راجستھان کے راج سمند میں ایک شیطان صفت انسان کے ہاتھوں ایک دوسرے انسان کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔ یہ خوف ناک واقعہ ایک فرضی اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی ناپاک مہم کا نقطہ عروج ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مذہبی منافرت کا وہ زہر جو ایک عرصے سے رفتہ رفتہ اکثریتی فرقہ کے ایک مخصوص طبقے کے ذہن میں انڈیلا جا رہا تھا، چاروں طرف پھیل گیا ہے اور اس کی گرفت سے ملک کا کوئی بھی گوشہ محفوظ نہیں ہے۔ یہ زہر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑنے لگا ہے اور وہ’’ لو جہاد‘‘ کے فرضی واقعات کے نام پر جوش مارنے لگتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ مسلم مخالف قوتیں مسلمانوں کے خلاف ایک خطرناک ماحول سازگار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ وحشیانہ واقعہ چیخ چیخ کر کارپردازانِ حکومت سے سوال کر رہا ہے کہ کیا مسلم مخالف شیطنت کا یہ رقصِ برہنہ اسی طرح جاری رہے گا؟ کیا ہندوستان کی فرقہ وارانہ یکجہتی کی اسی طرح اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہے گی؟ کیا قتل و خون کے رسیا عناصر کو اسی طرح چھوٹ ملتی رہے گی کہ وہ جو چاہیں کریں؟ کیا سیاسی مفادپرستی کی خاطر انسانیت کو شرمسار کرنے والے ایسے بہیمانہ واقعات پر بھی سیاست دانوں کی خاموشی کا سلسلہ جاری رہے گا؟ کیا ارباب حکومت کے ہونٹوں پر پڑا ہوا قفل کبھی نہیں کھلے گا؟ کیا لوگوں کا ضمیر اس قدر مردہ ہو چکا ہے کہ کوئی بھی انسانیت کش واقعہ اسے جھنجھوڑ کر بیدار نہیں کر سکتا؟
ہم اس بات کا بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہندوستان ترقی یافتہ ملک بننے جا رہا ہے۔ وہ عالمی قیادت کے منصب پر فائز ہونے والا ہے۔ وہ پوری دنیا کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ کیا انہی دلانے والے واقعات کے جلو میں ہندوستان عالمی قائد بنے گا؟ کیا مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ منافرت کا یہ جنون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس قسم کے دعوے کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لرزہ خیز واقعات کی روشنی میں ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم عالمی قائد بننے کا خواب دیکھیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی کاشت کرنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ تین ساڑھے تین برسوں کے دوران ایسے واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہو گیا ہے۔ ہر واقعہ کے بعد کچھ آوازیں اٹھتی ہیں، کچھ مذمتی بیانات جاری کیے جاتے ہیں، حکومت کی جانب سے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے ہوتے ہیں اور قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کی یقین دہانیاںکرائی جاتی ہیں اور مذہب کے نام پر کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دینے کا ببانگ دہل اعلان اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ یہ وعدے طاق نسیاں پر سجا دیے جاتے ہیں۔ قاتلوں اور حملہ آوروں کو ایک بار پھر کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ پہلے تو ان کی گرفتاری ہی بڑی مشکل سے ہوتی ہے اور اگر وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے دباؤ میں گرفتار کر بھی لیے جاتے ہیں تو پھر جلد ہی انھیں ضمانت پر رہا بھی کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ پھر اپنی شیطانیت کا مظاہرہ کر سکیں۔ دادری کے اخلاق کا قتل ہو یا الور کے پہلو خان کا، ہریانہ کے حافظ جنید کی ہلاکت ہو یا راجستھان ہی کے عمر خان کی ہلاکت یا پھر ٹرینوں میں داڑھی اور ٹوپی والوں کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوں، گائے پالنے اور اس کا دودھ فروخت کرنے کے لیے گائے لے جانے والے مسلمانوں کو گائے کا اسمگلر بتا کر ان پر ظلم و زیادتی کے واقعات ہوں یا پھر اس قسم کے دیگر واقعات۔۔۔ کیا مجرموں، قانون شکنوں، دنگائیوں ، بلوائیوں، فرقہ پرستوں اور قاتلوں کو کوئی ایسی عبرت ناک سزا ملی ہے کہ اس کو دیکھ کر دوسرے سبق حاصل کریں اور وہ خود اس راہ پر چلنے سے باز آئیں؟کیا ایسے واقعات میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوئی کوشش کی گئی؟ کیا حکومتوں نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی؟ قطعاً نہیں اور بالکل نہیں، بلکہ اس کے برعکس بعض معاملات میں قاتلوں اور دنگائیوں کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ اس صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں کو حکومت اور انتظامیہ کی بظاہر پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں؟ ہو نہ ہو، ان سماج اور امن دشمن عناصر کو درپردہ ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے اور ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ تم جو چاہوں کرو تمھارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
