اسلام ؐکی شان میں سخت بے ادبی کا مذموم واقعہ پیش آیا۔ اسلام آباد میں خواتین محاذِ عمل کے سیمی نار میں عاصمہ جہانگیر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ مبارکہ میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس کے الفاظ مسلمانوں کی سخت دل آزاری کا باعث بنے، جس پر سیمینار میں شدید ہنگامہ برپا ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر سے معافی مانگنے کا مطالبہ ہوا،مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ کچھ لوگ اسے پکڑنے اور مارنے کے لیے دوڑے ،مگر منتظمین اس کو بچا کر لے گئے۔ اس عورت کی دریدہ دہنی کے خلاف پاکستان کے مسلمانوں میں اسی طرح اضطراب اور غم وغصے کی لہر دوڑ گئی جس طرح راج پال کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کا لاوا بھڑک اٹھا تھا ۔عاصمہ جہانگیر نے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان بوجھ کر وہی الفاظ استعمال کیے تھے جو یورپی مستشرقین اسلام او ر سرور کائناتؐ کی اہانت کی غرض سے استعمال کیا کرتے تھے۔ عاصمہ جہانگیر کی اسی دریدہ دہنی کے خلاف احتجاج بالآخر تعزیراتِ پاکآستان میں295.Cکے اضافے پر منتج ہوا۔ وکلا نے عاصمہ جیلانی (اس وقت یہ خاتون عاصمہ جیلانی کہلاتی تھی )کے خلاف غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر توہین رسالتؐ کی سزائے حد کو پاکستان میں نافذ کرے۔لاہور میں وکلاء اور علماء  کے ایک مشترکہ اجلاس ایک قراداد پاس کی گئی۔ اس کے بعد یہ قرارداد حکومت پاکستان، صوبائی حکومتوں اور اراکین قومی اسمبلی کو بھیجی گئی ۔
عاصمہ کے والد جیلانی بھی پاکستان دشمن تھے
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شیخ مجیب نے پاکستان سے الگ ہونے کا اپنا چھ نکاتی ایجنڈا عاصمہ جہانگیر کے والد غلام جیلانی کے گھر تیار کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں جب مکتی باہنی نے بغاوت کر دی اوران کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا تو مغربی پاکستان میں اس آپریشن کے خلاف سب سے زیادہ مخالفت ومزاحمت غلام جیلانی نے کی ۔غلام جیلانی نے اندراگاندھی کو خط لکھا کہ آپ مغربی پاکستان پر حملہ کریں۔ اندرا کے ایکشن نہ لینے پر دوسرا خط لکھا۔اندرا گاندھی نے تب بھی پاکستان پر حملہ نہ کیا، تو غلام جیلانی نے تیسری بار ان کو چوڑیاں بھیج دیں۔ یہ خطوط ہفت روزہ’’ زندگی ‘‘میں شائع ہوئے تھے۔اس پر جیلانی گرفتار ہوا، تو عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ جیلانی کے سی آئی اے سے مراسم رکھتا تھا۔عاصمہ نے جنرل ضیا  کے خلاف اسلامی قوانین نافذ کرنے پراسلامی قوانین کو دقیانوسی قرار دیااور احتجاجی مارچ کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے نیویارک ٹائمز کو لکھاکہ'' پاکستان میں عورتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے اور وہ بالکل بے یارومدد گار ہیں۔ ان کی حالت زار سے دنیا کو آگاہ کیا جائے'' ۔ بمبئی حملوں اور سمجھوتا ایکسپریس والے معاملے پر عاصمہ جہانگیر نے پاکستانی موقف کے برعکس بھارتی موقف کی تائید کی اور بغیر کسی ثبوت کے خود پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے آئی ایس آئی کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ۔ عاصمہ اقوام متحدہ کے اس پینل کا حصہ رہی جو سری لنکن فوج کی جانب سے لبریشن ٹائیگرز آف تامل کے خلاف کیے گئے آپریشن کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ یہ ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کی فنڈنگ انڈیا سے ہوتی تھی اوراس کا صفایا کرنے میں پاک فوج نے بھی کردار ادا کیاتھا۔
