سری نگر میں 6ماہ تک نظم ونسق کی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد اب دربا ر مو حسب ِدستور سرکاری دفاتراب جموں کو منتقل ہوا چاہتے ہیں۔ دربار موریاست میں ہر سال دارالحکومت کی ادلا بدلی کی ایک نرالی روایت ہے ۔ دربار منتقلی کی یہ روایت ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1872 میں ایک شاہی فرمان کے تحت جاری کی۔ آج ہمارے یہاں اگرچہ ماضی کی روایات بتمام وکمال قصہ ٔ پارینہ ہو چکی ہیں مگر مہاراجہ کا یہ حکم نامہ من وعن تروتازہ ہے اوراس کے عین مطابق ہر سال سول سیکرٹریٹ گرمیوں میں چھ ماہ تک سرینگر میں سر گرم رہتا ہے اور سر دیوں میں اس کی سر گرمیوں کا محور جموں منتقل ہو تا ہے۔ دربار منتقلی کی یہ عجیب وغریب روایت ملک میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ اس حکم نامے پر مستقل عمل درآمد سے ریاست میں کئی ایک پیچیدہ مسائل کو جنم ہی نہیں ملاہے بلکہ اس سے صوبہ پرستانہ سیاست بھی پر وان چڑھتی جارہی ہے ۔ آج کی تاریخ میںدربار مو کے آنے جانے پر سرکاری خزانے کا غیر معمولی سرمایہ خرچ ہوتا اورآمدورفت میں جو وقت صرف ہوتا ہے، وہ ایک الگ رونا ہے۔سرینگر سے جموں اور جموں سے سرینگر دربار مو کی یہ تاریخ اب تک اپنے 146برس مکمل کر چکی ہے اور وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ابھی یہ سلسلہ ہماری اور کتنی دُہائیاں اچک لے گا۔ عام طور پر دربارمنتقلی کا یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچاننے کے لئے ہر برس سیکرٹریٹ کو تقریباً16دنوں تک مجبوراً بند رکھنا پڑ تا ہے اور اگر ان ایام کارکا حساب کیا جائے تو ریکارڈ کے مطابق سر کاری تعطیل کے علاوہ اب تک جموں و کشمیر کی تاریخ میں2400 سے زائددن ایسے گذ رے ہیں جب سیکر ٹر یٹ سال میں دوبار انتقالِ دربار کے کوئی سبب کام کاج نہیں کر سکا ہے۔ 1947میں جب ہندستان انگر یز کے تسلط و حکمرانی سے آزاد ہوا تو کشمیر میں بھی شخصی راج کا خاتمہ ہوا اور ایک نیا سیاسی نظام معرض ِ وجود میں آیا ۔ اس کے زیر سایہ ہر چیز میں تبدیلی واقع ہوئی اور نظم مملکت کے قواعدو ضوابط میں ردوبدل ہوا لیکن اگر کچھ نہ بدلا توہ سیکریٹر یٹ کی شش ماہی منتقلی جو آج بھی شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ ا س کے پیچھے کیا سیاسی سوچ اورا نتظامی مصلحت کارفرماہے ،اس سے قطع نظر1987 میں سابق وزیر اعظم ہند راجیو گاندھی اور اُن کے سیاسی حلیف نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے اعلان کیا تھا کہ اب دربار مو نہیں ہوگامگر جموں کی مقتدر سیاسی قو توں کے آگے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہی نہ رہا۔ حق یہ ہے کہ شیخ محمد عبداللہ نے جب 1947 کے بعد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالاتو وہ بھی دربارکی شش ماہی منتقلی کو منسوخ نہ کر پائے حالانکہ اُن ایام میں ان کا خاصا سیاسی دبدبہ تھا اور حکومت ہند میں ان کی خوب چلتی تھی۔ریاست میں 1947میں شخصی راج کا خاتمہ ہوگیا لیکن دربارمو کی صورت میں اس دور ازکار نظام کی ایک جھلک موجودہ نسل تک صرف اسی ایک دربار مو کی شکل میں موجود ہے ۔ نظری طور پرجمہوری نظام میں حکومت اور حکام اول وآخر عوام کے خدمت گارہوتے ہیں لیکن دربار مو کے اس بوسیدہ نظام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کا ر پردازان ِسیاست اور افسرشاہی کی آسائشوں کوعوام کی ضروریات پر فوقیت حاصل ہے ۔ ظاہر ہے حکام سرما کے دوران وادی کی یخ بستہ سردی سے بچنے کیلئے جموں منتقل ہوجاتے ہیں اورجموں میں شدید گرما کی بھنک پڑتے ہی بہشت ارضی میںمنتقل ہوجاتے ہیں، گویا جو وقت ان دو صوبوںمیں رہنے والے شہریوں کیلئے موسمی اعتبار سے سب سے مشکل ہوتا ہے، اس میں اُن کے حاکم اور انتظامیہ کے ذمہ داران عام لوگوں کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔اس طرز عمل کو جدید جمہوری نظام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا سمجھا جائے؟