نثار ؔ صاحب جب کسی بات سے قائل ہی نہیں ہوئے اور کچھ زیادہ ہی بولنے لگے تومجھے اُن کی بے جاہٹ پر غصہ آیا مگر میںنے اپنے غصے پر قابو پاکرانہیں سمجھانے والے انداز میںکہا…
’’ ارے میاں! کیا ایک ہی بات کی رَٹ لگا رکھی ہے؟ خدا نخواستہ آپ جنگل میںتو نہیں رہتے۔ ذرا سا سوچئے اور تھوڑا سا غورکریئے توساری بات واضح ہوکرآپ کے پلے پڑے گی۔یہ تو آپ نے سمجھ ہی لیا ہو گا کہ جموںوکشمیر کے مسلمان کا بجز خداکے اور کوئی دوست و مدد گار نہیں ہے۔ سب اس کی تباہی اور تنزل کے متمنی ہیں، اس کی رسوائی کے خواہش مند ہیں اور دینی و مالی اساس لوٹنے کیلئے یہودؔ کے صلاح و مشورہ کے ساتھ اس کے خلاف سازش پہ سازش کی جاتی رہی ہے۔
جناب ذرا میری بات کو دھیان سے سنئے۔ یہ آج کی بات نہیں، ریاستی مسلمان کے ساتھ بہت پہلے سے ہر وقت، ہر بار اور بار بار چھل کیا جاتا رہا ہے اور لگتا یہی ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے کیونکہ یہاںکا مسلمان نہ دین کا سودا کرے گا اور نہ ہی اپنی غلامانہ زندگی کو فراموش یا برداشت کرے گا۔ اس لئے ایکشن اور ری ایکشن کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ اب میں آپ کو چھل کپٹ او رکچھ سازشوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔
سن1958ء کے آس پاس ہندوستان کے سرکاری میڈیا نے ایک نئے ریڈیو سٹیشن وِودھ بھارتی کاپرسارن شروع کیا۔ اس ریڈیو سٹیشن کے شروع کرنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہندوستان میں بننے والی فلموں پر تبصرہ نشر کیا جائے ۔ اُن کے گانے بجائے جائیں اور فلمی اداکاروں سے کچھ پروگرام کرائے جائیں۔ نہیں یہ سروس اس لئے شروع کی گئی تاکہ ایک نوجوان دن بھر فلمی سنگیت کے ساتھ مست و مگن رہے اور سیاست، ریاست ، حکومت ،مذہب اور تعلیم سے عملی طور کنارہ کشی اختیار کرے اور ساتھ میں اپنا بھی بیڑہ غرق کرتا رہے۔ قارئین تجربے کی بنیاد پر اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ نسخہ سو فیصد کامیاب رہا اور آج اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ زہر اب پوری طرح نئی نسل میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ وہ آپ خود ہی دیکھ رہے ہیں کہ چلتی پھرتی موٹر گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور پید ل چلنے والے نوجوانوں کے کانوں سے دوتارلٹک رہے ہوتے ہیں اور وہ چلتے پھرتے ڈاکٹر لگتے ہیںاور یہ بھی آپ نے دیکھاہوگا کہ نوجوانوں کے پرے کے پرے… قطار در قطار جن میں خاصی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے، سرینگر کے ٹی وی سنٹر پر ’’ ملے سُر‘‘ جیسے پروگراموں میںانتخابی ٹیسٹ کے لئے سلیکٹروں کے آگے منتخب ہونے کیلئے سجدے تک کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اُس پر لڑکیوں کا شور و غوغا ہر طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ اُن کی عزت گھر و باہر بلکہ کہیں پر بھی محفوظ نہیں۔ ارے کیسے رہے گی تمہاری عزت محفوظ تمہارے بے غیرت والدین تم کو سنٹر تک خود چھوڑنے آتے ہیں؟جب محفل میں شمع جل اُٹھی ہے تو پروانوں کے پر خود ہی لگ جاتے ہیں۔ یاد رکھے ملے سُر سے تمہارا سُر کسی سے نہیں ملے گا بلکہ اُلٹا تم خود ہی بے سُری ہو جائو گی۔ امت مسلمہ کی ایک بیٹی کی جگہ وہ نہیںہے۔ ہاں! طرابلسؔ یا جنگ ِبلقانؔ کی فاطمہؔ بن کرد کھائو، جنگ یرموک کی سمیہؓ بن کر دکھائو، فاطمتہ الزہراؓ، شہزادیٔ مدینہ المنورہ کی مقلد بن کر دکھائو جن کے شانۂ مطہر پر پانی کی مشکیزہ اُٹھانے سے گہرا نشان پڑتا تھا، بی اماںبن کر دکھائو جنہوں نے وطن کی آزادی کے لئے قابض انگریزوں سے عملی طور پر لوہا لیا تھا۔ ارے رضیہ ؔ سلطان بن کردکھائو جس نے وشال ہندوستان پر بادشاہت کی۔
