Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

دردِ دل کے واسطے

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 3, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
23 Min Read
SHARE
فرشتہ کو بہت پہلے بچپن میں رشتوں کی چاہت، محبت، الفت، رفاقت اور ہمدردی سمجھ بھی آئی تھی اور نظر بھی آئی تھی جب اس نے اپنے ماں باپ کو بیگانہ بنتے دیکھا۔ اس کے ماں باپ جاہل، غیر ذمہ دار، نا سمجھ اور چڑچڑے تھے۔ ایک دوسرے کے دل میں جگہ نہ بنا پائے تو الگ الگ ہوئے۔ انہیں فرشتہ کی ولادت سے کوئی فرق نہ پڑا۔معصوم فرشتہ بے رحم حالات کا شکار ہو گئی۔
یہ فرشتہ کی خوش نصیبی تھی کہ خالہ نے اسے گود لے کر رشتوں کے احساس اور جذبے کو برقرار رکھا۔ اسے فرشتہ شروع سے ہی بے حد عزیز تھی۔ خالہ بیوہ اوربے اولاد تھی لیکن آسودہ حال اور دل کی وسیع خاتون تھی۔ خالہ بھرپور توجہ اور محبت سے فرشتہ کی پرورش کے ساتھ ساتھ اس کے تعلیمی اخراجات بھی پورے کرتی رہی۔فرشتہ ذہین اور تابعدار بچی تھی۔ ذہین بچوں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ لہٰذا فرشتہ کی تعلیمی کارکردگی قابل تعریف تھی۔ اس نے امتیازی نمبر حاصل کرکے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ ٹریننگ مکمل ہوئی تو اس کی پوسٹنگ شہر کے ایک مشہور سول ہسپتال میں ہوگئی۔
فرشتہ کئی سالوں سے اس ہسپتال میں تعینات تھی۔ پُراعتماد، خدا ترس اور ملنسار لڑکی تو پہلے سے تھی لیکن اب ہمدردی، خلوص اور ذمہ داری اس کا پیشہ بن گیا۔
اپنا محاسبہ کیے بغیر کچھ لوگ ڈاکٹروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا دل ہر جذبے اور ہر احساس سے خالی ہوتا ہے اور ان کے پاس فرصت کے لمحات کم ہی میسر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ڈاکٹروں کو نوٹ چھاپنے کی مشین بھی کہتے ہیں لیکن اکثر لوگ ڈاکٹر کو مسیحا کا درجہ دیتے ہیں۔
اس مختصر سی زندگی میں فرشتہ کا بیماریوں، حادثوں،زندگی،موت،ہمدردی، خلوص اور انسانیت سے بھرپور تعارف ہوا۔ اس نے زندگی اور موت کو قریب سے دیکھا۔ معجزے بھی دیکھے اور دعاؤں کا اثر بھی دیکھ لیا۔
 اپنے ماں باپ کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی لڑکی فرشتہ کا دل رحم سے لبریز تھا۔ اس کی اپنی الجھنیں تھیں، اپنے مسئلے تھے۔ اس کے باوجود علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ وہ مریضوں سے بہتر سے بہترین انداز میں پیش آتی تھی۔ مصروف ترین زندگی ہونے کے باوجود وہ غریب مفلس اور نادار مریضوں کی ہمدردی کرتی رہی۔ ان کے قریب رہ کر اس کے دل کو سکون ملتا تھا۔ وہ دھن دولت کی پُجارن نہ تھی بلکہ ایک مخلص انسان تھی۔ وہ اپنی خوبیوں اور نیک طبیعت کی وجہ سے پورے ہسپتال میں ایک رحم دل شہزادی کی طرح مشہور ہو گئی۔
