رئیس صدیقی
میرے لئے یہ جذباتی اور سنہرا موقع ہے کہ میں آج اپنے ان دنوں کو یاد کر رہا ہوں جب میں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے اور کانپور یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے کے بعد1980 میںدہلی کا رخ کیا تھا ۔اس دور میں بھی روزی روٹی حاصل کرنا بہت دشوار تھا۔ آج کی طرح روزگار کے مواقع نہیں تھے کیونکہ اس وقت کارپوریٹ کی دنیا آج کی طرح وسیع و عریض نہیں تھی ۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ تر سرکاری ملازمتوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا اور سرکاری ملازمتیں ہی تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے معراج تھیں۔
دلّی آکر میں نے بھی نوکری تلاش کرنے کی جد وجہد شرو ع کی۔ ابتدا میں دلّی کے شاہدرہ علاقہ میں ایک کوچنگ سینٹر میں انگریزی پڑھانا شرو ع کیا لیکن اس سے اتنی آمدنی نہیں تھی کہ کمرہ کا کرایہ اور کھانے پینے کا معقول بندوبست ہو سکے لہٰذا روزگار دفتر میں TGT اور LT ٹیچر کے عہدہ کے لئے رجسٹریشن کرایا۔1983میں دہلی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ سے انٹرویو لیٹر ملا اور24اگست1983کو تقررنامہ لیکر جب میں راشٹرپتی بھون سے ملحق پریذیڈنٹ اسٹیٹ میں واقع پریذیڈنٹ اسٹیٹ اسکول پہنچا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہاکیونکہ یہ سکول کئی ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا تھا ۔ہرا بھرا، بڑا سا کھیل کود کے لئے میدان ، ایک منزلہ عمارت میں بہت سے کمرے ، ہر کلاس روم میں سپیکر اور دیگر سہولیات سے مزین کسی بھی آج کے بڑے پبلک سکول سے ہمارا اسکول کم نہیں تھا ۔
درحقیقت یہ سکول، پریذیڈنٹ سکول / پریذیڈنٹ ا سٹیٹ سکول / راشٹرپتی بھون سکول کے نام سے مشہور تھا اور اس سکول میں راشٹرپتی بھون میں کام کرنے والے ملازمین اورافسران کے بچوں کے علاوہ ، وزیر ، ایم پی ، ایم ایل اے و پارشد اور بہت بڑے بڑے افسروں کے بچے پڑھتے تھے۔ یہاں داخلہ ملنا مشکل ترین کام تھا کیونکہ یہ کے جی ، پرائمری ، مڈل ، سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری کو۔ ایڈ سکول ہے۔ اب اس سکول کا نام ڈاکٹر راجندر پرساد سروودے سکول ہے ۔
اس سکول کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ہوں کیونکہ اس سکول نے مجھے بے شمار یادگار مواقع فراہم کئے ہیں اورمیری شخصیت کی تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ۔ٹیچربننے سے پہلے میں آل انڈیا ریڈیو میں عارضی اردو / ہندی نیوز ریڈر ،انااونسر ، ڈرامہ وائس آرٹسٹ ، کہانی ، ڈرامہ اور ٹاک رائیٹر کی حیثیت سے جاتا رہتا تھا۔شاید اس لئے پرنسپل نے مجھے چارHouses کا چیف ہاؤس ماسٹر اورڈسپلین انچارج بنا دیا۔ اس اضافی عہدہ سے مجھے خود کو منظّم و مثالی اور طلبہ و طالبات کو ڈسپلن میں رکھنے اور مختلف ثقافتی سرگرمیوں کی جانب انہیں راغب کرنے کی مجھے بلواسطہ تربیت ملی ۔
