دراس میں بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے ۔ دراس علاقہ سردی کے لحاظ سے پوری دُنیا میں دوسرے نمبر پہ آتا ہے ۔یہاں ایک ہی فصل ہوتی ہے ،میوہ جات کا نام و نشان نہیں ۔ پُرانے زمانے میں لوگ مال مویشی پال کر گذارہ کیا کرتے تھے ۔ اس لئے ہر گھر میں بھیڑ بکریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوا کرتی تھی ۔ سرکاری نوکری کو کم ہی لوگ پسند کیا کرتے تھے ۔ چند بھیڑ بکریاںبیچ کرسال بھر کا گھریلوخرچہ نکل آتا تھا ۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا رحجان تعلیم کی طرف گیا اور بھیڑ بکریاںپالنے اورمال مویشی رکھنے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ یہ پیشہ آخری سانسیں گن رہاہے۔ اب بس چند بے روزگار اپنی روزی روٹی کے چکر میں بھیڑ بکریاں پالنے کا پیشہ پھر سے زندہ کر رہے ہیں ۔ ایسے میں یہ دوسری مصیبت آن پڑی ہے کہ بھالوؤں کے بار بار حملے سے لوگ مال مویشی رکھنے سے کترا رہے ہیں ۔اسی سال بھالو دراس کے گھروں میں متعدد حملے کر چکا ہے ۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق اب تک 25؍کیس درج ہو چکے ہیں لیکن ایسے کتنے کیسوں کے باو جود محکمہ خاموش بیٹھا ہواہے ۔ پچاس سے زائد بھیڑ بکریاں اسی سال بھالو ؤںکے حملوں سے ہلاک ہو چکی ہیں اور ہلاک ہونے والی گائیوں کی تعداد بیس تک پہنچ چکی ہے ۔ سب سے زیادہ نقصان اُن جوانوںکو ہوا ہے جنہوں نے حکومت سے قرضہ لے کر انگوری بکریوں کا یونٹ قائم کیا تھا۔ یہ بکریاں پشمینہ حاصل کرنے کے لیے پالی جاتی ہیں ۔ ان جوانوں کی شکایت رہتی ہے کہ بھالو ؤںکے بے قابو حملوں سے ان کا نقصان تو ہو ہی جاتا ہے لیکن حکومت کی طرف سے معقول حفاظت فراہم ہوتی ہے نہ کوئی معاوضہ ملتا ہے۔ اگر ہم حکومت کی طرف سے ملنے والے ریلیف کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ ایک بھیڑ ہلاک ہونے پر 750؍روپے ریلیف ملتے ہیں جو دو کلو گوشت کی قیمت سے بھی کم ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ درخواست کنندہ محکمہ مال سے ایک سر ٹیفکیٹ، وٹنری ڈاکٹر سے پوسٹ مارٹم رپورٹ اور محکمہ وائلڈ لایف سے ایک سریٹفکیٹ حاصل کرنے کے بعد معاوضے کے لئے عرضی دائر کر سکتا ہے یعنی متاثرہ چوپان کو سات سو پچاس حاصل کرنے کے لیے ہزار خرچنا پڑے گا ۔ اسی طرح بھالوؤں کے حملے سے ایک گدھے کے ہلاک ہونے پر 2000 روپے ، گائے کے ہلاک ہونے پر پانچ ہزار روپے اور گھوڑے کے ہلاک ہونے پر 5000روپے بطور ریلیف ادا کیے جاتے ہیں ، جب کہ میمنا ہلاک ہونے پر 375روپے ، گدھے کا بچھڑا ہلاک ہونے پر ایک ہزار ، گھوڑے کا بچھڑا ہلاک ہونے پر مبلغ 2500روپے بطور معاوضہ دئے جاتے ہیں ۔ وائلڈ لائف محکمے کا کہنا ہے کہ یہ رقم بطور ریلیف دی جاتی ہے معاوضہ نہیں۔ کسی بھالو نے مرغیوں کے ڈربے کا صفا یا ہی کر دیا ہو تو اس پر کچھ بھی نہیں ملتا ،چاہے ہلاک ہونے والی مرغیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہو ۔ اس طرح بھالو کے حملے سے ہونے والے نقصان کی بھر پائی نہیں ہو پاتی ۔ اس لئے لوگوں نے اس کا ایک آسان حل ڈھونڈ لیا ہے کہ مال مویشی رکھا ہی نہ جائے تاکہ گاڑے پسینے کی کمائی بھالو کی نذر نہ ہو لیکن کیا یہ فیصلہ صحیح ہے؟ مان لیا کہ گھر میں بھیڑ بکریاں نہ ہوں تو بھالو خالی ہاتھ لوٹ جائے گا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ ملنے پر وہ انسانوں کو چھیڑنا شروع کر دے ۔ محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار جگہ جگہ جاکر جنگلی جانوروں کو نہ مارنے کا قانون پڑھا رہے ہیں اور چند گاؤں میں فی چولہا ایک ایک عدد پٹاخہ بانٹ کر مطمئن ہیں کہ ہم نے لوگوں کو پروٹیکشن دی ہے ۔ ایسے میں چندی گڑھ کے چڑیا گھر میںلگے وہ بورڈ یاد آ تاہے جس میں کچھ اس طرح کے جملے درج ہیں :۔
’’ کرپیا فینسنگ کے پاس نہ جائیں۔ آپ اندر گر جائیں اور ہمارا جانور آپ کو کھا جائے، تو ہمارا جانور بیمار پڑ جائے گا ‘‘
رابطہ :لمر گوشن ۔۔۔دراس ضلع کرگل( لداخ)
9419399487,9622221748
Email [email protected]