کٹھوعہ ٹریجڈی کے کچھ ہی ماہ بعدگزشتہ دونوں سری نگر میں ایک انتہائی متنازعہ آرمی میجر کی جو شرافت دشمنانہ تصویر سامنے آئی ہے ، اس کو دیکھ کر ہر باضمیر انسان کو وطن کی ماں بہن بیٹی کے لئے فکر مندی قابل فہم ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیرکے اعصاب شکن حالات میں وطن کی بیٹایاں اور بہوئیں سب سے زیادہ تکلیفوں،اذیتوں اور دشمنیوں کی شکار رہیں ۔گذشتہ تین عشروں سے مسلسل دختران کشمیر کادورآزمائش جاری ہے۔اس طویل دورانیے میں خواتین کشمیر کو بے آبرو بھی ہونا پڑا، بیوگی اورنیم بیوگی کا عذاب بھی جھیلنا پڑا ، اپنے بچوں کے جنازے اٹھانے کی قیامتیں بھی جھیلنا پڑیں ، یتیموں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا اوراسے متنوع مجبوریوں اور محرومیوں کا ہدف اور نشانہ بھی بننا پڑا ۔اس کی تذلیل و تصغیر کے لئے اغیار اس حدتک کمینگی پراترآئے کہ اس کے سر کے بال تک کاٹ ڈالنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی ۔دختران کشمیر نے بڑے ستم جھیلے اوربڑی مصیبتیںاٹھائیں ،ان کے قلوب پرکتنے بڑے اورگہرے گھائواورانکے دماغ پر شدیدچوٹیںلگ چکی ہیں۔دختران کشمیر کے سامنے ان کے بھائی پیوند خاک ہوئے۔کشمیرآلام مسلسل کی رودادمیں ایک ایسے باب کااضافہ ہواجوروح فرساہے ۔ جسم پرزخم لگ جائے رستارہتاہے لیکن بالآخربھرجاتاہے لیکن روح پر گھائو لگ جائے جیتے جی نہیں بھر سکتا۔بنت حوا کی نفسیات کولگے ان زخوں کا علاج کہیں سے ممکن نہیں ہو پاتا۔روح انسانی اورانسانیت کی نفسیات کولگے یہ گہرے گھائو یوں تو دیکھنے سے نظر نہیں آتے لیکن دل و دماغ پریہ چوٹ، یہ گھائواوریہ زخم ایسے دردناک ٹیسیں اٹھاکر اپنے پیچھے اتنے منفی اثرات چھوڑتے ہیں کہ جو متاثرین کو مرنے دیتے ہیں نہ زندہ رہنے دیتے! یہ زندگی بھراندرہی اندر شرمساری، احساس کمتری ا ور خجالت کا طوفان برپاکرتے رہتے ہیں ۔ایسے المناک سانحات جن سے روح کی رگ وپے زخمی ہوجائے، ان کاشکارہمیشہ کے لئے مضطرب ہوکرپیچ وتاب کھاتا رہتا ہے ۔یہ روح کی وہ اذیت ہوتی ہے جس کی ایک ایک خراش لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنا نقش کئی زندگیوں ، ہمیشہ کے لیے باقی چھوڑ دیتاہے ۔
بلاشبہ صنف نازک پرزمین تنگ کرنے والے وحشی ہوتے ہیں۔ان وحشی درندوں کی درندگی کہاں سے نموپاتی ہے یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اس سوال کاجواب تلاش کرنا چنداںمشکل نہیں کیوںکہ جب صورت حال یہ ہو کہ جب بے قابوآفت کشمیری مسلمانوں کے جان ومال ،عزت وآبروکومسل رہی ہو ،اخلاقی پابندیاں اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہوں ،اس کاپاگل پن سر چڑھ کر بول رہا ہو، ماں بہن اوربیٹی کی قدر ومنزلت سے ناواقف محض ہو تو وہ صنف نازک کو بے موت ماردے گی اور ستم رسیدہ لوگوں کے آشیانے پر کڑاک کے ساتھ بجلیاں گرنایقینی امر ہے ۔ قتل وغارت اوربستیوں کی بستیاں تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیرمیں درندگی کے ایسے واقعات بھی رونماہورہے ہیں کہ جن سے دل پاش پاش اور آنکھیں خون کے آنسوئوں سے لبریز ہو جاتی ہیں۔بلاشبہ ایسے واقعات سے ستم رسیدہ کشمیریوں کے زخم گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔1990 سے ہی کشمیر میں انسانیت کے مجرم کشمیرکی صنف نازک کے ساتھ جس درندگی کا سلوک روا رکھا ہے، اس سے صاف عیاں ہے کہ دشمن خواتین پرزمین تنگ کرنے کوبطورجنگی ہتھیاراستعمال کررہاہے ۔
