جموں سرینگر شاہراہ بند رہنے کی وجہ سے کشمیر اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسافر جموں اور مختلف مقامات پر اکثر درماندہ ہو کر مصائب میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، پھر جب موسم میں بہتری آنے پر شاہراہ پر ٹریفک کا سلسلہ بحال ہوجاتا ہے تو حکام کی ترجیح بیچ راستے میں پھنسے مسافروں اورگاڑیوںکو بحفاظت نکال کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ کرنا ہوتا ہے۔لہٰذا جموں میں رُکے ہوئے مسافر کئی کئی دنوں تک سڑک کھلنے کے انتظار میں درماندہ رہتے ہیں۔ اسکی بدترین صورت گزشتہ ہفتے کو دیکھنے کو ملی ، جب سے سینکڑوں مسافروں ، جن میں بچے بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں، دربدر ہےاور متعدد کے پاس اب کھانے کےلئے بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ جموں او رکشمیر کے صوبوںکوآپس میں ملانے والی 300کلو میٹر شاہراہ کی حالت اس قدر خراب ہے کہ گزشتہ ہفتے جب اسے ٹریفک کیلئے بحال کیاگیاتو جموں سے سرینگر یا سرینگر سے جموں آنے جانے والے مسافروں کو اپنی اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے لگ بھگ 40گھنٹے تک لگ گئے اور دوران سفر ان کو کن کن مشکلات کاسامنا رہایہ بیان کرپانا مشکل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اسی سال یہ شاہراہ برفباری کے باعث بند ہوئی ہوبلکہ یہ سلسلہ سالہاسال سے چلتاآرہاہے اور موسم سرما میں اس کا باربار بند ہونا اور پھر بحال ہونا ایک معمول کی بات ہے، تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بار درماندہ مسافروں کے تئیں حکام کی طرف سے انتہائی بے رخی اختیار کی گئی اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ۔نہ ہی ان کے قیام و طعام کا انتظام کیاگیا اور نہ ہی بذریعہ ہوائی سفر انہیں سرینگر منتقل کرنے کیلئے کوئی ادنیٰ سی کوشش بھی ہوئی ۔ماضی میں کئی بار یہ دیکھاگیاہے کہ جب جب مسافرزیادہ دنوں تک کیلئے جموں یا سرینگر میں درماندہ ہوئے تو ان کوہوائی جہاز کے ذریعہ اپنی اپنی منزل تک پہنچانے کے اقدامات کئے گئے لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں کیاگیا جس کے نتیجہ میں درماندہ مسافروں کی پریشانیاں اس قدر بڑھ گئیں کہ ان کے پاس کھانے پینے کیلئے بھی کچھ باقی نہیں بچا اورجہاں کسی نے ادھار رقم لیکر گزر بسر کیاتو وہیں کوئی غبارے فروخت کرکے اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہوا۔بس اڈہ جموں میں درماندہ رہنے والے ہر ایک مسافر کی دردناک کہانی ہے ۔موسمی صورتحال کے باعث پریشانی سے دوچار ہونے والے ان مسافروں کیلئے راحت رسانی کے اقدامات حکام کی ذمہ دار ی ہے مگر افسوسناک بات ہے کہ مسافروں کے تئیں بے رخی کا مظاہرہ کیاگیا ۔اس پر طرہ یہ ہے کہ ہوائی سروس کا کرایہ بھی آسمان کو چھورہاہے اور غریب شخص کیا ،کوئی صاحب ثروت شخص بھی یہ کرایہ ادا کرکے سفر کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچے گا۔بدقسمتی سے ریاست میں ہوائی جہازوں اورمسافرگاڑیوں کے کرایہ کو اعتدال میں رکھنے کیلئے کوئی نظام ہی نہیں اور یہ سب کچھ من مرضی کے مطابق چلتاہے ۔اگرموسم صاف اور سواریاں کم ہوںگی تو ہوائی جہاز پر مسافر گاڑی سے بھی کم کرایہ ہوجائے گالیکن موسم خراب ہوگاتو مسافروں کی کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایاجاتاہے ۔ مسافرگاڑیوں کا بھی یہی کچھ حال ہے اور کبھی جموں سے سرینگر پانچ سوروپے تو کبھی کرایہ پندرہ سو تک بھی جاپہنچتاہے ۔ایسے حالات میں سب سے زیادہ مشکلات درماندہ مسافروں کو ہی برداشت کرناپڑتی ہیں جن کیلئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورتحال بن جاتی ہے ۔یہاں ہر ایک کے ذہن میں یہ سوال ابھرتاہے کہ جب حکام یہ معلوم ہے کہ برفباری کے دوران شاہراہ بند ہونے کا ہر ممکن امکا ن موجود ہے تو پھر کیونکر متبادل اقدامات نہیں کئے جاتے اور مسافروں کو حالات کے رحم و کرم پرکیوںچھوڑ دیاجاتاہے ۔ متعلقہ حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل میں پھنس جانے والے مسافروں کی فوری مدد کیلئے اقدامات کریں اور ان کے اس نہج پر پہنچنے تک انتظا رنہ کیاجائے کہ جہاں ان کے پاس نہ کھانے پینے کیلئےبھی کچھ باقی نہ رہے اور نہ ہی سر چھپانے کیلئے انہیں جگہ مل پائے ۔ ریاست کے گورنر نے بھی وزیراعظم موودی کی آمد پر ایک تقریر کے دوران ہوائی جہازوں کے بے لگام کرایہ کا رونا رویا، لیکن انہوں نے اسے صرف سیاحت سے جوڑا اور مشکلات میں پھنسنے والے ایسے مسافروں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ بہر حال یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر حکومت کو اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