ڈاکٹر عریف جامعی
ایک ادبی تخلیق کو منصۂ شہود پر لانے کے لئے جہاں لیاقت کے خاکوں کی رنگینی کے لئے محنت شاقہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، وہیں ان خاکوں کو پرکشش اور پائیدار بنانے کے لئے ایک ایسے موقلم کی حاجت ہوتی ہے جسے تخلیقیت کے دست ہنر نے تھام کر قارئین کے سامنے ہدیتاًپیش کیا ہو۔ تخلیق میں ان میں سے کسی ایک چیز یا جہت کی کمی ہو تو فن پارے میں ابتذال کا پیدا ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ نتیجتاً جو ذائقہ (بھارتا اور ابھینوگپت کے بقول رس، چاشنی یا فلیور) فنکار اپنے فن پارے میں پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ یا تو پیدا ہو ہی نہیں پاتا یا پیدا تو ہوتا ہے لیکن قاری، مشاہد یا مبصر کی نگاہ اور ذوق اسے بھانپ پاتے ہیں اور نہ ہی اس سے کوئی حظ اٹھا پاتے ہیں۔ اس طرح فنکار، فن پارہ اور مادح فن کے مابین وہ قدر مشترک پیدا نہیں ہوپاتی جو انہیں ایک فنی تثلیث کی شکل دے سکے۔
اب جس فن پارے میں مصنف اپنی فطری لیاقت کے بیج کی آبیاری اپنے ماتھے کے پسینے سے کرے اور تخلیقیت کے آب حیات سے اس پر شبنم افشانی کرے، اس فن پارے کا کل دبستان کی ایک کیاری کی طرح ابھرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایسے فنکار کے بس چمن میں اترنے کی دیر ہوتی ہے کہ نہ صرف چمن کا ایک ایک پھول رقص کناں ہوجاتا ہے، بلکہ بلبلیں کچھ اس طرح نغمہ سنج ہوجاتی ہیں کہ چمنستان فن میں ادبی جام و مینا کے دور پہ دور چلنے لگتے ہیں اور اس میخانے کے رند مست ہوہوکر چمن کی آب و تاب کی داد دینا شروع کرتے ہیں۔ بقول غالب ؎
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
مرزا غالب کا یہ مشہور و معروف شعر یہاں پر صرف اس لئے مستعار لیا جارہا ہے کہ ہمارے مصنف، ایس معشوق احمد نے میدان ادب میں پہلے سے مستعد اور سرگرم فنکاروں اور سخنوروں کی ادبی کاوشوں کی ایک رمق اپنی تازہ کتاب ’’دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے‘‘ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’ستارے‘‘ کشمیر کے ادبی افق پر پہلے سے تاباں تھے، لیکن ہمارے مصنف نے ان کی ادبی خدمات پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈال کر ادب کے اس روشن چراغ کے لئے ایک فانوس کا کام کیا۔ اس طرح ایس معشوق احمد دراصل انہی کے ادبی نالوں اور انکی غزل سرائی کو بلند بھی کررہے ہیں اور اس کی چاشنی میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔
کتاب دراصل بائیس (۲۲) ادباء اور شعراء پر لکھے گئے مختصر تبصروں پر مشتمل ہے، جن میں وادئ کشمیر کے اکثر جبکہ صوبہ جموں کے چند سخنور شامل ہیں۔ یہ تعارفی مضامین کشمیر کے معتبر روزنامہ ’’کشمیر عظمی‘‘ کے ساتھ ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی سطح کے جرائد اور مجلّات میں چھپتے آئے ہیں۔ کتاب کا مختصر مقدمہ معروف افسانہ نگار، جناب نور شاہ صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ اس میں مصنف کی تحریروں کو ’’شرافت کی خوشبو سے لبریز‘‘ (ص، ۸) قرار دیکر ایک طرح سے کتاب کے تعارف کے لئے ایک دلچسپ عنوان پیش کیا گیا ہے۔ تاہم ایس معشوق احمد کو ایک مفید مشورہ دیتے ہوئے وادئ ادب کے مارخوشامد سے ہوشیار رہنے کی اس طرح صلاح دی گئی ہے: ’’معشوق صاحب کو ذاتی تعلقات اور دوستی کی زنجیروں کو توڑ کر اپنی سوچوں میں وسعت لانی ہوگی۔‘‘(ص، ۸) جواہرلال یونیورسٹی کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کا ’’حرف چند‘‘ میں کہنا ہے کہ معشوق احمد نے ’’ان مضامین کو زیور طبع سے آراستہ کرکے دراصل اپنی تاریخ و تہذیب کو زندہ و پائندہ رکھنے کی سمت میں ایک اہم خدمت کو سرانجام دیا ہے۔‘‘ (ص، ۱۰) یہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ کسی بھی زبان کا ادبی سرمایہ اسی صورت میں آنے والی نسلوں تک پہنچ سکتا ہے جب اس کی سرگزشت کو ایک تاریخی پیرایے میں منتقل کرنے کی سعی کی جائے۔ ظاہر ہے کہ کتاب طبع کرانے میں مصنف کے پیش نظر یہی خدمت رہی ہے۔