ریاست جموں و کشمیر ایک ایسی ریاست ہے جس کے دو دارالحکومتیں ہیں۔ چنانچہ جب ریاستی سرکار ایک جگہ دربار کا پڑاؤ ڈال کر اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لئے پاؤں ہی جماچکی ہوتی ہے کہ موسم کے بدلتے تیوریاں اُسے ہراساں کرکے اپنے سابقہ جائے پناہ کی جانب لوٹنے کی سجھاتی ہیں ۔یوںعوامی مسائل کا پشتارا بغیر کسی نپٹارے کے دھرے کا دھرا رہ جاتاہے ۔ شاید یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ اس طر یق کار سے ایک جانب سرکاری کار کردگی متاثر ہوتی ہے ، ودسری جانب خزانۂ عامرہ پر بھاری بھرکم بوجھ پڑتا ہے اور تیسری جانب ریا ستی عوام خصوصاً وادی کشمیر کے لوگوں کو کافی پریشانیوں اور دقتوںکا سامنا رہتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈوگرہ مہاراجاؤں کے وقت میں شخصی راج کا زمانہ تھا اور حکومت کے بنانے اور مملکتی نظم ونسق چلانے میں عوام کا کوئی رول نہیں ہوتا تھا، اس لئے شخصی راج کے حکمران اپنی کچھ بھی من مانیاں کرسکتے تھے ، خاص کر انہیں عوام کی سہولیات سے کوئی سروکار نہ رہتا تو اس پر عوامی حلقوں میں سے کوئی بھی چیں بہ چیں ہونے کی جرأت نہ کر پاتا تھا۔ مزیدبرآں بیتے دنوں کے راجے مہاراجے ،نواب اورسلطان کے نام سے لوگوں کے سروں پر مسلط حکمران طبقہ زیادہ تر اپنے عیش و عشرت پر ہی دھیان دیتا ، با لفاظ دیگران لوگوں کو عوام کو راحت پہنچاننے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔ ان کا طرززندگی شاہانہ ہوا کرتا تھا اور یہ حکمران عوام کو بجز اپنا زر خرید غلام کچھ اورتصور نہ کرتے تھے۔ شخصی راج کا خاتمہ ہوئے اب خیر سے سات دہائیاں گزر چکی ہیں،لیکن ہماری ریاست میں دربار مو کی روایت آج بھی قائم ودائم کیوں ہے، یہ ایک معمہ ہے۔ آج تک ریاست میں عوامی حکومتیں بر سر اقتدار تھیں یا گورنر راج نافذ تھا ، سارے کے سارے حاکمانِ بالا نے شخصی راج کی اس ریت پر اپنے عیش وآرام کے لئے من وعن عمل درآمد جاری رکھا۔ اصولی طور پر دربار مو کا سلسلہ ٔ طولانی ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنے شاہانہ مزاجی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے شروع کیا تھا۔ ا س کے مقابلے میں عصر رواں میں عوام کو تمام تر انتظامی سہولیات اپنی ہی دہلیز پر میسررکھے جانے کے منصوبے اور اسکیمیں بروئے کار لائی جارہی ہیں تاکہ شہری زندگی میں کوئی اڑچن نہ ہے اور حکام عوام کی خدمت ہمہو قر اور ہمہ تن انداز میں کر نے کے لئے ان کے روبرو حاضر ہوں ۔ فکر وعمل کا یہ جمہوری انداز اس بات کا متقاضی ہے کہ دربار مو کا سائنسی جائزہ لے کر اس کے تسلسل کے وجوب اور عدم وجوب پر ا س نیت سے کھلی بحث کی جائے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ا س دور میں آیااس فرسودہ روایت کا کوئی موثر اور کارکشا متبادل فراہم ہو سکتا ہے۔ ہاں اس متبادل کو وضع کرتے وقت یہ بات بھی یقینی بنانا ہوگی کہ ریاست کے تینوں جغرافیائی خطے وحدت ِ فکر کے سانچے میں ڈھل جائیں ، لوگ باگ باہم دگر گھل مل کر رہیں،اُن کے درمیان دور یاں اور مسافتیں کم ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک مدت سے شدید سردیوں کے پیدا شدہ عوامی مسائل کے فوری حل کے لئے سری نگر میں سرمائی سیکر ٹریٹ کے نام سے نظم و نسق کا ایک نظام چلایا جاتاہے۔اس نظام کو عوام کے لئے سہولت دہندہ اور سائلین کی فریادرسی بنانے کے لئے پیشگی طور گورنر انتظامیہ کو قرارواقعی اقدامات کر نے چاہیے تاکہ یہ محض رسم براری نہیں بلکہ ایک فعال اور کارآمد ادارہ ثابت ہو۔