ہندوستانؔ میں آج اکیسویں صدی میں بھی کئی گائوں اور قصبے ایسے ہیں جہاں بجلی ہے اور نہ انہوں نے ٹی وی ہی منگوائے ہیں۔ جب ٹی وی کیندروں کا بننا شروع ہوا تو بڑے شہروں اور قصبوں کو چھوڑ کر اولین ترجیح کشمیر کو دی گئی۔ اب یہ بھی بتانا پڑے گا کیوں؟ ظاہر ہے صرف اور صرف نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گمراہ کرنے کے لئے۔ حالانکہ یہ وقت کی ضرورت تھی، ہم تنگ نظر یاکنزرویٹو نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماںہوتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا کہ ٹی وی کو کس مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ روسیؔ اربابِ اختیار نے شروع شروع میں ٹی وی کو تعلیم دینے اور تعلیم کو عام کرنے میں استعمال کیا تھا تو وہ اُس میں سو فیصد کامیاب رہے مگر آپ خصوصاً موجودہ وقتوں میںدیکھ ہی رہے ہیں کہ یہاں بے حیائی، بے حجابی، جنسی موضوعات اور عملیات، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری، جنسی استحصال اور اغواء کاری، فیشن اور بازاری ادویات کے اشتہارات جو اکثر حد ِاخلاق اور حد ِحیا سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ مستورات کی عریانی اور مسلمانوں کی بدنامی کے سوا ٹی وی میں ہوتا کیاہے؟
اور سنئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے زیادہ پوچھ تاچھ کے بنا ہی لوکل اور نان لوکل بنکوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ بلڈنگ لون اور کار لون آسان شرائط پر لوگوں کو دستیاب رکھے جائیں۔ آخر کیوں؟؟؟ تاکہ ایک کشمیری ہمیشہ قرضے کے بوجھ تلے دبا رہے، سود دیتا رہے اور اگر کسی کا کچھ پس انداز ہو اُس پر سود کھاتا رہے تاکہ اور چیزوں کے ساتھ ساتھ اُس کا ایمان بھی سلامت نہ رہے اور خاص طور پر سیاست کی طرف توجہ دینے کا اُسے موقع ہی نہ ملے اور دو اور چار کے اُلٹ پھیر میں وہ اپنے مالک حقیقی کو بھی بھول جائے۔ کتنی اُوچھی سوچ ہے؟ اور یہ سوچ معمولی نوعیت کے سیاسی لوگوں کی نہیں بلکہ ایک ’’ تھنک ٹینک‘‘ کی ہے جس کے دماغ میں کبھی ہماری بھلائی اور سلامتی کی بات نہیں آتی۔ اُن کا ’’خوش آیند ‘‘ایجنڈا ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ کیسے ہم (مسلمانان کشمیر) قعر مذلت کے عمیق اور اندھیرے گڈھوں میں نیچے ہی نیچے چلے جائیں۔ اس اتنی شدید نفرت کی وجہ کیا ہے؟ کشمیر کے ساتھ اُن کو نفرت نہیں ہے، پھر سیدھی سی بات ہے کہ اُن کو نفرت ہمارے ساتھ ہے جس کی وجہ بجز اس کے کچھ بھی نہیں ہے کہ …ع
اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
