میر شوکت
جموں و کشمیر — وہ زمین جس پر فطرت نے رنگوں کے سب چراغ روشن کئے۔ برف سے لپٹے پہاڑ، نیلی جھیلیں اور چنار کے درخت جو خزاں میں جلتے ہوئے دِیے لگتے ہیں۔ انہی پہاڑوں میں ایک ایسی روایت نے جنم لیا، جس نے موسموں، تاریخ اور سیاست کو ایک ہی دھاگے میں باندھ دیا — دربارِ موؤ۔
اس روایت کی جڑیں جہانگیر کے زمانے میں ہیں، جب وہ دہلی کی گرمی سے تنگ آ کر کشمیر کی وادی میں آتے، شالیمار کے کنارے بیٹھ کر سلطنت کے فیصلے کرتے۔ بادشاہ کے خیمے پانی پر لہراتے، قلم چلتا تو لہریں تھرتھراتیں۔ وہی احساس بعد میں ایک مستقل انتظامی روایت میں ڈھل گیا۔1872ء میں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اسے ریاستی ضابطہ بنا دیا۔ سردیوں میں دربار جموں جاتا، گرمیوں میں سری نگر۔ یہ صرف دفاتر کی منتقلی نہ تھی بلکہ ایک جغرافیائی بصیرت تھی — جہاں موسموں کا توازن حکومت کا حصہ بن گیا۔ہر سال اپریل کے اختتام پر جموں کی گلیوں میں ایک خاص شور اٹھتا۔ ٹرکوں کی قطاریں، دھول اڑاتی سڑکیں اور فائلوں سے بھرے بکس۔ عورتیں بچوں کے ہاتھ تھامے، مرد قالین لپیٹےاور ملازمین کے چہروں پر ایک ہی جملہ:’’صاحب، موؤ الاؤنس تو مل گیا، مگر تنخواہ کہاں گئی؟‘‘یہ قافلہ NH-44 کے موڑ موڑ پر ایک زندہ داستان بنتا۔ اُدھم پور کے پہاڑوں سے گزرتا، رام بن کے کھیتوں کو چھوتااور بانہال کی برفانی فضا میں داخل ہوتا۔ جب یہ قافلہ جموں کی سمت بڑھتا تو وہاں کی ہوا میں ایک خاص تقدیس ہوتی — جیسے فطرت خود اس ہجرت کی محافظ ہو۔
یہ صرف ایک سفر نہیں بلکہ ریاست کی اجتماعی روح کی تجدید تھی۔ ٹرکوں میں لدی فائلیں دراصل تاریخ کے سانس لیتے صفحات تھیں۔ ایک ڈرائیور نے کبھی کہا تھا:’’یہ بکس ہم سے زیادہ بزرگ ہیں، مگر وزن آج بھی ہمارا ہی اٹھاتے ہیں!‘‘
پھر وادی میں دربار کھلتا۔ مئی کی پہلی پیر کو جب سیکریٹریٹ کے دروازے کھلتے تو چنار کے درختوں پر پھول لگتے۔ جھیل ڈل کی لہریں چہک اٹھتیں، جیسے کہہ رہی ہوں:’’سلطنت پھر سانس لینے لگی ہے!‘‘
دفاتر میں ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک اور باہر لہروں کا شور ایک ہی دھن میں بجتا۔ بازاروں میں شال بافوں کے ہتھوڑے چلتے، زنانہ بازار میں گلاب کی خوشبو بکھرتی اور وادی میں زندگی اپنی پوری نرمی کے ساتھ لوٹ آتی۔پھر تقسیمِ ہند کا طوفان آیا، مگر دربار موؤ قائم رہا۔ بندوقوں کے شور میں بھی قافلے چلتے رہے۔ 1952ء میں شیخ عبداللہ نے اسے ’’علاقائی توازن کی علامت‘‘ کہا، مگر ان کی برطرفی کے بعد یہ توازن بکھرنے لگا۔ سری نگر میں خاموشی، جموں میں بےچینی — مگر روایت سانس لیتی رہی۔1987ء میں جب حکومت نے اخراجات کے بوجھ سے تنگ آ کر روایت ختم کرنے کی کوشش کی، تو جموں نے بغاوت کر دی۔ بائیس دن کی ہڑتال ہوئی، نعرے گونجے:’’دربار موؤ زندہ باد!