عجمی صوفی شاعری کسی بھی صورت میںمخرب اخلاق نہیں ۔اکابر صوفیاء کی زندگیا ں اعلیٰ اخلاق کا نمونہ آج تک تصور کی جاتی ہیں۔ اسلام میں اخلاقیات پر سب سے اہم کام صوفیاء ہی کا رہا ہے ۔ وعظ کی محفلوں میںرنگ صوفیاء کے تذکروں سے بھر ا جاتا ہے جن میں اعلیٰ اخلاق کا درس ہے۔ حلال وحرام کی تفریق کا سب سے زیادہ لحاظ صوفیا ء نے کیا ہے۔ حسن بصریؒ سے شیخ علویؒ تک سب اکابر صوفیا کما ل احتیاط کی زندگی گزارتے تھے ۔ تصوف کی تقریباََ ساری کتب میں اس کو تصوف کا اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ یہ صوفیہ کا اجماع ہے کہ اتباعِ رسول ﷺ کے بغیر معرفت نہیں ۔ شریعت کو طریقت کیلئے پہلا زینہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کچھ کمزور طبیعت کے لوگوں نے تصوف کا سہارا لے کر اخلاقی گمراہیاں روارکھی ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تصوف کی ذات پر الزام دھرا جائے۔
یہ الزام کہ تصوف کے نام پر دین کی باطنی تفسیرکی گئی اور جہاد کو کالعدم قرار دیا گیا ،تاریخی طور پر بلا جواز ہے ۔ بڑے بڑے صوفیاء نے جہادوں میں حصہ لیا ۔جابر حکمرانوں کو کھری کھری سنائی اور ان کے عتاب کے شکار ہوئے ۔ دور جدید میں بھی کچھ جہادی تحریکوں کے روح رواں صوفیا ء رہے ہیں ۔ دین کی باطنی تفسیر جو ظاہر کوفریبِ محض کہہ دے شاید ہی کسی عجمی صوفی سے منسوب ہے ۔ باطنیوں کی شدید تنقید ابن یتیمیہ جیسے لوگوں نے ہی نہیں کی بلکہ غزالی اور ابن عربی نے بھی۔ اقبال نے خود لکھا ہے کہ انہوں نے تاریخ تصوف لکھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن کا م اوھورارہ گیا ۔ جومفروٖضے ان کے ذہن میں تھے ،تاریخ میں اس کے لئے شہادت ملنا دشوار ہے ۔ باطنیوں نے بھی تلوار کو نیام میں رکھنے کی بات نہیں کہی ۔ جہادِ اصغر اورا کبر کی فر ق حدیث ِ رسول ؐسے بھی ثابت ہے ۔ اسلام میں دیگر مذاہب کی طر ح جہاد با لنفس فر ض عین ہے جس کی بدولت قرب الہیٰ یا معرفت الہیٰ ممکن ہوجاتی ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں تصوف پرکئے گئے کام سے یہ با ت واضح ہوگئی ہے کہ یہ مفر وضہ کہ تصوف جس کے برگ و بار عالم اسلام میں بالعموم اورعالم ِعجم میں بالخصوص پھوٹ پڑے، سر زمین اسلام میں اجنبی پودا ہے، مستشر قین کی اختراع ہے ۔ مذاہب کا تقابلی مطالعہ اب تقریباََ حتمی طور پر ثابت کر چکا ہے کہ سرّیت ہر دین کی جان ہے۔ ظاہر پر ستی Exotericismدین میں نئی چیز ہے، دین کیdistortionہے ۔روایت پرست Perennialistمفکرین نے مذہب اور سرّیت کے مابین رشتے کی وضاحت کی ہے۔