اپنے ہسپتال میں فرشتہ کا تعارف ایک ایسے نوجوان مریض سے ہوا جو آنکھیں موندے بستر مرگ پر اپنی سانسیں گن رہا تھا۔ اس کے بدن پر بے شمار چھوٹے بڑے رِستے زخموں کے علاوہ بے شمار ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ پہلی نظر میں گمان ہوتا تھا کہ شاید مر گیا ہے۔ اس کے بدن کی تباہ کن حالت دیکھ کر فرشتہ کو اس کی تیمارداری میں مصروف اس کی بیوی کے ساتھ دلی ہمدردی ہوئی۔ اپنے شوہر اور پانچ سالہ بیٹے کے سوا حیا کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ فیض اپنی امی کے ساتھ سہما سہما رہتا تھا۔ بغیر کسی رشتہ کے ایک انجانا سا احساس تھا۔ شاید اسی لئے فرشتہ حیا کے ساتھ ایک مہربان سایہ کی طرح رہنے لگی۔ ادویات لانی ہوں، ٹیسٹ کرانا ہو یا ان کی رپورٹ لانی ہو یا کوئی اور ضرورت،فرشتہ ان کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتی تھی۔ ڈیوٹی پر آتے وقت فرشتہ ہمیشہ فیض کے لئے اپنی جیب میں کبھی ٹافی کبھی بسکٹ کبھی چاکلیٹ توکبھی جام کے پیکٹ لاتی تھی۔
حیاکا بزرگ سسرعلی محمد اہل ہنر تھاجو کسی زمانے میں اپنے باپ دادا کے ساتھ کسی گاؤں سے روزی روٹی کی تلاش میں شہر آیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں لکڑی تراشنے اور اس میں جان ڈالنے کا ہنر تھا۔ بچپن سے شہر کے ایک مشہور کارخانے میں معمولی اجرت پر کام کرتا تھا۔ رب کائنات نے اکلوتی اولاد سے نوازا تھا۔ آصف علی صرف چار سال کا تھا جب ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ علی محمد نے اپنے بیٹے کو آٹھویں درجے تک پڑھایا پھر اسکول سے اٹھا کر سیدھے اپنے ساتھ کارخانے میں کام پر لگایا۔رفتہ رفتہ آصف علی بھی لکڑی تراشنے میں ماہر ہو گیا۔مختصر سا گھر تھا۔قلیل آمدنی تھی ۔مشکلات کا سامنا کرتے کرتے باپ بیٹا خود داری اور سادگی کی زندگی جی رہے تھے۔
آصف علی نے جوانی میں قدم رکھا تو علی محمد نے اس کا عقد حیا سے کر دیا۔ حیا یتیم خانے میں پلی بڑھی ایک با حیا اور صابر لڑکی تھی۔ حیا نے گھر میں قدم رکھا تو گھر میں جیسے ہر طرف بہاروں نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی اتنی خوبصورت بھی ہوتی ہے۔ حیا محبت کرنے والی بیوی اور خیال رکھنے والی بہو ثابت ہوئی۔کچھ عرصہ بعد آصف علی اور حیا کے گلشنِ حیات میں ایک ننھا پھول کھلا۔ فیض کی ولادت سے علی محمد کے گھر کی خاموشی رخصت ہو گئی۔ انکی بے رونق زندگی کو ایک نیا مقصد مل گیا اور وہ لاڑلے فیض کے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے لگے۔ اب وہ زندگی کی نئی شاہ راہ پر گامزن ہو گئے۔ وہ دن رات سخت محنت کرنے لگے۔ نہ جانے ہنستے بستے اور پر سکون  شہر کو کس کی نظر لگ گئی۔ مشکل دنوں اور بے  چین راتوں کا آغاز ہوا۔ سرکار نے شہر میں سڑکوں کو وسعت دینے کے لیے سڑکوں کے دونوں اطراف تعمیرات ہٹانے کا حکم جاری کر دیا۔ پورے شہر میں بے چینی پھیل گئی۔ اکثر لوگوں کو بےروزگاری کا اندیشہ تھا اور بہت سارے لوگ بے گھر ہونے والے تھے۔ اس زد میں علی محمد اور اس کے بیٹے کے مالک کا کارخانہ بھی آیا۔ شہر میں بیچینی پھیلتے ہی دکانوں کے شٹر گر گئے۔ کارخانے بند ہوئے۔ ہر روز ہرتال اور احتجاجی مظاہروں پر لاٹھی چارج کے بعد کرفیو۔