میں بچوں کو آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کے مختلف پروگراموں میں شرکت کے لئے لیجاتا تھا جسکی وجہ سے میرے اور طالب عالموں کے مابین مزید پر خلوص رشتہ قایم ہوا۔ آج بھی بہت سے طالب علم مجھے سوشل میڈیا کے ذریعہ یاد کرتے رہتے ہیں۔میں اس سکول میں مڈل کلاس میں اردو اور نویں و دسویں کلاس کو انگریزی پڑھا تا تھا۔سال 1985-86میں دسویں کلاس کا سو فی صد ( % 100 ) نتیجہ دیا تھا۔اس محنت کا فایدہ یہ ہوا کہ11 ویں اور12 ویں کے خالی پیریڈ میں مجھے انگیزی پڑھانے کا موقع ملا جسکا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے دوردرشن میں سکول ٹی وی کے انگریزی پروگراموں میں بطور ایکٹر کئی بارکام کرنے کا موقع ملا۔
مزید برآں ، چیف ہاؤس ماسٹر ہونے کے ناطے میں11ویںو12 ویں کے طالب علموں کو لیکرTrekking کے لئے تروندرم سے کنیا کماری ، کولھائی گلیشیر کشمیر، مصوری اور راک کلائمبنگ Climbing Rock کے لئے نوح ہریانہ جانے کا موقع ملا۔طلبہ کے ساتھ طالبات کا ساتھ ساتھ ہونا میرے لئے بہت نازک اور اہم ذمہ داری ہوتی ، میں خود بھی جوان تھا ، ایسی حالت میں سبھی لڑکے لڑکیوں کو جو ہر طرح سے بالغ تھے ، ڈسپلن میں رکھنے کا نظم و نسق سیکھا۔ اس ذمہ داری سے میرے اندر نفس پر قابو پانا، قوت برداشت ، صبر ، تحمل، نظم و ضبط اور تناؤ پر غالب رہنے نیز میرے اندر تدبیرانہ صلاحیت کا اضافہ ہوا۔
یونیسکو اور گاندھی درشن پر مبنی معلومات عامہ کے امتحانات کا بندوبست کیا جس سے انتظامی صلاحیت کو جلا ملی۔ ریاستی اور قومی پیمانہ پر مختلف ثقافتی پروگراموں ، سٹیج ڈرامے اور کھیل کود میں طالب علموں کے ساتھ شرکت کی ۔ میری ٹیم اور بذات خود کئی زمروں میں بہت سے انعامات جیتے۔ان سرگرمیوںنے میری شخصیت کو خود پر یقین ، اعتماد واعتبار اور بھروسہ کو جلابخشی ۔شخصیت سازی کا یہ عمل میرے لئے آگے چل کرانڈین براڈکاسٹنگ سروس یعنی آکاشوانی دلی کا شعبہ اردو مجلس ، آل انڈیا ریڈیو کی بیرونی نشریات ،انگریزی سروس ، ہندی سروس و اردو سروس اوردوردرشن کا ڈی ڈی اردو و دوردرشن نیوز اور آکاشوانی بھوپال کے سربراہ کی حیثیت سے پرخارملازمت کے دوران میرے لئے بہت کارآمد ثابت ہوا۔
بطور استاد یہ میرا پہلا اور آخری سکول، تعلیمی درسگاہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گاکیونکہ یہ میراسکول میرے لئے 24اگست1983سے 13دسمبر1991تکنہ صرف میراذریعہ معاش تھا بلکہ میری شخصیت کو مختلف سماجی اور انتظامی اوصاف سے مزین کرنے کے لئے میرا گرو ، میرا استاد بھی تھا اور استاد کو نہ کبھی بھلایا جا سکتا ہے اور نہ کبھی اسکا احسان اتاراجا سکتا ہے!!!
(رئیس صدیقی آکاشوانی / دوردرشن دہلی / بھوپال کے سابق آئی بی ایس افسر اور ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکادمی ایوارڈ سے سرفراز پندرہ کتابوں کے مصنف ،مولف ، مترجم ،افسانہ نگار ، شاعر و ادیب اطفال ہیں)