اقبال کے ہاں بھی عجمی تصوف سے منسوب نظر یہ وحد ت الوجود اور تنزلات کی باز گشت واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کی شاعری سے نہیںان کی نثر بالخصوص ان کی’’ تشکیلِ جدید‘‘سے کافی شہادتیں فراہم کر سکتے ہیں۔ شاعری سے یہاں اس لئے استشہاد نہیں کریں گے کیوں کہ وہاں ہر قسم کے نظر ئے کیلئے کچھ نہ کچھ اشعار پیش کئے جاسکتے ہیں ۔ اگر چہ یہ بات اکثر نقادوں نے تسلیم کی ہے کہ ان کی شاعری میں بتدریج روایتی یا عجمی تصوف کی طرف مراجعت پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ آخر عمر میں یوسف سلیم چستی کے بقول پوری طرح وجودی ہو گئے تھے ۔ــ’’ تشکیلِ جدید‘‘ کے یہ جملے کس قدر واضح ہیں:’’یہ دنیا اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ ، اس شئے کی میکانکی قوت سے لے کرجسے مادے کا ایٹم کہتے ہیں، انسانی انا کے تصور کی بالکل آزادانہ حرکت تک انائے اعظم کا خود کو ظاہر کرنا ہیـ‘‘اور’’اس انانیت کے ظہور کے درجے ہیں۔‘‘ اپنے تاریخ ساز خطبۂ صدارت مسلم لیگ میں کہا تھا ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزاء ہیں‘‘ ۔ ــ’’ تشکیلِ جدید‘‘ میںابن عربی کے اہم جملہ ــ’’ الحق محسوس والخلق معقول ‘‘کو صحیح مان کر حوالہ دیتے ہیں ۔بایزید بسطامیؒ کے بیان کو جو آغاز آفرنیش کے متعلق دیا گیا ہے ـ’’جیساتب تھا ویسا آج بھی ہے‘‘ اور جس کے معنی تقریباََ وہی ہیں ،جو متہمم شدہ نظریہ ابدیت عالم سے نکلتے ہیں،کو بھی صحیح مان کر وہاں حوالہ دیتے ہیں ۔ قدمِ ارواحِ کاملہ تو اس سے بہت چھوٹی بات ہے۔ قدمِ ارواح کا نظریہ دراصل قرآنی آیت …’’نفخت من الروحیـ‘‘۔۔۔ سے براہ راست مستنبظ ہوتا ہے ۔ اگر انسان میں ایک ایسا عنصر ہے جو عرفان الہیٰ کو ممکن بناتا ہے، جیسا کہ تمام سرّی ہدایات جو مختلف مذاہب میں ہیں ،کا مشترکہ ادّعا ہے تو قدمِ ارواحِ کاملہ کے نظریہ پر اعتراض کیوں ؟ مذہبی تجربہ جو اقبال کی تشکیلِ جدید میں بنیادی دلیل کے طور پر استعمال ہوا ہے اور ان کا تصور عشق جس بنیاد پر کھڑا ہے، وہی چیز قدمِ ارواحِ کاملہ کے حاملین بھی اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔یہ بھی ملحوظ نظر رہے کہ تما م سرّی فلسفے نفس کو فانی اور روح کو غیر فانی مانتے ہیں ۔ سارے مسلم مفکرین نے نفس اور روح کے مابین نازک لیکن اہم فر ق کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ نفس کے تقدّم کا کوئی بھی مذہب اور صوفی مفکر قائل نہیں لیکن روح میں الوہی عنصر جس کے قدیم ہونے پر سب متفق ہیں ،کی موجودگی کی وجہ سے تخلیق شدہ ماننے سے انکاری ہیں ۔ دراصل مذاہب کے درمیان نظریہ تخلیق اور نظریہ ارواح کے حوالے سے بنیادی فرق نہیں ہیں ، جیسا کہ روایت پسند مفکرین نے صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ قرآن میں نفس اورروح کو ایک ہی معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اگر چہ اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنے والے کچھ لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے ۔ اقبال نے بھی نفس اور روح کے نازک لیکن بنیادی فرق کو ملحوظ ِنظر نہیں رکھا ہے۔