عاصمہ جہانگیر کی ہفوات کا نوٹس قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی خاتون ایم این اے محترمہ نثار فاطمہ نے لیا۔ انہوں نے پوری قوت کے ساتھ اسمبلی میں آواز اٹھائی اور مطالبہ کیا کہ عاصمہ جہانگیر کے ان توہین آمیز الفاظ کے خلاف حکومت فوری کارروائی کرے، لیکن چونکہ اس وقت قانون میں توہین رسالت کے جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی، اسی لیے اس کے خلاف کوئی موثر کاروائی نہ ہو سکی۔ حکومت نے تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم کی۔ ترمیمی ایکٹ پاس کیا گیا اور دفعہ295.Cکا اضافہ کیا گیا جو توہین ِرسالت کے جرم پر عمر قید یا موت کی سزا تجویز کرتا تھا، تاہم295۔C کے نفاذ سے بھی کتاب وسنت پر مبنی مسلمانوں کے مطالبے کی حرف بہ حرف تکمیل نہیں ہوئی تھی، کیونکہ اس میں توہین رسالتؐ کے جرم کی واحد سزا، سزائے موت کے ساتھ ساتھ عمر قیدکو بھی بطورِ سزا شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا مسلمانوں کی طرف سے اس پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ مسلمانوں نے جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ کے ذریعے شریعت کورٹ میں درخواست دی اور اس قانون میں توہین رسالت کی واحد سزا سزائے موت کا مطالبہ کیا ۔ وفاقی شرعی عدالت کے اس بنچ میں جسٹس گل محمد خان (چیف جسٹس)جسٹس عبد الکریم خان کندی، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس عبد الرزاق تھہیم اور جسٹس فدا محمد خان شامل تھے۔ فاضل عدالت نے طویل عرصے تک دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ توہین رسالت ؐکی سزا صرف موت ہے۔ طویل جدوجہد کے بعد اسلامی شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ نے دفعہ C ۔295 میں توہین کی واحد سزا ،سزائے موت مقرر کر دی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی،مگر مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ قانونِ توہین رسالت ؐکے نفاذ کے بعد عاصمہ جہانگیر کی طرف سے شدید جذباتی رد عمل سامنے آیا، اس قانون کو ختم کرانا اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین نصب العین بنالیا۔ عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت کی حمایت کرنے والوں کو’’ جاہل‘‘ قرار دیا،حالانکہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں عدالت عظمیٰ نے صادرکیاتھا۔وہ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ بھی گئیں ،مگر یہاں انہیں ناکامی ہوئی۔
عاصمہ جہانگیر نے قانونِ توہین رسالت ؐکی مخالفت میں مغربی سرپرستوں کی آشیر باد کے ساتھ جسٹس دراب پٹیل(پارسی ) کے ساتھ مل کر ''پاکستان انسانی حقوق کمیشن''کی داغ بیل ڈالی،جس کا مقصداس قانون کے خلاف قادیانیوں کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو موثر بنانا تھا۔ جسٹس دراب پٹیل اس کے پہلے صدر اورعاصمہ جہانگیر اس کی پہلی جنرل سیکرٹری بنیں ۔ بعد میں عاصمہ جہانگیر اس کی چیئر پر سن اورآئی اے رحمان ڈائرکٹر بن گئے۔ حسین نقی، بیگم نگار احمد،حنا جیلانی وغیرہ قادیانی اس کمیشن کے روح رواں بن گئے ۔عاصمہ جہانگیر نے نام نہاد انسانی حقوق کمیشن کے ابتدائی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا :''کمیشن کو نہ صرف پاکستان کے آئین میں مندرجہ انسانی حقوق کی بازیابی… خصوصا ًقادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، قانونِ توہین رسالت ؐاور جداگانہ انتخابات جیسے قوانین کو بدلنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔''عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کمیشن کے انسانی و مادی ذرائع کا اپنے مقصد کے حصول کے لیے بھرپور استعمال کیا ۔ کمیشن کی طرف سے جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹوں کے علاوہ سیمینار، انٹرویو اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلندہوتی رہی، دشمنانِ دین کے ذرائع ابلاغ نے اسے آزادی اظہارِاور بنیادی حقوق کے منافی ہونے کا خوب واویلا کیا،چنانچہ آج بھی اس کمیشن کی طرف سے شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ میں قادیانیوں کے ساتھ کی جانے والی'ـ''زیادتیوں اورانسانی حقوق کی پامالی''کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ کمیشن کی کوئی ایک رپورٹ بھی ایسی نہیں ہے جس میں 295 سی،یعنی توہین رسالتؐ کواقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کامطالبہ نہ کیا گیا ہو۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے آ قاؤں کے ساتھ مل کریورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا کے دورے کیے اوروہاں کی حکومتوں کو295سی کاقانون واپس لینے کے لیے حکومت پاکستان پردبا ڈالنے کے لیے تیار کیا۔ آج بھی انہی لوگوں کے حقوق کا تحفظ اس کمیشن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ اس کے اہم عہدیداروں کی اکثریت کا تعلق قادیانی فرقے سے ہے۔اس کی طرف سے ''ایمنسٹی انٹرنیشنل''کو بنی بنائی رپورٹیں ارسال کی جاتی ہیں اور جب یہ رپورٹیں لندن سے شائع ہوتی ہیں، تو پاکستان میںیہ لابی انسانی حقوق کے نام پر ان کی بھرپور تشہیر کرتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک بھی سالانہ رپورٹ ایسی نہیں ہے جس میں پاکستانی قادیانیوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی بے بنیاد، من گھڑت اور شرانگیز واقعات کی داستانوں کا طویل تذکرہ شامل نہ ہو۔اس سے یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ ان رپورٹوں کا اصل ماخذ ومصدر عاصمہ جہانگیر کی زیر سرکردگی کام کرنے والاانسانی حقوق کمیشن ہے۔ انسانی حقوق کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
سلامت مسیح کیس اور عاصمہ جہانگیر
بے نظیربھٹو دوسری مرتبہ پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بن گئیں، توعاصمہ جہانگیر نے توہین رسالت ؐ قانون کے خلاف تحریک میں شدت پیدا کرلی۔ بے نظیرسے لڑکپن کے دنوں کے ذاتی مراسم کو اس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ سلامت مسیح نامی ایک دریدہ دہن کوتوہین رسالت ؐکے مقدمے میں جج نے موت کی سزا سنائی، تو عاصمہ کی کوشش پر اسے کم عمر کہہ کر بے نظیر حکومت سے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ ہائی کورٹ میں جس تیز رفتاری کے ساتھ اپیل کے مراحل طے کیے گئے ،ملزموں کو جس طرح بر ی اور رہا کر کے بیرونِ ملک روانہ کر دیا گیا،اس کے پیچھے بھی عاصمہ جہانگیر کا کردار موجود تھا۔اس کے بعد ہی عاصمہ جہانگیر کے لیے پاکستان میں مسیحی تنظیموں کے ساتھ اشتراکِ عمل کا راستہ ہموار ہوا۔ اس کے کہنے پر بعض مسیحی رہنما بھی قانونِ توہین رسالت ؐکے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ ہو گئے۔بشپ جان جوزف کی خود کشی پرعاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ اشتعال انگیز بیان دیا :’’295 -سی اور کتنی جانیں لے گا۔ اقلیتوں کے خلاف اس امتیازی قانون کو ختم کیا جائے‘‘۔تاہم عاصمہ جہانگیر تمام مسیحی لیڈروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیا ب نہ ہو سکیں،متعدد مسیحی رہنمائوں نے فادر جوزف کی خود کشی کو مشکوک قرار دیااور اس سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کی سرگرمیوں کو بیرونی ممالک سے بھاری رقوم وصول کر نے کی کوشش قرار دیا۔عاصمہ جہانگیرمالی مفادات حاصل کرنے کے لیے فادر جوزف کو ’’شہید‘‘قرار دینے پر تلی ہوئی تھیں۔اسی سلسلے میںانسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر آئی اے رحمانی نے کہا :''توہین رسالتؐ سے متعلق قانون295 دفعہ ۔سی مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ صرف ’’جاہل مولوی‘‘ اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، اکثریت توہین رسالتؐ قانون کی حامی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات مکمل طور پر سیکولر تھے۔''