’’عرض مصنف ‘‘میں ایس معشوق احمد ایک طرح سے اس کتاب کے لئے درکار تحریک اور تشویق کی روداد بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف مختلف ادباء اور قلمکاروں سے ملے، جہاں انہیں مثبت اور منفی دونوں طرح کے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم جہاں مثبت تجربات نے ان کے جذبے کو دوبالا کردیا، وہیں منفی تجربات سے ان کے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی۔ اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ مصنف منفی کو مثبت انداز میں لینے کا گر جانتے ہیں۔ یہاں پر مصنف قاری کی سطح پر اتر کر اس مجموعے کے بارے میں پیشگی طور پر کہتے ہیں کہ ان مضامین کے بارے میں یہ رائے بھی قائم کی جاسکتی ہے کہ ’’یہ مضامین تعارفی سے زیادہ تعریفی ہیں۔‘‘ (ص، ۱۳) اس اعتراض کو مصنف پیشگی طور پر رفع کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
معشوق احمد کے اردو زبان و ادب کے ساتھ گہرے انہماک اور اس زبان کے تئیں جذبۂ خدمت پر ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری نے اپنے تاثرات ’’معشوق احمد۔کشمیر کی نئی نسل کا امید افزا قلمکار‘‘ میں بات کی ہے۔ آپ نے مصنف کو ان ادیبوں سے جدا سمجھا ہے جن کا مقصد وحید کسی زبان یا اس سے منسلک ادب ’’کے نام پر روزگار حاصل کرنا ہوتا ہے۔‘‘ (ص، ۱۵) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ معشوق احمد اردو ادب کی بے لوث خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب معشوق احمد کی اسی والہانہ اور پرخلوص عرق ریزی کے بین ثبوت کے طور پر یہ کتاب پیش کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں شامل تحریریں، طیب فرقانی، بانی و مدیر، اشتراک ڈاٹ کام، کے مطابق ’’تحقیقی نوعیت ‘‘کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک ’’جامعیت ‘‘بھی رکھتی ہیں۔ (ص، ۲۳)
کتاب کا پہلا مضمون معروف افسانہ نگار جناب نور شاہ پر ہے، جو جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی روایت کے امین ہیں۔ (ص، ۲۸) مصنف کے مطابق نور شاہ کے ’’افسانوں میں حسن پرستی اور رومانیت بھی ہے اور عشقیہ قصے بھی، زندگی کی کڑواہٹ بھی ہے اور خوشیوں کی مٹھاس بھی۔‘‘ (ص، ۲۸-۲۹) مصنف اس بات کے بھی متمنی نظر آتے ہیں کہ ہمارا اردو ادب دنیا میں مادر وطن کے تعارف کا ایک ذریعہ ثابت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نور شاہ کے تئیں کرشن چندر اور عصمت چغتائی کے اعترافی کلمات کو پیش کرتے ہیں۔ (ص، ۳۲) شیخ بشیر احمد کو ’’حقیقت نگاری‘‘ (ص، ۳۳) کا ترجمان قرار دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی ’’ابتر صورتحال کی عکاسی کے ساتھ ساتھ خارجی اور داخلی انتشار کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔‘‘ (ص، ۳۴) ڈاکٹر اشرف آثاری کو بھی مصنف نے ایک ’’حقیقت نگار‘‘ (ص، ۴۲) قرار دیا ہے۔ رحیم رہبر کے بارے میں ہمارے مصنف رقمطراز ہیں کہ آپ نے ’’روایتی اسلوب سے پرہیز برت کر راست بیانیہ۔۔۔۔۔‘‘ اپنایا ہے۔ (ص، ۴۷) محترمہ رخسانہ جبین کے بارے میں مصنف کا بیان ہے کہ’’ آپ نے بھی اپنی شاعری میں اپنی ذات، احساسات و جذبات، تانیثی سوچ کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔‘‘ (ص، ۵۳) مشتاق مہدی کے بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ آپ ’’افسانے کی روایات سے واقف نظر آتے ہیں۔‘‘(ص، ۶۱) زنفر کھوکھر کے بارے میں مصنف اس طرح رقمطراز ہیں: ’’وہ طبقہ نسواں کے شب و روز، نفسیاتی مسائل اور گھریلو معاملات کو افسانہ بناکر جس عورت کو اپنے افسانوں میں پیش کرتی ہیں وہ باہمت، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی، کردار سازی کرنے والی اور تعمیری سوچ رکھنے والی ہے۔‘‘(ص، ۶۷) علی شیدا کی شاعری پر بات کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’وہ حسن کو دیکھتے ہیں اور اس کا اظہار حسین پیرایے میں کرتے ہیں۔۔۔ (یہی وجہ ہے کہ) پروفیسر غلام محمد شاد بھی انہیں بنیادی طور پر رومانٹک شاعر مانتے ہیں۔‘‘ (ص، ۷۶) زاہد مختار کے بارے میں مصنف کا خیال ہے کہ وہ ’’غزل نہیں لکھتے (بلکہ) اپنے قوم کی حالت کا نوحہ لکھتے ہیں۔‘‘ (ص، ۸۲) تاہم آپ انہیں ’’ماضی پرست نہیں بلکہ اچھے مستقبل ‘‘کا خواہاں سمجھتے ہیں۔ (ص، ۸۲) ڈاکٹر محمد شفیع ایاز کی باپت مصنف کا بیان ہے کہ آپ ’’قارئین کو اپنے مشاہدات میں شریک کرنے کے لئے افسانے لکھتے ہیں،‘‘(ص، ۸۸) ڈاکٹر جوہر قدوسی کی کئی جہات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے انہیں ایک طرف ماہر قدرت اللہ شہاب (ص، ۹۷) قرار دیا ہے تو دوسری طرف آپ کو کشمیر میں روایت نعت گوئی کے فروغ کا امین قرار دیا ہے۔ (ص، ۹۹)
نذیر جوہر کے بارے میں مصنف کا خیال ہے کہ ’’وہ افسانے بننے کا فن جانتے ہی نہیں بلکہ قاری کو باندھ کر رکھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔‘‘ (ص، ۱۰۴) مقبول فیروزی کو مصنف نے ایک محقق اور ماہر تصوف کے طور پر پیش کیا ہے۔ (ص، ۱۰۹-۱۱۳) ڈاکٹر نذیر مشتاق کو مصنف نے ’’ایک بہترین افسانہ نگار، کامیاب کالم نگار، انعام یافتہ ڈراما نگار، ناول نگار، افسانچہ نگار اور ترجمہ نگار‘‘ قرار دیا ہے۔ (ص، ۱۱۵) ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی بحیثیت طبیب اور قلمکار، مصنف کی نظر میں، ’’معاشرے کا مشاہدہ گہری نگاہ سے کرتے ہیں۔ (اور) معاشرے میں نظر آنے والی کوتاہیوں، کمزوریوں، زیادتیوں کا ذکر اپنے افسانوں میں کرتے ہیں۔‘‘ (ص، ۱۲۰) مصنف کے مطابق ’’ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا بھی فطری میلان افسانہ کی طرف ہے،‘‘( ص، ۱۲۶) جہاں وہ ’’فنی لوازمات کو قائم رکھتے ہیں۔‘‘ (ص، ۱۲۷) ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کی پہچان مصنف ’’علامتی افسانے کا معتبر نام‘‘ کے طور پر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو ’’اعلیٰ پائے کے ناقد، اقبال شناس، (اور) کالم نویس‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ (ص، ۱۳۲) راجہ یوسف کو ہمارے مصنف ’’کشمیر میں عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں ایک ممتاز نام‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (ص، ۱۳۷) اشرف عادل کا ’’تعلق،‘‘ مصنف کے مطابق، ’’کشمیر کے شعراء کی جدید نسل سے ہے‘‘اور ’’ان کی غزلوں میں شدت سے عشق و محبت کی ترجمانی ملتی ہے۔‘‘(ص، ۱۴۲) مصنف لکھتے ہیں کہ طارق شبنم، جو ’’کشمیری اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں‘‘کا ’’اصل میدان افسانہ نگاری ہے۔‘‘ (ص، ۱۵۰) ڈاکٹر فیض قاضی آبادی کی پہچان ہمارے مصنف ایک محقق کے طور پر کراتے ہیں۔ (ص، ۱۵۵-۱۶۰) ڈاکٹر فردوس احمد بٹ کی دلچسپی، مصنف کے مطابق، ’’افسانوی ادب اور تحقیق و تنقید کے ساتھ ہے۔‘‘ (ص، ۱۶۲)
اس طرح ایس معشوق احمد کی کتاب جموں و کشمیر میں سرگرم عمل شعراء و ادباء اور سخنوروں کی ادبی کاوشوں کے تعارف کو ایک گلدستے کی صورت دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ تاہم ہر مضمون کی ابتداء مصنف بے شک ایک نرالے تخلیقی انداز میں کرتے ہیں، لیکن یہاں پر، مضامین کے تعارفی کلمات میں، خیالات کی تکرار محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر، ادیب یا قلمکار کی مختلف ادبی جہات کو جوڑا تو گیا ہے، لیکن طریقۂ کار کچھ گنجلک سا محسوس ہورہا ہے۔ ان اسقام اور املاء و طباعت کے اغلاط کو چھوڑ کر کتاب کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس سے دنیائے ادب کی ایک خوش کن شبیہ سامنے آتی ہے جو آنے والے قلمکاروں کے لئے ایک سنگ میل کا کام کرسکتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی تمنا کا اظہار ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ لکھتے ہوئے اپنے ہم وطنوں سے کیا تھا۔
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)