جہاں تک راج سمند کے مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے تو اسے بھی’’ لو جہاد‘‘ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ گرفتار قاتل شمبھو لال ریگر کیمرے کے سامنے آکر للکارتا ہے اور اپنی حیوانیت پر فخر کرتے ہوئے دھمکی دیتا ہے کہ’’ لو جہادیو،!لو جہاد بند کردو، ہمارے ملک سے نکل جاؤ، ورنہ تمھارا یہی انجام ہوگا‘‘۔ اس کی دیدہ دلیری اور حکومت و قانون سے بے خوفی دیکھئے کہ وہ افرازُل کے قتل اور اس کی نعش نذر آتش کرنے کے واقعہ کی فلم بندی بھی کراتا ہے اور اس میں اپنے ایک کم سن بھتیجے کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ گویا وہ اپنے بھتیجے کو بھی اسی نفرت کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے جس پر وہ خود چل کر یہاں تک پہنچا ہے۔ پہلے یہ خبریں آئی تھیں کہ اس کے محلے کی ایک لڑکی ایک بنگالی مسلم کے ساتھ بھاگ گئی تھی جسے اس نے بازیاب کرایا اور اس کے بعد ہی اس نے یہ خوں ریزی کی لیکن اب وہ لڑکی سامنے آگئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا شمبھو سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں وہ اسے راکھی باندھتی رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ۲۰۱۰ء میں محمد ببلو شیخ نامی ایک نوجوان کے ساتھ مالدہ میں سید پور گئی تھی۔ وہ ۲۰۱۳ ء میں از خود واپس آگئی۔ اس نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ اسے شمبھو واپس لایا ہے۔ شمبھو وہاں گیا ضرور تھا لیکن اس نے اس کے ساتھ واپس آنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خود لوٹ کر آئے گی۔ اس لڑکی کی عمر اب بیس سال ہو گئی ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے۔ اس نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ شمبھو نے اس کے واقعہ کی وجہ سے افرازُل کا قتل کیا ہے۔ لڑکی نے اس کی بھی تردید کی کہ اس کے واپس آجانے کے بعد شمبھو کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس نے کہا کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اسے کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی اور اس کا یہ بیان پولیس نے ریکارڈ کیا تھا۔ اگر لڑکی کی یہ باتیں درست ہیں تو پھر یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شمبھو نے مسلم مخالف مہم کے زیر اثر آکر اس واقعہ کو انجام دیا۔ البتہ اب اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ شمبھو کے دماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ’’لو جہاد ‘‘کے نام پر مسلم مخالف مہم کا نتیجہ ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا شمبھو وہ تنہا شخص تھا جس نے یہ واردات انجام دی؟ اگر ہم اس پورے واقعہ اور اس کے منظر و پس منظر کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ شمبھو کی اس حیوانیت کے پیچھے کچھ اور لوگوں کی سازشیں اور کارفرمائیاں ہیں۔ ایسے لوگوں کی جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور جو ان کا وجود بھی اس ملک میں برداشت نہیں کر سکتے۔ راجستھان پولیس کا بھی یہی کہنا ہے کہ شمبھو ذہنی طور پر بیمار نہیں تھا جیسا کہ اس کی بیوی کا دعویٰ ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے بہت منصوبہ بندی کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی شریک جرم ہوں گے۔ ابھی تو شمبھو کو تین روز کی پولیس تحویل میں دیا گیا ہے۔ اس نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پولیس اس سے ان لوگوں کے نام معلوم کرنے میں کامیاب ہو سکے گی جو اس وحشیانہ واردات میں درپردہ شامل رہے ہیں۔ ابھی تک راجستھان اور ہریانہ میں اس قسم کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، ان میں پولیس اور حکومت کی کارروائیوں کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ اس سازش کا سراغ لگانے میں پولیس کامیاب ہو جائے گی۔ لگتا یہی ہے کہ یہ واقعہ بھی دوسرے واقعات کی مانند تحقیقات کی فائلوں میں دب جائے گا اور فائلیں گرد کھاتی رہیں گی اور مجرم آزادانہ گھومتے رہیں گے۔