دختران کشمیرکادرازچلاآرہادورہ آزمائش معلوم نہیں کہ کب کافورہوجائے گا تواس پس منظرمیں جتنی آج ان کی دینی تعلیم کی ضرورت ہے،پہلے سے کہیں زیادہ اس پرپوری توجہ ہونی چاہئے۔کشمیرکے پرآشوب حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ دختران کشمیرکی اصلاح اور تعلیم کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں یہ امر لائق توجہ ہے کہ خواتین اور دختران کو تعلیم کے لیے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں، عورتوں کی تعلیم کے لیے سب سے محفوظ اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک جگہ، خود اس کا گھر ہے، گھر میں ایسا انتظام اگر مشکل ہوتو ایسی دانش گاہیں ہیں،کہ جہاں صرف بچیوں کو ہی تعلیم دی جاتی ہو اور تعلیم دینے والا تدریسی عملہ کلی طورپر خواتین پر ہی مشتمل ہو۔ اگر تعلیم نسواں سے اس کے صحیح فوائد حاصل کرنے ہیں اور اسلامی روح کی بیداری،ذہنی وفکری آسودگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لئے یہی نسخہ کیمیاہے کہ اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیمِ نسواںکابندوبست وانتظام ہووگرنہ فتنہ ۔ ہم جن معاشروں میں رہتے ہیںان میںخواتین اوردختران کی اخروی ودنیوی، اخلاقی، معاشرتی اور تعلیمی فلاح وبہبود کا راز اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے، اس کے علاوہ سب نفس کا دھوکہ ہے، اس کا فائدہ عارضی اور وقتی ہے؛ ہم اسے سمجھیں، شریعت یہی چاہتی ہے، وقت یہی چاہتا ہے، سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول ؐ یہی چاہتے ہیں۔
کشمیر کے پرآشوب حالات میںکشمیرمیں کئی ایسے سرگرمو فعال دینی ادارے ہیں کہ جنہوں نے دختران کشمیرکی اصلاح اورانہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کابیڑااٹھارکھاہے ۔ان اداروں میں جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات کی کاوشیں بھی قابل ستائش ہیں۔یہ ادارہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی نگرانی میںجس طرح بیک وقت سوپوراورسری نگرمیںنہایت فعالیت کے ساتھ2001سے اب تک دختران کشمیرکی اصلاح وتربیت کی ذمہ داری نبھارہاہے، اس پروہ سینکڑوں طالبات گواہ ہیں جواسے وابستہ ہیں۔ جامعہ اسلامیہ معہدالمسلمات میں ان سب امورکوملحوظ رکھاگیاہے جوتعلیم نسواں کے لئے اسلام کومطلوب ومقصودہیں۔انصارالنساء بھی ہماری اس بہن کاایک فلاحی اورخیراتی ادارہ ہے۔ 2014کے قیامت خیزسیلاب کے دوران اس فلاحی وخیراتی ادارے نے دیگراداروں کے شانہ بشانہ امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔یہ ادارہ ہماری ان بیٹیوں اور بہنوں کی عملی مددکرتاہے کہ جومالی امدادکی مستحق ہیں، شادی بیاہ کے موقع پران کی دلجوئی کے لئے یہ ادارہ پیش پیش ہوتاہے ۔خواتین کی ہنرمندی کے لئے بھی یہ ادارہ اپنی وسعت کے مطابق کئی طرح کے پروگرام چلاکرمستحقین خواتین کومعاشرے میں جینے کاہنرسکھاتاہے۔