وجودیوں پر یہ اعتراض کہ وہ عالم کو دھوکہ سمجھتے ہیں نہ کہ حق کا مظہر سراسر غلط ہے ،یہ الزام بھی غلط ہے کہ تصوف میں رہبانیت کی تعلیم ہے ۔ عجمی تہذیب بہ حیثیت ِمجموعی ارٖضی تہذیب ہے، اس لئے رہبابیت کو زیادہ جگہ بھی نہیں دی ۔سارے ایرانی انبیاء کرام ؑ کی سر زمین سے بڑی حد تک وابستہ رہے ہیں ۔ اکابر صوفیاء نے رہبانیت کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ اکثر صوفیاء شادی شدہ تھے اور لوگوں کے ساتھ خوب گھلتے ملتے تھے ۔ کچھ دیر تک خلوت میں سب صوفیوں کو رہنا پڑنا ہے لیکن خلوت بذات خود مقصود نہیں ۔ غاروں میں رہنا بالعموم صوفیوں کے نزدیک مذموم ہے۔ ابن عربی نے صراحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ اعلیٰ منزل یہ ہے کہ جلوت میں بھی خلوت نصیب ہو۔ حضوررﷺ کو پہلے پہلے لوگوں سے وحشت ہوتی تھی اور خلوت ہی کو پسند کرتے تھے بعد میں جب اللہ کی حقیقت اور واشگاف ہوئی تو انہیں خلوت و جلوت میں یکساں یکسوئی حاصل ہو جا تی تھی ۔ ابن عربی نے اس طرف ہماری توجہ دلائی۔ ترکِ دنیا کا الزام شاید کچھ کمزور طبیعت کے صوفی نما لوگوں پر لگا یا جاسکتا ہے لیکن اکابر صوفیاء جن کا زیادہ تر تعلق عجم سے ہی ہے، اس الزام سے بری ہیں۔ صوفیوں کا قول ’’ ترکِ دنیا ترکِ عقبیٰ ترک ِ مولا ترکِ ترک‘‘ اقبال کو تسلیم ہے۔ ان کے ہاں ’’ خلوت آغاز است وجلوت انتہا است‘‘ہے۔ صوفیہ نے کبھی بھی ذاتِ الہٰی کی تنزیہی حیثیت کا انکار نہیںکیا اور انہوں نے اگر تشبیہ پر زور دیا ہے تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ اpantheism کا الزام لگایا جا سکتا ہے ۔ تما م صوفیاء نے بشمول منصور حلاج کے ذات ِباری کی ،ماورایٔت یا تنزیہہ کی بات کی ہے۔ اس سلسلے میں ابن عربی نے ِفصوص وفتوحات دونوں میں غیرمبہم الفاظ میں تنزیہہ کی بات کی ہے۔ اقبال کا یہ بیان کہ دین میں باطنی معنی تلاش ہی نہ کئے جائیں یا وہ وہاں ہے ہی نہیں قابل قبول نہیں ہے۔ ظاہری معنی پر اکتفاء کرنے سے ساری مقدس کتابوں بشمول قرآن کا حلیہ ہی بگڑ جاتا ہے ۔ مجموعی طور پرامت نے ٹھیٹ ظاہر یت کبھی تسلیم نہیں کی۔ یہ تنقیدی دبستانوں کے اس مسلّمہ نظریے کہ الفاظ کے معنی تہہ در تہہ ہو سکتے ہیں، کے خلاف بھی جاتا ہے۔
اقبال کی اس رائے کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ صوفیہ نے توحید کی ضد کثرت کو سمجھا اور شرک کو نہیں سمجھا ۔ اگر چہ اقبال نے خود لا موجود الاللہ کہہ کراس اعتراض کو تقریباََ زائل کیا ہے، اس سلسلے میں کچھ اور نکات کی طر ف توجہ دینی چاہیے ۔ صوفیا ء نے کثرت کا اور اضافی معنی میں اس کی خدا سے غیریت کا کبھی انکار نہیں کیا ۔فوق الصور ذات مختلف صورتوں میں ہی ظاہر ہوتی ہے۔ غیب الغیب یا ذات الذات خواہشِ ظہور کے بغیر صوفی کے مطلب کی چیز ہے ہی نہیں ۔ اس سے نہ محبت کی جاسکتی ہے، نہ اسے دُعا کی جا سکتی ہے۔ صوفیا ء کا نہ صرف کثرت کے وجود (اضافی ہی سہی )اور ایک لحاظ سے غیر یت پر نہ صر ف پورا پورا ایمان ہے بلکہ اس کو پورے ہوش کے ساتھ خود کی reference کے بغیر دیکھنے کو خدا کو دیکھنے سے تعبیر کیا ہے۔ دورِ جدید کی ایک سّریت پسند مصّنفہ سمان ویل نے خدا کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی’’God is attention without distractionـ‘‘ ۔ صوفی کا مطمح ِنظر خداکی آنکھ سے عالم رنگ و بو اور دوسرے عالموں کو دیکھنا ہے۔ دوسرانکتہ یہ ہے کہ توحید کے ایک ما بعد اطبیعاتی معنی ہیں جو توحیدکی سب سے اعلیٰ درجہ کی معرفت سے عبارت ہے۔چونکہ مابعدالّطبیعات تعریفاََحقیقت کا عرفا ن ہے جیسا کہ روایت پسند مابعد اطبیعاتی صوفیا اور صوفی مفکرین نے صراحت کی ، اس لئے کلمہ یا توحید کے مابعد الّطبیعاتی معنی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
اس ساری بحث کے با وجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ٓقبال کو تصوف سے کچھ اصولی اختلافات رہے ہیں۔ شایٔد سب سے اہم اختلاف ان کی انفرادیت پسندی ہے۔ تصوف کی روایت انفرادیت پسند نہیں رہی ہے ۔ احساس ِخودی ہر شخص کا ایک سطح پر ڈاتی احساس ہی ہوتا ہے اور عرفان نفس سے ہی عرفان خداوندی ممکن ہوجاتا ہے لیکن روح Spirit/Nous ایک فوق الشخصی جوہر ہے ،جسے فرد کے خول میں محصورنہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے روایتی تصوف میں انفرادیت پسند فلسفہ کیلئے زیادہ گنجا ئش نہیں ہوسکتی ۔ مابعد الّطبیعات میں بھی حقیقت مطلق یا سچائی کو فر د کے میلانات،جذبات و احساسات کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ فنا کے حصول کیلئے ضبط ِنفس کی منزل دراصل انفرادیت کے احساس کو ختم کرنے کیلئے ہے ۔ اگر چہ آخری معنی میں خدا ایک فرد کی شحصی دریافت ہی ہوتی ہے لیکن حقیقت ِمطلق فرد کی کمزوریوں یا تحدیدات سے منزہ ہوتی ہے۔ فرد ایک تحدید کا نام ہی ہے ۔ چونکہ اقبال کی انفرادیت پسندی ان کی مجموعی فکر پر زبردست اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے ان کی مابعد اطبیعات اور ان کے فلسفے کے دوسرے اجزاء روایتی صوفی مسلک سے کسی حد تک محتلف سمت میں رخ کرتے ہیں۔اقبال کا خدا کو انا کہنا صرف ایک حد تک صحیح ہے کیونکہ جہاں تک ذات الّذاتEssence/Godhead/Absolute کا تعلق ہے اس کے متعلق لفظ خودی کا اطلاق صحیح نہیں ہے ۔ اقبال Anthropomorphismسے پوری خلاصی حاصل نہیں کر پائے ۔
اقبال نے تصوف کی فکری روایت کو جدید انسان کے لیٗ ممکن الحصول بنانے کے لیٗ اور اس کے نیٗ چیلجنز سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اہم کام کیا۔ اقبال نے یہ دکھایا کہ خودی یا عرفانِ ذات کے لئے انسان کوتصوف کی شاہراہ ِعام پر چلنے کے بغیر چارا نہیں۔ انہوںنے یہ بھی دکھایا کہ ہم سب ایک لحاظ سے bydefault صوفی ہیں۔عشق،آزادی،عمل اور دوسری اہم اقدار کی بازیافت جو عالم ِانسانیت کی مشترکہ میراث ہیں، ہی صوفیاء کا مطمح نظر ہے۔ تصوف کے لئے خانقاہی نظام کو لازمِ و ملزوم قرار نہیں دیا جا سکتا۔تصوف کی مخصوص اصطلاحات اور ان کے روایتی معانی پر شدت یا اصرار اقبال کو قبول نہیں ۔ انہوںنے فناو بقا، عقل و عشق، تصورِ شیخ و تصورِ ذات وغیرہ کی ایسی تعبیر و تفہیم کی جو پیر پرستی،استھان پرستی ،ماضی پرستی ، عقل بیزاری اور کچھ شرکیہ تصورات کی درآمدرُک جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میکش اکبر آبادی کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔تصوف کو چیستاں بنانا اور اس کے نام پر فضول عملیات، ضعیف العقیدگی اور ایسی فلسفیانہ موشگافیاں جو دین کی صاف اور سادہ تصویر کو دُھندلا کریں، اقبال کو قبول نہیں۔ ایک طبقہ کی طرف سے تصوف کی علمی،فکری ،اخلاقی اور تخلیقی سوتوں اور قوّتوں کی عظیم روایت کو تنگ دائرے یا گلی میںبند کرنے کے خلاف اقبال ہمیں مشورہ دیتے ہیں۔ جدید حسّیت کا خیال رکھ کے علمی اور عملی دونوں سطحوں پر متحرک اسلامی روایت کی بازیافت جس میں نئی دنیا تعمیرکی جا سکے ، کی بات کر کے اقبال ہمارے لے اس گٹھن کا مداوا کرتے ہیں جو مادہ پرستی اور دنیا بیزارراہبانہ منہج پیدا کرتے ہیں۔
امام ابن تیمیہّ سے غلط طور پر منسوب تصوّف کا کلی رد (مولانا تھانویؒ نے ان کو کھردرا صوفی قرار دیا تھا اور امام انور شاہ کشمیری ؒنے ان کی کچھ extreme آراء وافکارکا بجا طور محاکمہ کیا ہے )رد کرنے کی ضرورت ہے اوراقبال ،مولانا مودودی وغیرہ کے کچھ بیانات کوانکی کلی فکر کے تناظر میں رکھ کر اسلام کیintegral روایت جس میں تصوف اہم دھارا ہے اور جس کی ترجمانی ان کا مطمح نظر ہے،کی بازیافت آج ہمارا فریضہ ہے تاکہ فکری اور روحانی بے ر اہ روی جس کی اُمت شکار ہے، کا ازالہ ہو۔اسلامی روایت میں ابن تیمیّہ اور ابن عربی دونوں کا اہم مقام ہے اور دونوں کے تفردات کی یا تو مناسب تاویل کی جائے یا ان کی ثانوی حیثیت ملحوظ نظر رکھی جائے۔ آج مسلم دنیا ان دو نوں کو اگر ساتھ ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے تو بڑی کامیابی ہو گی اور اگر مسلم فلاسفہ یا حکما ء(جن کے تناظر میں اقبال کی تفہیم ممکن ہے) کو بھی اس روایت کی ۔ اصولی طور پر،ایک جہت کا امین گردانے یا اس کے شارحین کی صف میںنہ دیکھنے کے رجحان کو ترک کرے تو یہ اس امت کے لئے بڑا احسان ہو گا۔
یہ نا ممکن ہے کہ کو ئی بھی بڑامسلم مفکر خود کو تصوف کی تابناک روایت سے الگ ر کھ سکے۔ اسلام کی تہذیبی میراث میں تصوف انتہائی اہم جُز ہے ۔ تاریخ اسلام میں تصوف کی روایت بڑی گہری ہے اور ابن یتمیہ جیسے لوگ بھی ایک روایتی سلسلہ میں بیعت تھے اوران کے تلامذہ نے بھی سلوک پر کتابیں لکھیں۔ اقبال کی زندگی تو حُب ِرسولؐ اور حُب اولیا ء اللہ سے عبارت تھی ۔ان کو اکثر صوفیا ء سے زبردست عقیدت تھی، تصوف کے جتنے بھی بڑے نام ہیں تقریباََ سب کا نام احترام سے لیتے تھے۔ وہ کچھ بزرگوں کے مزارات پر حاضری بھی دیتے تھے۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال تصوف یا سرّیت کی تاریخ کے ایک اہم اور درخشندہ ستارے ہیں۔ انہیں ہم عجمی صوفیاء کی صف میں نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
)ختم شد)