لطف کی بات یہ ہے کہ آج کل بیشتر بھارتی بنک اور انشورنس کمپنیاں گھر پر فون لگا کر مختلف قسم کے لون دینے کی پیش کش کرتی ہیں جب کہ انشورنس والے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے گھر پر فون کرکے مختلف بہانے بنا کر اور لالچ دے کر پیسہ اینٹھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ مجھے کئی بار موبائیل فون پر ہندوستان ڈیولپمنٹ فائنانشل کارپوریشن سے لون لینے کی دعوت دی گئی جب کہ میں نے کبھی اس بات کا کہیں بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا تھا۔ مزید برآں ایک مقصداس سازش کا یہ بھی ہے کہ ایک کشمیری اپنی سونا اگلتی زمینوں اور ساگ زاروں کو مکان اور دوکان بنانے کے مصرف میں لاکر اپنی ذنبیل ہمیشہ پنجاب کی طرف پھیلا کر رکھے، جہاں سے چاول آٹے کے علاوہ ساگ سبزی بھی آجاتی ہے۔ آپ نے یہ ضرور مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب صرف دو دن بانہال کارٹ روڑ، موجودہ وقتوں کی سری نگر جموں ہائی وے بند ہو جاتی ہے چاہئے برف و باراں کی وجہ سے یا پسیاں گر آنے کی وجہ سے تو یہاں انڈا اور گنڈا دونوں کی بلیک مارکیٹنگ ہو جاتی ہے۔
جنا ب نثارؔ صاحب میں آپ کو کتنی باتیں بتائوں اور کیا سمجھائوں۔ موجودہ وقتوں کی ایک خاص وبا کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ انسان کو مارنے والی ادویات میں سے یہاں نہ کوئی دوا بنائی جاتی ہے اور نہ وہ چیز پیدا کی جاتی ہے جس سے ایسی دوائیں بنتی ہیں۔ البتہ چوری چھپے کہیں کہیں پر بھنگ کی کاشت کی جاتی ہے جسے اگر وہ پولیس کے دست برد سے بچی رہی، چرس بنائی جاتی ہے مگر چرس پینے سے کوئی مرتا نہیں ہے ،گر چہ یہ ایک ذلیل نشہ ہے جس کی لت بہت بُری ہے، مگر یہاں ہزاروں لوگ ڈرگ کا استعمال کرتے ہیں اور اس مد میںا ربوں روپیہ کا کاروبار ہوتا ہے اور اس ناجائز کاروبار کے ساتھ ہزاروں مرد و زن جڑے ہوئے ہیں ۔ آئے دن اخباروں میں ان کی پکڑ دھکڑ اور ضبطی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ آخر اس اتنے بڑے مافیا کو کون پر و اُتساہن کرتا ہے، آرگنایز کرتا ہے؟ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں؟ اس دھندے میںصرف پیسہ ہی پیسہ ہے یا اور بھی کوئی بات ہے، کوئی سازش ہے؟
ایک اور بات ہندوستانؔ کی تقریباً دو سو فڈو دوا ساز کمپنیاں صرف اور صرف کشمیر کے لئے اور کشمیر میں ادویات سپلائی کرکے سالانہ کروڑوں روپیہ کا منافع کماتی ہیں۔ تیسرے درجے کی یہ نقلی ادویات ہر جگہ اور تقریباً ہر دوکان پر بکتی ہیں اور لوگوں کو کھلائی جاتی ہیں۔ اُن ادویات سے ٹھیک ہونے کی بجائے لوگ دوسری بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن کے لئے دوسری نقلی ادویات تجویز ہوتی ہیں اور اس طرح سے مریض کو موت کے منہ میںدھکیل دیا جاتا ہے۔ قاتلوں کی یہ بڑی ٹولی دھڑلے سے کاروبار کرتی ہے اور گھومتی رہتی ہے۔ احساس گناہ تو دور کی بات اُن کی آنکھوں کا پانی ہی مر گیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ فڈرو کمپنیاں کشمیری مسلمان نوجوانوں کو میڈیکل ری پرزین ٹیٹو بنا کر یہ دوائیں شہر اور گائوں کے بازاروں میں کھپاتی ہیں۔ یہ کمپنیاں معمولی استعداد رکھنے والے آرٹس میں بارہویں جماعت پاس کئے ہوئے نوجوانوں کو بڑے بڑے شہروں میں گھماتی ہیں۔،اچھی سیلری دیتی ہیں بلکہ کار خریدنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری ہمسائیگی میں بارہویں جماعت فیل ایک نوجوان جب کار میں شام کو گھر آتا ہے تو شور مچ جاتا ہے ’’ ڈاکٹر صاحب آگئے… ڈاکٹر صاحب آگئے‘‘… نہ صرف یہ بلکہ ایسی ادویات تجویز کرنے والے ڈاکٹر صاحبان کو الگ سے تحفے تحایف، نذرانے ، فارن ٹور اور نقد پیسہ ملتا ہے۔ یہ اندھیر نگری اور اس کے چوپٹ راج کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ سکمز میں ہر روز تقریباً بیس سے تیس کینسر کے مریض رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ کھاتے پیتے، آسودہ حال ، پولیشن فری ماحول ، صاف و شفاف آب و ہوا، دلفریب نظاروں والے جنت بے نظیر میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟یہ اُسی مہربانی کا نتیجہ ہے جس میں اس قوم کی بنیادیں کھو کھلی کرنا مقصد ومرادہے۔