نامساعد حالات نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جانے سڑکوں کو وسعت دینا لوگوں کی خوش قسمتی تھی یا بد قسمتی۔ پورے شہر کو ہڑتال اور کرفیو کا روگ لگ گیا۔ کرفیو ہو یا ہڑتال عام انسان کے لئے ہزاروں دکھ اور مصیبتیں ساتھ لاتا ہے۔ عام انسان اور مزدور پیشہ شخص بیروزگاری کا شکار ہوتے گئے۔ بیروزگاری انسان کو بڑی بڑی آزمائشوں میں مبتلا کرتی ہے۔ بیروزگاری بڑے بڑے دکھوں اور مسائل کو جنم دیتی ہے۔
ہاتھ تنگ  ہونے کے باوجود علی محمد کی ایک مخصوص عادت تھی کہ وہ گھر میں کئی کئی مہینوں کے لئے راشن جمع رکھتا تھا۔ حالات روز بروز خراب ہوتے گئے۔ بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ کچھ عرصہ تو آرام سے گزرا۔ مگرگھر میں جتنا راشن، رزق یا نقد پیسہ موجود تھا، آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ ننھا مہمان ابھی صرف ماں کا دودھ پی رہا تھا اور ماشااللہ تندرست بھی تھا ورنہ پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ علی محمد کے کارخانے کے مالک نے حالات خراب ہوتے ہی تمام کاریگروں کو بلا کر ان کا حساب بے باق کر کے اپنا کار خانہ بند کردیا اور خود کہیں باہر چلا گیا۔ علی محمد کو جو ایک مدہم سی امید تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ناامید ہوتے ہی علی محمد اپنے اندر کمزوری محسوس کرنے لگا۔ غمِ روزگار،فکر فاقہ اور وقت پر دوا اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے علی محمد اندر ہی اندر سے ٹوٹ کر بستر نشین ہو گیا۔ کئی لوگوں کے پاس گھروں میں اپنی تجوریاں مال سے بھری پڑی تھیں۔اس کے علاوہ لوگوں کے پاس بنکوں میں لاکھوں کی رقم موجود تھی۔ لیکن خود داری سے جینے والے علی محمد اور اس کے بیٹے نے کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اس دنیا میں ہر آسودہ حال انسان اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ آس پڑوس میں رہنے والے کسی سفید پوش محتاج پر نظر رکھ کر وقت وقت پر اس کی حاجت روائی کر کے اللہ کی رحمت کا حصہ دار بن کر اپنے لئے جنت کما سکتا ہے۔
اپنے دکھوں اور تکلیفوں کو چھپاکر علی محمد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اب اس شہر بے درد سے کہیں اور چلا جائے۔یہ دنیا بہت بڑی ہے، تمہیں کہیں نہ کہیں روزگار ملے گا۔ محنت کی روٹی کما کر اپنے اہل وعیال کو کھلانا۔ اس میں سکون اور بڑی برکت ہوتی ہے۔ حالات سدھرتے ہی گھر لوٹ آنا۔ انشاء اللہ اچھا وقت بھی ضرور آئے گا۔ اپنے بیٹے کو امید کے چراغ تھماتے تھماتے  اور دعا دیتے دیتے ناتواں اور بے بس علی محمد مزید دکھوں اور تکلیفوں کو جھیل نہ پایا۔
بزرگ والد کا سایہ سر سے اٹھتے ہی پریشانی اور بدحالی میں مزید اضافہ ہوا آصف علی کا دل اپنا گھر اپنا شہر چھوڑ نے کے لئے راضی نہ تھا کیونکہ اس کو اپنے گھر سے، اپنے شہر سے، اس کی گلیوں سے بے پناہ محبت تھی۔ بے شمار یادیں وابستہ تھیں سے ایک ساتھ۔ انتہائی مجبور ہو کر ایک دن اپنے گھر کو تالا لگا کر اپنی جان اور اپنے اہل عیال کی جان ہتھیلی پر رکھ کر شہر سے دور بہت دور یمبرزل وادی کے ایک سرسبز علاقے میں پہنچ گیا۔ خوبصورت جنگل کے دامن میں آباد علاقہ، اس دور دور تک ہریالی پھیلی ہوئی تھی ۔ صاف وشفاف ندیاں زرخیز زمین کو سیراب کررہی تھیں اور ہر گھر میں موجود مال مویشی موجود تھے جن کی بدولت گھروں میں دودھ کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے پھل پیدا کرنے والے تھے۔بڑے بڑے بے شمار باغات جن کی بدولت یہاں کی اکثر آبادی آسودہ حال بے فکری کی زندگی بسر کررہی تھی۔مکانات بھی پکے اور بہترین، جن میں گزر بسر کرنے والے دیندار اور اچھے لوگ، جیسے جنت کا نظارہ تھا۔ یہاں پہنچ کر آصف علی کی ملاقات سید صاحب سےہوئی۔ جو اس آسودہ  حال علاقے کے ایک بہترین انسان اور کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ کئی باغ بغیچوں کے مالک تھے۔ آصف علی کے حالات سے واقف ہو کر انہوں نے اس کو اپنے یہاں ملازم رکھا۔ تنخواہ مناسب مقرر کر کے سب سے پہلے اسے رہنے کے لئے گھر فراہم کیا۔ اس کے علاوہ دودھ ،سبزی اور چاول بھی سید صاحب کی طرف سے آنے لگے۔آصف علی نیک نیتی اور ایمانداری سے سید صاحب کے کاروبار کی رکھوالی کرنے لگا۔ دلکش اور پرکشش نظاروں کے بیچ ان کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ موسم بھی بدلتے رہے اور وقت اچھا گزرنے لگا۔
ہر سماج میں اچھے لوگوں کے ساتھ بُرے لوگ بھی ہوتے ہیں اور مال و زر کے لالچ میں کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں۔کچھ خود غرض اور غیر ذمہ داروں لوگوں کی مہربانی سے جنگلوں کا بے تحاشہ کٹاوہوا تھا اور اس سے ماحول کو جو نقصان پہنچا، اس کا خمیازہ عالمی سطح پر انسانیت کوتا دور قیامت بھگتنا ہے۔
ایک انتہائی بد نصیب صبح آصف علی ناشتہ سے فارغ ہوتے ہی سائیکل پر سوار ہوکر باغ کی طرف روانہ ہوا۔ جوں ہی وہ باغ کے اندر داخل ہوا تو گھات لگائے بیٹھے ایک آوارہ بھوکے درندے نے اس پر حملہ کیا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر جب تک لوگ اس کو بچانے پہنچ گئے تب تک اس کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔بس سانسیں چل رہی تھیں۔ فوری طور پر اسے شہر پہنچایا گیا۔ یہاں اسے کئی جراحیوں سے گزرنا پڑا۔ خون بھی کافی بہہ چکاتھا۔ یہاں پر مختصر تعارف ہوتے ہی فرشتہ ان کی مدد کرنے لگی۔سید صاحب نے بھی بھرپور مدد کی۔فلاحی ادارے بھی سامنے آئے مگر آصف علی صحت یاب نہ ہو سکا بلکہ انفیکشن روز بروز اس کے جسم کے اندر پھیلتا گیا۔وقت دھیمی رفتار سے گزارنے لگا۔ ساتھ ساتھ مہنگی دوائیوں کی فہرست بھی بڑھتی گئی۔ مدد کرنے والوں نے آہستہ آہستہ ہاتھ کھینچنے شروع کردیئے۔حیا بےیار و مددگار رہ گئی۔  انتہائی مجبور ہوکر اس نے اپنے شریک حیات کی سانسیں خریدنے کے لیے اپنے آشیانے کا سودا کیا۔ وہ دوائیاں خریدتی رہی، لیکن آصف کی حالت دن بہ دن بگڑتی رہی۔ اس کے پاس موجودہ رقم بھی ختم ہونے لگی لیکن آصف علی ذرا بھی شفا یاب نہ ہوا۔ شاید دعا اور دوا دونوں بے اثر ہو چکے تھے۔