عاصمہ جہانگیر اور قادیانیوں سے محبت
عاصمہ جہانگیر کا دعویٰ تھا کہ وہ قادیانی نہیں،تاہم 26 جون 1986 کے روزنامہ’’ جنگ‘‘ کی یہ خبرقادیانیت سے ان کے رشتے اور محبت کی گواہی پیش کرتی ہے۔''میرے شوہر قادیانی ہیں،وہ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ میرے سسرال نماز روزے کے پابند ہیں۔اس سلسلے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔''عاصمہ جہانگیر بالعموم اپنے قادیانی ہونے یا نہ ہونے کے سوال پرطرح دے جاتی تھیں ،تاہم اپنے شوہر کے قادیانی ہونے کا اعتراف کئی بار کیا۔یہی وجہ ہے کہ ساری عمر اسلام و نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم رہیں ۔ایک ٹی وی چینل پر انصار عباسی صاحب سے مباحثے میں واضح الفاظ میں کہا:’’میں سیکولر ہوں،میرا کوئی مذہب نہیں‘‘۔وہ گاندھی جی کی تصویرکے سامنے خالص ہندووانہ انداز میں ہاتھ جوڑے اَکھنڈ بھارت کی حمایت میں بھارتی یوم آزادی پر واہگہ جا کر شمعیں جلاتی رہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ہندو انتہا پسند لیڈر بال ٹھاکرے سے ملاقات کے لیے ماتھے پر تلک لگا کر اوراسی بھگوارنگ کا لباس پہن کر گئیں جیسا کہ بال ٹھاکرے نے پہن رکھا تھا۔ انہوں نے ملاقات میں بال ٹھاکرے کے لہجے میں پاکستانی اداروں کو برا بھلا کہا ۔ ممبئی حملوں کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر نے پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف وہی موقف اپنایا جو بھارت کا تھا۔ ڈھاکہ جا کر پاکستان کو توڑنے کے سلسلے میں اپنے والد ملک غلام جیلانی کی''خدمات'' کا حسینہ واجدسے ایوارڈ لیا۔ یہی دن تھے جب بھارت نواز حسینہ واجد  جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دے رہی تھیں ۔ سپریم کورٹ بار کے صدارتی الیکشن سے قبل بھارتی ہائی کمشنر نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں بڑے ڈنر کا اہتمام کر کے وکلاء تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے والوں کو عاصمہ کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کے لیے آمادہ کیا۔کون انکار کر سکتا ہے کہ عاصمہ جہانگیرکواسلام اور پاکستان سے ہمیشہ چڑ رہی۔ان کی نصف صدی کی سرگرمیوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے ہر دشمن سے ان کو پیار تھا اوراللہ اور رسولؐ سے خدا واسطے کا بیر۔ ڈھاکہ میں حسینہ واجدسے ان کا محبت بھرا معانقہ ان کے نظریے اور عقیدے کا شاہدعادل تھا ۔ ان کی موت نے بھی ان کا یہ کردار نمایاں رکھا ۔ قادیانی خاوند اور عیسائی داماد رکھنے والی عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں مرد وزن کی مخلوط صفیں کھڑی ہوئیں،جنازہ حیدر فاروق مودودی نے پڑھایا جس کے بارے میں خود سید مودودی کا کہناتھا کہ جب انہوںنے اس کے لڑکپن میں خراب کردار کی وجہ سے گھر سے نکالا ، تو وہ ان کو بدنام کرنے کے لیے ربوہ چلا گیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کی تدفین میں ایک دن کی تاخیر اس لیے ہوئی ،کہ ان کی بیٹی منیزے جہانگیر اور ان کے غیر ملکی عیسائی داماد ہیری لندن سے پاکستان پہنچ نہیں سکے تھے۔ 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تعطیلات میں توسیع کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں، موسمی صورتحال پر گہری نظر ، حتمی فیصلہ کل ہوگا: حکام
تازہ ترین
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سری نگر میں عاشورہ جلوس میں شرکت
تازہ ترین
پونچھ میں19سالہ نوجوان کی پراسرار حالات میں نعش برآمد
پیر پنچال
راجوری میں حادثاتی فائرنگ سے فوجی اہلکار جاں بحق
پیر پنچال

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?