آج پہلی بار انتہائی سنجیدگی سے تجھ سے ہم کلام ہوں۔ ویسے تو روزانہ ہی کسی نہ کسی بہانے تم سے کلام کرتا رہتا ہوں۔ چاہے وہ خوشی کا مقام ہو یا پریشانی کا عالم۔ غم دوراں سے دل برداشتہ ہوں یا غم جاناں سے مضطرب۔ہر حال میں تجھے یاد کرتا رہتا ہوں،لیکن آج کچھ عجیب سے الجھن بھرے احساس نے تیری چوکھٹ پر لا کھڑا کر دیا ہے، جس احساس کو میں کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ تم میری زندگی کے ہر اتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہو، کیونکہ تم ہی ظاہر و باطن کے گواہ ہو۔
تیرا بہت بہت شکریہ کہ تو نے زائد از نصف صدی پر محیط عرصے سے میرا ساتھ نبھا یا ہے اور اس احسان کا احساس تک نہیں ہونے دیا ہے۔ ہاں! تیرا احساس کبھی کبھی خود بخود شدت سے ہو جاتا ہے۔ مجھے زندگی کا ہر لمحہ بخوبی یاد ہے۔ چاہے وہ مسرتوں سے بھرپور شادی کے لمحات ہوں یا غم و اندوہ میںڈوبے ہوئے وہ لمحے جب والدہ صاحبہ اس دارِ فانی سے چل بسیں۔تُو ہی تو ایک تھا جو اِن مواقع پر اپنا ہونے کا احساس دلاتا رہا۔لوگ اپنے ہوں یا پرائے، اپنی اپنی کسوٹی پر مجھے پرکھتے رہے۔ ایک تُو ہے کہ آج بھی اس طرح کے مواقع پر بِنا رُکے محض میرے لئے ایک وفادار خادم کی طرح اپنے کام میں مصروف ِعمل ہر وقت اپنا ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
مگر اِب گذشتہ کچھ مہینوں سے تیرے کام کی رفتار یعنی دھڑکن میں غیر معمولی اضافہ اور بے قاعدگی آ رہی ہے۔ تیراا دَھک دَھک کرنا اب خطرے کی علامت کیوں محسوس ہو رہاہے۔ کہیںتو نے ساتھ چھوڑنے کا ارادہ تو نہیں باندھا ہے؟
مجھے یہ احساس ہے کہ تو بھی میری طرح تھک چکا ہے۔میں تیرا احسان مند ہوں اور اس بات کی بھی قدر کرتا ہوں کہ تو بھی میری وجہ سے پریشان ہے۔ مگر میں خود مجبور ہوں۔ تجھے کیا کہوں؟ تجھے تو سب کچھ معلوم ہے۔ میری لاچارگی کو سمجھو۔
جہاں تو نے آج تک میرا ساتھ دیا ہے۔ تھوڑی دیر اور سہی۔میری آخری گذارش ہے کہ ساتھ چھوڑنے سے پہلے مجھے مطلع کر دینا تا کہ میں بھی دنیا کو چھوڑنے کی تیاری کر لوں۔ کیوں کہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے کچھ بوجھ اتارا جاتا ہے‘‘۔
موبائل نمبر؛8825051001