آج صبح فرشتہ ڈیوٹی پر پہنچی تووارڑ میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر آصف کے خالی بیڈ پر پڑھتے ہی وہ دنگ رہ گئی۔ اسے معلوم ہوا کہ کل رات ہی کو آصف زندگی کی جنگ ہار گیا اور طویل اور اذیت ناک آزمائش سے گزرنے والی حیا اپنے شوہر کے بے جان جسم کو لے کر صبح سویرے جاچکی ہے۔ کس طرف گئی اور کدھر گئی، کسی کو معلوم نہیں۔ کچھ دیر فرشتہ مجسمے کی طرح وہیں کھڑی رہی، پھر بجھے بجھے دل کے ساتھ  دن بھر اپنا فرض نبھا تی رہی۔ بہت سارے دن یوں ہی گزر گئے جیسے صدیاں بیت گئیں لیکن فرشتہ کو حیا کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلی۔
آج شام پانچ بجے فرشتہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر ہسپتال کی عمارت سے باہر نکلی تو ہاتھ میں اسٹیسکوپ  اور  بازو پر اپنا ایپرن اور پرس سنبھالے ہوئے مین گیٹ کے نزدیک پہنچی تو لوگوں کی بھیڑ میں کسی بچے نے پیچھے سے آواز دی: ڈاکٹر دیدی ڈاکٹر دیدی۔ فرشتہ نے مڑ کر دیکھا سامنے فیض کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ سکے اوردس روپےکا نوٹ تھا۔ حالات کے ارے اس ننھے شہزادہ کی حالت قابل رحم تھی اور اس کے معصوم سراپا سے بیچارگی عیاں تھی، جیسے اپنا بچپن کہیں گروی  رکھ کے آیا ہو۔فرشتہ نے اس کو دیکھتے ہی پوچھا امی کہاں ہے۔ فیض نے دیوار کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ فرشتہ اس کی انگلی پکڑ کے تیز تیز قدم اٹھا کر حیا کے پاس پہنچ گئی۔
حیا نے اپنے وجود کو سیاہ برقع میں سمیٹ لیا تھا اور اس کو دیکھ کر اس نے اپنا نقاب اٹھایا۔ فرشتہ حیا کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔فیض بھی اپنی امی کے بغل میں چپک کر بیٹھ گیا۔ 
فرشتہ نے حیا سے پوچھا اتنے دنوں سے کہاں رہ رہے ہیں آپ لوگ۔ خاموشی سے آنسو بہاتے بہاتے نہ جانے کتنے پل یوں ہی گزر گئے۔پھر حیا نے اپنے آپ کو سنبھالا اور تفصیل سے اپنی داستان سنانے لگی۔مجھے معلوم ہے کہ میرے اوپر یہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہے۔ وہ میرے لئے قیامت کا دن تھا جب میں  آصف کے بے جان جسم کو لے کر اپنے پرانے محلے میں گئی۔ محلے والوں نے اس کو غسل دیا،دفنایا، تعزیت کو آئے ہوئے لوگوں کے لیے ٹھہرنے کا انتظام کیا، ہم ماں بیٹے کو کھلایا پلایا۔ ہمارا خیال رکھا، ڈھارس بندھائی لیکن جس گھر میں ہمیں ٹھہرایا گیا اس گھر کا مالک چرب زبان تھا۔ حقیقت میں نہایت ہی گھٹیا قسم کا شخص تھا۔ مشکل سے اپنا دامن بچا کر وہاں سے نکل کرآئی ہوں۔ ایک عورت کتنی باکردار اور بہادر کیوں نہ ہو، ایک مرد کے سائے کےبغیر بے وقعت اور کمزور ہوتی ہے۔مجھ جیسی بے بس عورت جس کا کوئی اپنا نہیں، کوئی ٹھکانا نہیں، وہاں سے نکل کر کہاں جاتی۔ کہاں اپنا پڑاؤ ڈال سکتی تھی۔ لیکن مشکل کو آسان کرنے والا سب کو راہ دکھانے والا پروردگار ہے۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ جب میں وہاں سے نکلی تو میرے دل میں اس گھر کا خیال آیا، جو کسی کی جاگیر نہیں۔ جہاں کبھی روشنی گل نہیں ہوتی۔ جس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ جہاں آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں۔جہاں کوئی ڈر نہیں۔