رواں موسم سرما کےد وران سرینگر جموں شاہراہ وقفے وقفے سے منقطع رہنے کی وجہ سے اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کو کن بے بیاں مشکلات کا سامنا رہا ہے، وہ شاید بتانے کی بات نہیں، کیونکہ کم وبیش گزشتہ تین ہفتوں سے اسکی دل شکن رپورٹیں آئے دن میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، لیکن جو مسافر شاہراہ مسدود ہونے کے سبب جموں میں پڑے ہوئے ہیں،ا نکی حالت زار ؟،کیا ہے اسکے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی خاص پہل دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ شاہراہ بند ہونے کے ساتھ ہی جموں اور اس کے مضافات میں ہوٹل والوں کی جانب سے من مانا کرایہ وصول کرنے کی وجہ سے ایسے مسافروں کی بڑی تعداد سرراہ گزارہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور آج بھی جموں بس اڑے اوراس کے گرد و نواح میں سینکڑوں لوگوں کی بس سٹالوں اور فٹ پاتھوں پر بستر بچھا کے بیٹھا ہوا پایا جانا ایک عام بات بن گئی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان درماندہ مسافروں میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل ہیں ، جنہیں اس طرح سر راہ اپنی گزر اوقات کرنا پڑتی ہے ،جس طرح بیرون ریاست سڑکوں پر لوگوں کی ایک بڑ ی تعداد فٹ پاتھوں پر زندگی گزارتی ہے۔ ریاست میںفی الوقت کوئی منتخب حکومت نہیں،لہٰذا گورنر انتظامیہ کے توسط سے ساری صورتحال کےلئے مرکزی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط نہ ہوگا۔مرکزی حکومت ترقی اور شہریوں کے حقوق کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہتی ہے، لیکن نہ جانے یہ دعوے اس وقت کیوں دم توڑ دیتے ہیں جب بات ریاست جموںوکشمیرپر آتی ہے۔واحدشاہراہ بند ہونے کی صورت میں مسافروں کے پاس صرف فضائی سفر کا راستہ بچتا ہے، جو اگرچہ ہر ایک کی استطاعت سے مطابقت نہ رکھتا ہو لیکن ایسے لوگ ضرور ہیں جو یہ راہ اختیار کرتے ہیں، مگر یہ بھی جبھی ممکن ہوپاتا ہے ، جب ہوائی سفر کا کرایہ معقول ہو۔لیکن یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ سڑک بند ہوتے ہی ہوائی سفر کا کرایہ آسمان کو چھونے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عام دنوں کے مقابلے کرایہ میں کئی کئی گنا اضافہ کیا جاتا ہے۔ فضائی کرائے کے نام پر اس لوٹ کھسوٹ کا رونا ریاست کے گورنر نے بھی وزیراعظم مودی کے حالیہ دورے کے دوران منعقدہ تقریب کے دوران وزیراعظم کے سامنےرویا اور انہوں نے مرکز پر یہ زور دیا کہ وہ اس میں معقولیت لانے کےلئے کوئی نظام وضع کرے۔ اس کے تواتر میں انکے مشیر نے ٹکٹنگ کا کاروبار کرنے والوں اور فضائی کمپنیوں کے مقامی ذمہ داروںکو طلب کرکے انہیں اُس ہدایت پر عملدرآمد پر زور دیا ہے، جسکے مطابق فضائی کمپنیوں پر باور کیا گیا ہے کہ وہ ایک PNRنمبر کے تحت صرف دو یا تین ٹکٹوں کی اجرائی عمل میں لائیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹکٹ فروخت کرنے والے ایجنٹ سستے داموں بھاری پیمانے پر ٹکٹیں خرید کر موسم کے اعتبار سے طلب میں اضافہ کے ساتھ ہی انہیں اُونچے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اگر چہ ٹکٹنگ ایجنٹوں کا دعویٰ ہے کہ ہوائی سفر کا کرایہ طلب اوررسد کے نظام کے تابع ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ طریقۂ کار کی وجہ سے یہ ایک استحصالی نظام کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس میں منفعت پسند خود غرض عناصر عام لوگوں کی کھال کھینچنے سے پس پیش نہیں کرتے۔ اس سارے ماحول میں ضروت اس امر کی ہے کہ ریاستی حکومت فضائی کمپنیوں اور انکے ٹکٹنگ ایجنٹوں کی نکیل کس لے، تاکہ کسی کو من مرضی کا طریقۂ کار اختیار کرکے عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا موقع اور جواز فراہم نہ ہو۔ فی الوقت ریاستی حکومت جموں میں پھنسے ہوئے مسافروں کو سرینگر پہنچانے کےلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدام کرے اور اس کے لئے فضائی کمپنیوں کو اضافی پروازیں چلانے پر آمادہ کرے تاہم اس بات کا خیال ضرور رکھا جانا چاہئے کہ کرایہ کے نام پر لوگوں کی کھال کھینچنے کی کسی کو اجازت نہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو معقول ، مناسب اور منضبط نظام ترتیب دینے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے، تاکہ استحصالی عناصر کو فروغ ملنے کی راہیں مسدود ہوسکیں۔