سرینگر//تعلیم و تعلم، جسے کسی زمانے میں ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا ہے، موجودہ دور میں ایک منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے اور اس مقدس پیشے کو دولت کمانے کا آسان ذریعہ بنایا گیا ہے۔اس لوٹ کھسوٹ میں نجی سکول سر فہرست ہیں جن کی لگام کسنا حکومت کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے کیونکہ محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری احکامات کو یہ طبقہ درخور اعتنا نہیں سمجھتا ۔وادی میں آج کل سکولی کتابیں خریدنے کیلئے والدین سے درسی کتابوں کے نام پر اضافی رقوم وصولی جارہی ہیں اور اس چیز کو دیکھنے کیلئے کوئی محکمہ سامنے نہیں آرہا ہے ۔اس صورتحال کی وجہ سے والدین ایک بار پھر پریشان نظر آرہے ہیں۔نجی سکولوں کی من مانیوں کو روکنے کیلئے سرکار جہاں آئے روز نئے نئے فیصلے لیتی ہے وہیں زمینی سطح پر کہیں اس کا اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔گذشتہ دنوں اگرچہ محکمہ تعلیم کی طرف سے پرائیوٹ سکولوں کو بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی کتابیں اور سیلیبس اپنانے کا فرمان جاری کیا گیا تاہم یہاں سب اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وادی کشمیر میں ہر سال 100کروڑ روپے مالیت کی درسی کتابیں بیچی جاتی ہیں تاہم ان کتابوں کی قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے آج تک سرکار نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔کشمیر عظمیٰ کو گذشتہ کئی دنوں سے لوگوں کی طرف سے مسلسل یہ شکایتیں موصول ہورہی ہیں کہ نجی سکولوں کے لاکھوں طلبا و طالبات کے لئے شائع کی جانے والی درسی کتب کی قیمتوں میں دوگنااضافہ کر دیاگیا ہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ بازاروں میں بک شاپس پر دستیاب رکھی گئی کتابیں اب نئی اضافی قیمتوں میں فراہم کی جا رہی ہیں۔کئی لوگوں نے بتایا کہ پرائمری سطح پر جو کتابیں رکھی گئی ہیں ،ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں ۔رئیس احمد نامی شہری نے بتایا’’میرا بچہ اول جماعت میں ہے اور جب میں کتابیںخریدنے گیا تو میں کتابوں کی قیمتیں دیکھ کر دھنگ رہ گیا ‘‘۔انہوں نے کہا ’’مجھے12کتابیں خریدنی پڑیں اور مجھے 2500روپے دینے پڑے جس کی وجہ سے میں کاپیاں خرید نہیں پایا ‘‘۔انہوں نے کہا ’’فیس معاملہ کو لیکر بھی ہمیں الجھایا گیا اورسکول بند ہونے کے باوجود5ماہ کا فیس لیا گیا ‘‘۔فیاض احمد شیخ نامی ایک اور شہری نے بتایا ’’میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ اگر سرکار ایک طرف پرائیوٹ سکولوں کی من مانیوں کو روکنے کیلئے نئے نئے فرمان جاری کرتی ہے تاہم زمینی سطح پر اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آتے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ پستے جارہے ہیں ‘‘۔کشمیر بک سیلرز اینڈ ڈسٹریبیوٹرزایسوسی ایشن کے صدر شوکت احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’وادی کشمیر میں تقریبا ہر سال 100کروڑ روپے مالیت کی درسی کتابیں فروخت جاتی ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’امتحانات کے نتایج سامنے آنے کے ساتھ ہی وادی میں نئے سرے سے تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں اور درسی کتابوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے ‘‘۔انہوں نے بتایا ’’چونکہ اس سال حالات پرتنائو رہے اور طلاب کو ماس پرموشن دی گئی جس کی وجہ سے ابھی کتابوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ دیر سے شروع ہوا اور گذشتہ ایک ماہ کے دوران وادی میں تقریباً 40کروڑ روپے کی درسی کتابیں فروخت گئیں ‘‘۔انہوں نے مزید بتایا’’کتابوں کی قیمتوں کا تعین کرنے اور مارکیٹ پرنظر گذر رکھنے کیلئے لیگل اینڈ میٹرولوجی محکمہ ہے تاہم عموما یہ محکمہ نظر نہیں آتا ہے ‘‘۔اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ نے جب لیگل اینڈ میٹرولوجی محکمہ کے ڈپٹی کنٹرولر تنویر احمد سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے پاس پہلے ہی ایک ایکٹ ہے جس کی رو سے سکولوں کو بچوں کو صرف تعلیم دلانا ہے اور درسی کتابوں کا تعین اور ان کی قیمتیں مقرر کرنا بھی وضع ہے ‘‘۔انہوں نے کہا ’’مارکیٹ میں جو بھی کتاب دستیاب ہو ،اس کی قیمت لازمی طور لکھی ہونی چاہئے ‘‘۔انہوں نے مزید بتایا’’کتاب کتنے صفحات پر مشتمل ہے اور اس کا سرورق کیسا ہے ،اسی حساب سے ہی کتابوں کی قیمت مقرر کی جاتی ہے ‘‘۔ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی کنٹرولر نے بتایا کہ اگر کسی شہری کو درسی کتابوں کی قیمتوں سے متعلق کوئی شکایت ہو تو ہ محکمہ کے ساتھ رابطہ کرسکتا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محکمہ تعلیم نے گذشتہ دنوں تمام سکولوں کو سٹیٹ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی طرف ست مقرر کردہ کتابوں کو اپنانے کیلئے کہا ہے۔اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ آف سکول ایجوکیشن کشمیر نے ایک سرکیولر جاری کیا اورتسلیم شدہ تمام نجی سکولوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ سٹیٹ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی طرف سے مقرر کردہ سلیبیس اورکتابوں کو اپنائیں ۔ناظم تعلیمات کشمیر کے مطابق تعلیمی سال-17 2016سے پانچویں اور نویں جماعت کے طلاب کا امتحان بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے سلیبس کے تحت لیا جائے گا اور نجی سکولوں کے نصاب پر عمل درآمد نہیںہوگا۔