یہ طے ہے کہ دختران کشمیر کا قلوب دینی تعلیمات سے جتنازیادہ منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوتے چلے جائیں گے، وہ جس قدردیندار ثابت ہواسی قدروہ کشمیرکازکی کامیابی کے لئے اپناکردارنبھاسکتی ہے، وہ جبرکے سامنے ڈٹ جانے کی تربیت کرنے والی ماں،بھائی کوہمت بندھانی والی بہن، وہ نیک سیرت بیوی ،ہر دل عزیز بہو ،نیک اور شفیق ساس ، اپنے بچوں کی معلم اول کاکرداراداکرسکتی ہے ،اورمصائب کتنے شدائدہوں لیکن وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، اولاد کو جذبہ ٔ صداقت سے سرشار کرسکتی ہے ،گھر کوایک بت خانے کے بجائے عبادت خانہ بناسکتی ہے۔بت خانہ صرف وہ گھرنہیں کہلاتاکہ جہاں پتھروں کے صنم رکھے گئے ہوںبلکہ بت خانے وہ تمام گھرہیں کہ جہاں وہ سازوسامان موجودہوجو عبادت خداوندی میں رکاوٹ ہواورخدافراموشی پرابھاررہاہو۔ الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کرسکتی ہے جو اسلام چاہتا ہے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں اور دینی تعلیم سے بے انتہا غفلت عورت کوشیطان بنادیتا ہے۔
بلاشبہ انسان کی نافعیت کے لیے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لیے پانی کی ہے، تعلیم وہ نسخہ کیمیا ہے، جس کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ خالقِ کائنات نے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات ان سب کا مکلف جیسے مردوں کا بنایا ہے، ویسے ہی عورتوں کو بھی اس کا مخاطب بنایا ہے، اسی لیے علم کا حصول دونوں ہی صنفوں پر فرض قرار دیاگیا ہے۔خواتین کی عزت وآبرو اور اخروی فلاح وبہبود، چراغِ خانہ بنے رہنے میں مضمر ہے اور اس کا شمعِ محفل بننا اسلام کو پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے جو ذرائع ہیںیعنی انسان کی ظاہری حواس، عقل وفہم اور دوسرے انسانوں سے استفادہ کی صلاحیت، مردوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور عورتوں میں بھی۔
جہاں اس امر کا انکار اسلامی نقطئہ نظر سے ناممکنات میں سے ہے کہ مردوں کے لیے اتنا علم اور اتنی دینی تعلیمات بے حد ضروری ہے، جن سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے لیے دینی تعلیم وتربیت سے آگاہ ہونا اور دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا، آئندہ کی دائمی حیات کے لیے ناگزیر ہے، اور اسی دینی تعلیم وتربیت کو روبہ عمل لاکر کے ایک عام قومی بیداری اور اجتماعی شعور کو ترقی دینے کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے اور چوں کہ عورت کے کئی رنگ ہیں، کبھی وہ رحمت کی شکل میں بیٹی کا روپ لیے ہوتی ہے، تو کبھی پیاری بہن، کبھی کسی کی شریک حیات ہوتی ہے، تو کبھی ماں کی شکل میں شجرسایہ دار؛ اس لیے اس کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے زیورِتعلیم کی قیمت، سونے چاندی سے بھی بڑھ جاتی ہے؛ چوں کہ اسلام سے قبل عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی؛ اس لیے آپ نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی، آپ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو بیٹی اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی۔ امام بخاری نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک پورا باب ہی قائم کیا ہے باب عظ الامام، النسا وتعلیمہن، رسول کریم علیہ الصلواہ والسلام جیسے صحابہ کرامؓ کو پند ونصیحت کیا کرتے تھے ویسے ہی صحابیات کے درمیان بھی تبلیغ دین فرمایا کرتے تھے۔امہات المومنین ؓ،بنات رسول کریمؓ اور دیگرصحابیاتؓ کابے مثال کرداروعمل تعلیم نسواں کے ماتھے کاجھومرہے۔ ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کادرماں، مصائب کی گرم ہوائوں میں، نسیم صبح کی صورت میں ماں اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو، وہ بھائیوں کی محبتوں کا مرکز وملجا اسی وقت ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے جذبات واحساسات، دین اوربس دین سے جڑے ہوں ہوجائیں۔امہات المومنینؓ ،بنات رسول کریم ؓاور دیگرصحابیات ؓکی پاکیزہ سوانح ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمیات کے روشن ستاروں سے نسبت رکھنا بے حد ضروری ہے،اور اسلامی تعلیمات کے ستاروں کی ضیاپاشی اور تابندگی کی بقاِ حیات ایک زندہ جاوید حقیقت ہے لیکن آج تعلیم گاہوں اور دینی تعلیمات کے متعدد ذرائع کے موجود ہونے کے باوجود، دینی تعلیم سے بے رغبتی پائی جارہی ہے، جس دین نے تعلیم کو تمام مردوں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا ہو،علم وحکمت سے پرقرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور لفظ اقراسے جس کی شروعات ہوتی ہو، اسی دین کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اگر بات عورتوں کی مذہبی تعلیم کی، کی جائے نہ کہ محض عصری ومغربی تعلیم کی تو معاملہ حد سے تجاوز ہوتا ہوا نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے، اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہوتو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے، آج خواتین کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت نہیں، نتیجتا وہ اپنے بچوں کے لیے بھی اس حوالے سے متفکر نہیں ہوتیں، عورتوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا، جسے سیرتِ رسول ؐ کی موٹی موٹی باتیں معلوم نہیں، طہارت وعبادت بالخصوص نماز کی بجا آوری تو دور کی بات، ان کے مسائل سے تشویش ناک حد تک ناواقفیت ہے، حقوقِ والدین، حقوقِ زوج اور دیگر چھوٹے بڑے افرادِ خانہ کے حقوق سے غفلت روز افزوں ہے۔نوبت بایں جا رسید کہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلم خواتین کو یہ منفی سبق پڑھایا کہ پردہ، آزادیِ نسواں کے لئے سدِ راہ ہے اور نام نہاد ترقی کا دشمن ہے اور اس کا چراغِ خانہ ہونا قدامت پسندی ہے، اسے جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر شمعِ محفل بن جانا چاہیے، مضبوط دینی تعلیمات سے لاعلمی نے ساس بہو کے جھگڑے پیدا کردیے، دینی تعلیمات سے اجتناب نے زوجین کے مابین مہرومحبت کم کردیا، دینی تعلیمات سے بے گانگی نے بڑے بوڑھوں کی خدمت کو کارِ ثواب کے بجائے کارِ زحمت بنادیا، بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے،زمین پہ آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) جبکہ فضائووں میں (Airhostes)بنادیا، دینی تعلیمات سے صرفِ نظری نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادئے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے،یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتاہوں کہ آج ہر طرف عصری اور مغربی علوم کا غلغلہ ہے، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتالیکن دینی تعلیم کو فراموش کرکے، صرف اورصرف عصری تعلیم میں بالکلیہ لگ جانا، اسلام کو پسند نہیں، اسلام اسے قابل اصلاح سمجھتا ہے۔