اس گھر کی کوئی بھی گلی، کوئی بھی گوشہ مجھ جیسی عورت کو رات گزارنے کے لیے کافی بھی ہے اور محفوظ بھی۔ میں جانتی ہوں کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا کوئی اچھا اور آسان کام نہیں۔ لیکن میں بہت مجبور ہوں۔ میرے ہاتھوں میں کوئی ہنر بھی نہیں ہے۔ اب لوگوں کی ہمدردی سے ڈر لگتا ہے۔ کہیں کوئی ہمدردی کے بدلے سودا بازی پر اتر نہ آئے۔ اس لئے میں نے فیض کے ساتھ طے کیا کہ ہم یہ مشکل وقت اس گھر کے آنگن میں گزاریں گے۔ جب تک وہ چارہ گر ہمارا کوئی چارہ نہ کرے تب تک یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ حیا اس کے آگے کچھ بول نہ پائی۔ وہ بالکل مایوس نہ تھی۔نہ مقدر سے شکایت تھی نہ تقدید لکھنے والے سے۔
 دکھ بھری داستان سن کر فرشتہ کے دل پر کیا گزری ہے وہ جانتی تھی۔ کچھ کہنے یا دلاسہ  دینے کے لیے اس کے پاس الفاظ نہ تھے۔ اس نے اپنے پرس سے پانی کی بوتل نکالی۔  اور حیا کو پانی پلایا کچھ رقم ہاتھ پر رکھ کر گیٹ سے باہر نکلی۔فرشتہ خود معصوم تھی، جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی۔ جیسے تیسےگھر پہنچ گئی۔کھانا بھی نہیں کھایا۔ بستر پر دراز ہوئی، کروٹ بدلنے لگی، سوچنے لگی کی یہ بات طے ہےمیں کسی صورت میں حیا اور فیض کو نظر انداز تو نہیں کرسکتی ہوں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے لگی کہ کیا  چار دن کی زندگانی کا مقصد صرف سیر و تفریح، فضول خرچی، لذیذ پکوان، بڑے بڑے موبائل فون، مہنگے مہنگے کپڑے، رنگ برنگےجوتے، زیورات کی نمائش، رنگ برنگی لمبی لمبی گاڑیاںبدلنا، خودساختہ رسم ورواج کی پیروی کرنا یا چار سالہ عمر سے ہی بیٹی کے لئے جہیز جمع کرنا ہے یا زندگی کا اور بھی کوئی مقصد ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود فرشتہ ایک سادہ مزاج  لڑکی تھی۔ اسے نہ دولت جمع کرنے کا لالچ تھا نہ اپنا نام کمانے کی خواہش۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کر کے مستحق لوگوں کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ سوچتےسوچتے رات گزر گئی۔ آخر فرشتہ نے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی تو دل کے اندر سے آواز آئی:اٹھ فرشتہ یہ سونے کا وقت نہیں۔اٹھ جا کر حیا اور فیض کا ہاتھ تھام لے۔ انہیں یقین دلاکہ تو ہمیشہ ان کے ساتھ ہے۔ انہیں سماج کے لئے قابل فخر بنا۔ انہیں زندگی کی نئی اور روشن راہیںدکھا۔ یہ تمہارا اخلاقی فرض ہے۔ فرشتہ نے اپنی بھیگی آنکھیں کھولیں، آنسو اس کی آنکھوں میں ٹھہر چکے تھے۔ فجر کی نماز ادا کی، ہلکا پھلکا ناشتہ کیا، ہسپتال فون کر کے ایک ہفتے کے لیے چھٹی لے لی۔ نیک ارادے کے ساتھ اپنے ہی ہسپتال کے گراؤنڈ میں پہنچی۔ سامنے کھڑا فیض مسکرا رہا تھا۔ جیسے اسی کا انتظار کررہا ہو۔ آج وہ بہت ہی مطمئن تھی۔ آگے بڑھ کر فیض کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کو اپنے بازو کے حصار میں لے کر اپنے سینے سے لگایا۔ 
 
���
پہلگام، اننت ناگ
رابطہ؛: 9419038028، 8713892806
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?