دانش گاہیں قوم کا مستقبل سنوارتی ہیں!

Mir Ajaz
8 Min Read

بلال احمد پرے

تاریخ اسلام کے سنہرے باب کے چند تعلیمی اوراق پلٹ کر دیکھئے ۔ تو سرورق میں اصحابِ صفہؓ کے مکتب سے کوئی نا آشنا نہ ہوگا ۔ جو مسجد نبویؐ کے ایک کنارے پر ایک چبوترا کی شکل میں ہوا کرتا تھا ۔ جہاں خیر الانام سرور کونینؐ ’’ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ‘‘ یعنی قرآن کریم کی حکمت و دانائی کی تعلیم سے اپنے جانثار صحابہ کرام ؓ کی تربیت فرمایا کرتے ۔اسی طرح آگے چل کر ذرا غور کیجئے! کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنے بچوں کے سلسلہ میں اس بات کے فکر مند کیوں رہا کرتے کہ وہ دین پر قائم رہیں اور ان کو دین پر قائم رہنے کی حالت میں موت واقع ہو ۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت یعقوبؑ جیسے اولوالعزم پیغمبروں کے اُسوہ کو یاد کریں کہ پورا خاندان نبوت کے نور سے منور ہے ، اس کے باوجود انہیں اپنی وفات کے وقت یہی فکر دامن گیر ہے کہ ہماری اولاد دین پر قائم رہے گی یا نہیں ؟
ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا کبھی ہم نے اس پر غور و فکر کیا ہے ؟ اور کیا ہم نے بھی کبھی اپنی اولاد سے وہی استفسار کیا ہے جو آپؑ نے کیا تھا کہ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِی ؟ یعنی میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے فکر مند ہونا چاہئے ۔
قارئین کرام! وہ دن بھی یاد کریں جب رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے مشرک اسیروں کی رہائی دس مسلمانوں کی پڑھائی اور لکھائی پر موقف رکھی ۔ یہ کوئی چھوٹا فیصلہ نہیں تھا کہ بندہ چاہے تو دس صحابہ کو یوں فوراً پڑھا کر آزادی حاصل کرے ۔ بلکہ اس سے کافی وقت درکار تھا، تب جاکر ایک اسیر دس صحابہ کرامؓ کو پڑھائی اور لکھائی کے قابل بنا سکتا ۔
مکتب اولی چبوترہ مسجد نبوی کے صفہ سے ہی حضرت ابوہریرہؓ نے حدیث مبارک کی تعلیم پائی اور یہ مشن آگے بڑھایا ۔ پھر حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اس کی آبیاری کیں ۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ اصحاب رسولؐ سے تابعین تک اور تابعین سے تبع تابعین تک جا پہنچا ۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ کا مکتبہ کس کو معلوم نہیں ۔ آپؒ سے زیادہ خیر خواہ امت کا کوئی دوسرا نہیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی حیات مبارک اٹھا کر دیکھئے، تو آپ کے بے مثال شاگردوں کا فہرست بہت لمبا ملے گا ۔اسی طرح حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ کے خانقاہوں کو دیکھئے ۔ جہاں دینی فکر اور اسلامی مزاج کی صحیح تعلیم و تربیت کا بہترین نظام دیکھنے کو ملے گا ۔ اسی خانقاہ سے کشمیریوں کے اپنے روحانی پیشوا، صوفی بزرگ، داعی دین، شریعت اسلام کے پاسبان حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ پیدا ہوئے ۔ جس نے کشمیری زبان میں عارفانہ، مبلغانہ، واعظانہ نصیحت کیں ۔ حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومیؒ مادر زاد ولی تھے، اس کے باوجود بھی آپ کو مکتب میں داخل ہونا پڑا اور اس وقت سرینگر میں موجود اسلامی تعلیم و تربیت جیسے ’’ دارالشفاء‘‘ ادارے کی طرف رُخ فرمایا، تاکہ دین اسلام کے علوم کو صحیح معنوں میں حاصل کر سکے ۔ یہ مکاتب ہمارے اپنے اسلاف کی میراث رہے ہیں، جنہیں ہمیں خوب کے خوب تر سینچنے کی ضرورت ہے ۔ان ہی مکاتب سے ہمیں صحیح عقائد کی تعلیم حاصل ہوتی ہے ۔ یہاں سے ہی بچوں کو توحید و رسالت کی حفاظت، اصلاح معاشرہ، دعوت و تبلیغ، مکتب کی اہمیت، معرفت الٰہی، قرآن و حدیث کا شوق، اخروی زندگی کا یقین پیہم، خلوص نیت جیسی اہم تعلیمات حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں صحیح طور پر نماز ادا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ انہیں آدابِ زندگی سکھائے جاتے ہیں ۔ انہیں صحیح طور پر بات کرنے کا سلیقہ، شرعی لباس پہننے کی ترغیب، خوبصورت اور میٹھی باتیں کرنے کی تمیز پیدا کی جاتی ہیں ۔ انہیں چلنے کا ڈھنگ سکھایا جاتا ہے ۔ بڑوں سے محبت، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور سلام کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے ۔قارئین کرام کو بخوبی یاد ہوگا جب اسکول کے اندر ہی سے بچے چھ کلمے، دعائے قنوت ، التحیات اور ایمان مجمل و ایمان مفصل مارننگ اسمبلی میں پڑھا کرتے تھے اور اسکول سے گھر لوٹنے پر بچے یہ سب زبانی گنگنایا کرتے تھے ۔ لیکن اب کتابیں اس قدر بڑھنے لگی ہے کہ بچوں کے پاس وقت کم پڑتا ہے اور وہ دینی تعلیم و تربیت کی طرف عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں ۔دوسری جانب موبائل فون کی سہولیات بہ آسانی میسر ہونے سے بے حیائی مزید بڑھتی گئی ۔ اب بچوں کی زبانوں پر ویڈیوز کے ڈائیلاگ اور غیر شائستہ الفاظ یاد ہو گئے ہیں ، جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔ اب تو بچے اسکول کا بستہ گھر کے آنگن میں ہی پھینک دیتے ہیں اور فوراً گھر کے کسی فردد کا موبائل فون اپنے قبضے میں لینے لیتے ہیں ۔ جس سے ان کے ذہنی، جسمانی، اخلاقی نشوونما پر منفی اثرات پڑے ہیں ۔
قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے مکاتب کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ مکاتب دین اسلام میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے ۔ ان کے بغیر بچوں کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا ۔ اگر بستی میں ان مکاتب کا انتظام نہیں ہے تو ہزاروں بچے دین کی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے اور وہ بے حیائی کے طوفان میں ڈوب کر بے دین مر جائیں گے ۔ یہی وہ دانش گاہیں ہیں، جہاں سے مضبوط مقتدی ہی نہیں بلکہ مضبوط و مستحکم مؤذن و امام بھی بنائے جاتے ہیں ۔لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مکاتب کو اسکولوں کی طرح مضبوط بنایا جائے، ان کی طرف اولین اوقات میں توجہ دی جائے ۔ اپنے بچوں کو مکاتب کی طرف صبح یا شام کم سے کم ایک گھنٹہ کے لیے ضرور روانہ کریں ۔ یار رکھیں !جان جائے لیکن ایمان‌نہ جائے ۔
(رابطہ ۔ 9858109109)
<[email protected]>

Share This Article