نثار صاحب آپ نے ضرور سنا ہوگا بلکہ اخباروںمیں بھی پڑھا ہوگا کہ بچے غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ بچے کیسے غائب ہو جاتے ہیں۔ کوئی دیو مالائی چراغ کا جن انہیں اُٹھاکر تو نہیں لے جاتا اور پرستان میں اُن کے طوطے بناکر پنجروں میں قید کر دیتا ہے۔ دراصل وہ غائب نہیں ہو جاتے بلکہ اغواء کرلئے جاتے ہیں جو باقاعدہ کسی کی شہ پر ایسا گھناؤنا کام کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مافیا ہے اور جیسا کہ اکرام الہ ٰ آبادی نے ایک بار لکھا تھا کہ اس مافیا کے ساتھ صاحب اقتدار اور صاحب سیاست لوگ بھی شامل ہیں ۔ یہ لوگ لڑکوں کو لے جاکر اُن کے جسمانی اعضاء قطع و برید کر دیتے ہیں اور انہیں سڑکوں پر بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ بچے کی ہیٔت ایسی بنا دیتی جاتی ہے تاکہ لوگ ترس کھا کر ایک آدھ سکہ اُس کے سامنے پھینک دیں ۔ کیا ٓپ نے کبھی غور نہیں کیا ہے کہ ہمارے شہر اور قصبوں میں اس وضع قطع کے کئی بچے ہوتے ہیں کچھ پیٹ کے بل، کچھ ہاتھوں کے ذریعے اور کچھ سرین کے بل رینگتے رہتے ہیں؟ وہ شام ہوتے ہی کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟ آخر انہیں کون چھوڑ کر جاتا اور کون اُٹھا کر لے جاتا ہے اور کون باہر سے لاکر یہاں ٹرانسپورٹ کرتا ہے؟ ضرور کوئی طاغوتی پنجہ ہے جو اس نیٹ ورک کو سنبھالتا ہے ۔ کیا آپ نے صرف پیسہ ہی دیا ہے یااس بات پر کبھی غور بھی کیا ہے؟
اسی طرح لڑکیوں کو بھی بھیک مانگنے کے لئے سڑکوں پرنکالا جاتا ہے اور جوان ہونے پر انہیں قحبہ خانوں میں بیچ ڈالا جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنی عمر کے فقط چند سال بھانت بھانت کے مریض حیوانوں کی بھینٹ چڑھ کر مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر سسک سسک کر اور تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ اللہ نہ کرے یہ حالت اُس بچی کی بھی ہوسکتی ہے جو کشمیر ی قوم کی کل کی ماں اور مستقبل کے نسل کی امانت دار ہوتی ہے۔ آخر یہ کون کرتا ہے یا کرواتا ہے ؟اس طرح سے تو یہودی ایجنڈے کی سو فیصد خانہ پُری ہو جاتی ہے یہ بھی دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے کہ مسلماں کو رسوائے عالم کرنے کیلئے یہود کے ساتھ کون مشورہ کرتا ہے اور اس کے مشورے پر عمل کرتا ہے؟میرے خیال سے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔باتیں اور بھی ہیں۔ بہت ساری باتیں ہیں۔ یہ چند تلخ وتند حقایق تھے جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب آپ کی غلط فہمی دور ہو چکی ہوگی۔ اور آپ اب پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ والا معاملہ نہیں دُہرائیں گے۔ اچھا چلتا ہوں۔۔۔۔ خدا حافظ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر
-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995