‘‘اور دربار مو ہونے لگا۔چائے خانوں میں قہقہے بکھرنے لگے۔ کسی نے کہا:’’ہم منتقل نہیں ہو رہے، تاریخ خود ہمیں اٹھا رہی ہے!‘‘روایت بچ گئی، مگر اس کے قدموں میں اب عمر کی تھکن آ گئی تھی۔2019ء میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مرکز نے اسے’’غیر ضروری‘‘ قرار دے کر روک دیا۔ جموں کے تاجروں نے خوشی منائی، مگر وادی کی فضا جیسے ساکت ہو گئی۔ ہاؤس بوٹس سنسان، جھیلیں خاموش، اور فائلیں دھول میں سو گئیں۔ ایک سوال فضا میں معلق رہا:’’کیا دربار رک گیا، یا موسم کی روح مر گئی؟‘‘2020ء میں عدالت نے کہا:’’یہ روایت غیر عملی ہے۔‘‘اور 2021ء میں اس کا رسمی خاتمہ ہو گیا۔پہاڑوں نے سانس روکی، جھیلوں نے لہریں تھام لیں، مگر روایتیں فیصلوں سے نہیں مرتیں۔
2024ء کے انتخابی جلسوں میں وعدہ ہوا:’’موؤ واپس آئے گا!‘‘اور اب وہ وعدہ پورا ہونے کےاحکامات جاری ہو گئےاور 2025ء کی خزاں میں جب قافلہ دوبارہ جموں کی سمت بڑھے گا تو سڑکوں پر رونق لوٹ آئے گی۔ ٹرکوں کی قطاریں، پولیس اسکواڈ اور عوام کے چہروں پر وہی پرانی چمک۔ چائے خانوں میں ہنسی کے ساتھ طنز بھی سنائی دے گا:’’موؤ الاؤنس تو دلوں میں ہمیشہ لگا رہتا ہے!‘‘بانہال ٹنل سے گزرتے وقت قافلہ سوچے گا:’’اب دربار روشنی میں موؤ کرتا ہے، اندھیرے میں نہیں!‘‘
دربارِ موؤ اب محض انتظامی نقل مکانی نہیں بلکہ ایک روحانی سفر ہے۔ اس نے ریاست کو جغرافیے سے زیادہ جذبات میں باندھا۔ جموں کے آم اور سری نگر کے سیب ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے — یہی تو اصل سیاست ہے: جہاں تدبیر حکومت کرتی ہے، مگر محبت وحدت بناتی ہے۔
چائے خانوں میں لوگ ہنسیں گے:’’دو سو کروڑ خرچ اور فائل پھر بھی وہیں کی وہیں!‘‘مگر طنز کے پیچھے بھی مان چھپا ہے، کیونکہ یہ روایت دلوں کو جوڑتی ہے۔
جب قافلہ رات کے اندھیرے میں پہاڑوں کے بیچ گم ہوتا ہے تو ٹرکوں کی روشنیاں چٹانوں پر رقص کرتی ہیں۔ آسمان پر ستارے چمکتے ہیں، جیسے فائلوں پر دستخط۔ وادی کی جھیلوں میں ان روشنیوں کے عکس اترتے ہیں اور لگتا ہے تاریخ خود اپنے چہرے کو دیکھ رہی ہے۔
یہ روایت جہانگیر کی خوشبو سے نکلی، رنبیر سنگھ کے فرمان میں ڈھلی، شیخ عبداللہ کے خوابوں سے گزری، عدالت کے فیصلوں سے ٹکرائی، مگر عوام کی محبت سے زندہ رہی۔
آج جب خزاں کی ہوا چنار کے پتوں کو ہلاتی ہے تو سری نگر کے درخت سرگوشی کرتے ہیں:’’اب دربار جا رہا ہے۔۔۔‘‘اور جموں کے میدانوں سے جواب آتا ہے:
’’زندگی لوٹ رہی ہے۔۔۔‘‘
یوں ہر سال یہ سفر دراصل ایک نظم بن جاتا ہے —،جہاں ہر موڑ پر ایک مصرع، ہر وادی میں ایک شعر،اور ہر ملازم کی آنکھ میں ایک یاد۔دربار موؤ اب صرف تاریخ نہیں،
یہ زمین کی سانس، موسم کی دعا،اور ریاست کی دھڑکن ہے —،جو ہر خزاں میں کہتی ہے:’’موؤ، موؤ، دربارِ موؤ — دل سے دل تک کا سفرِ نو!‘‘