فیض احمد فیضؔ کی شادی لندن نژادخاتون مس ایلس کیتھر ین جارج سے ہوئی ۔ایلس کے والد کا نام جیوفری آسمنڈ جا رج تھا جن کا شمار لندن کے مشہوراور دولت مند کتب فروشوںمیں ہوتا تھا اور ان کی دکان کا نام بھی جیوفری آسمنڈ جارج تھاجو مشرقی لندن کے علاقے لے ٹن اسٹون میںواقع تھی۔مسٹر اور مسز جارج کے تین بیٹے اوردو بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی کرسٹا بیل ایلین جارج تھی، اس کے بعد ایک بیٹا ، پھر ایلس اوران کے بعد دو چھوٹے لڑکے تھے۔ایلس کی بڑی بہن کرس کی لندن میںزیر تعلیم ہندوستانی نوجوانوں سے دوستانہ تعلقات تھے اور وہ ان نوجوانوں کے ذریعے منعقد ہونے والی محفلوں میںشریک ہوتی تھی۔ایک بار انہوں نے اپنی بہن ایلس کو بھی شام کی محفل ِ احباب میں مدعو کیا اور وہاں انہیںاپنے دوستوں ، محمد دین تاثیر ، سجاد ظہیر اور ملک راج آنند وغیرہ سے ملاقات کرائی ۔اس طرح ایلس کی نئے شناساؤں سے دوستی کا سلسلہ قائم ہوگیا۔ ایلس کو کتابوں اور کتب بینی کا شوق تھا۔ اس لیے اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد انہوںنے لندن کے ایک پبلشنگ ہاؤس میں ملازمت کرلی اور اس زمانے کے ہندوستانی ادیبوں،مصنفوں اور اوسط درجے کے سیاست دانوںسے مراسم پیدا کیں۔ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ہندوستان کے سیاسی حالا ت سے واقفیت حاصل کی۔ ایلس ایک روشن خیال اور غیر معمولی صلاحیتوں کی نوجوان خاتون تھی ۔انہیںنہ صرف فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں پر پوری قدرت حاصل تھی بلکہ وہ فن ادب ، مصوری اور موسیقی سے بھی واقف کار تھی۔
ایلس کی بڑی بہن کرس نے محمد دین تاثیر کے ساتھ شادی کرلی اور ہندوستان روانہ ہوگئیں ، ایلس بھی اپنی بہن سے ملنے کے لیے ہندوستان آیا کرتی تھی اور وہ اپنی بہن کے رہتے ہوئے اس خاندان کے متعدد دوستوں سے متعارف ہوئی۔اپنی زندہ دلی اورملنساری کی بدولت جلد ہی انہوں نے دوستی کاسلسلہ قائم کیا ۔ محمد دین تاثیر کے گھر میں اکثر محفلیں منعقد ہوا کرتی تھی ،جس میںچائے نوشی اوررات کی دعوت کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں امرتسر میںفیضؔ کا اپنا مکان موجود تھا، مگر ان کی شامیں اکثرو بیشتر ڈاکٹر تاثیر ہی کے ہاںبسر ہوتی تھی۔ علم و ادب اورفنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان بھی جمع ہوا کرتے تھے اورو ہ بالکل گھر والوں کی طرح وہاں ٹھہرا کرتے تھے ۔ ایک بار کسی محفل میںایلس نے فیضؔ کو دیکھاجو تاثیر اور کرس کے مہمانوں میں ہمیشہ شامل رہتا تھا۔ فیضؔ کم سخن ہونے کے ساتھ ساتھ سادہ مزاج نوجوان تھے۔ ایلس ان کی آواز صرف اس وقت سن پاتی تھی جب ان سے اشعار سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ اس طرح دونوں ایک دوسرے سے متعارف ہوئے اور اچھے دوست بن گئے ۔ایسالگتا ہے کہ امرتسر میںپہلی ہی نظر سے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور دونوں میں محبت کا جذبہ پیدا ہوگیا ۔ اوراس طرح سے پردیسی لڑکی فیضؔ کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔مرزا ظفرالحسن لکھتے ہیں کہ’’ ایک دن میں نے فیضؔ سے کہا ایلس سے اپنی داستانِ عشق بھی تو سنایئے، کہنے لگے روز کا ملنا جلنا تھا۔ دونوں کی فکر قریباًیکسان تھی۔ رفیقِ حیات کے انتخابات پر ہماری والدہ نے کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ۔ ایک کو دوسرے سے دلچسپی ہوگئی اور بس ‘‘۔
فیض اور ایلس کو کافی عرصہ تک انتظار کرنا پڑا کیوں کہ فیض کو اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اس شادی کے لیے راضی کرنا تھا۔ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے اور دونوںبیشتر اوقات علمی باتوں میںصرف کرتے تھے۔فیضؔ کی بڑی بہن بی بی گل کا کہنا ہے کہ ’’فیضؔ کے لیے رشتوں کی بھلا کیا کمی تھی ۔ مگر اس کا کیاکیجئے جہاںوالدہ اور بہنیں چاہتی تھی وہاں فیضؔ نے ’نہ‘ کردی اور اپنے لیے ایلس کو خود منتخب کیا بالآخر گھر والے اس پر راضی ہوگئے۔ ‘‘
ڈاکٹر محمد دین تاثیر اپنی ملازمت کے سلسلے میںسری نگر جا چکے تھے اور ان کے ساتھ ایلس بھی گئی تھیں، اس لیے طے ہوا کہ ان کا نکاح سری نگر میںشیخ محمد عبداللہ پڑھائیںگے ۔ زادِ راہ کے لیے فیضؔ کے پاس پیسے نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے احوال میاں افتخار الدین کو سنائے اور رخت ِسفر کے لیے قرض طلب کیا اور حسبِ ضرورت پیسے ادھارلیے ۔ شیخ محمد عبداللہ نے 28 اکتوبر1941ء کو ایلس کیتھرین جارج اور فیض احمد خان کا نکاح پڑھایا ۔ مہر پانچ ہزار روپے قرار پایا۔ نکاح نامے پر فیض ؔ اورایلس کے ساتھ ساتھ جی۔ ایم ۔ صادق ، شیخ عبداللہ ،ڈاکٹر تاثیر اور ان کی بیگم کے بھی دستخط تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے جو معاہدہ ڈاکٹر تاثیر اور ان کی بیگم کرس کے نکاح نامے میں کیا تھا، وہی عہد نامہ فیضؔ اورایلس کے لیے بھی طے ہوا۔ شرائط میں یہ بھی شامل کیا گیا تھاکہ فیضؔ اپنی بیوی کی موجودگی میںدوسری شادی نہیںکریںگے اور ایلس کو بھی اپنے خاوند کو طلاق دینے کا پورا حق دیا گیا تھا۔نکاح کے بعد ایک سادہ اور مختصر سی دعوتی تقریب ہوئی جس میں اہل خانہ کے علاوہ فیض کے دو ترقی پسند دوست جوش ملیح آبادی اور مجاز ؔ لکھنوی نے شرکت کی تھی۔
فیضؔ کی والدہ نے ایلس کا نام بدل کرکلثوم رکھا مگر وہ ادبی دنیا میںایلس فیض ؔ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ ایلس ایک اچھی بہو ثابت ہوئی ۔وہ ایک مثالی بیوی کے روپ میں ابھری اور سلیقہ شعار ماں بنی ۔ انہوںنے جس طرح سے گھر کے انتظامات کو سنبھالا اور جس طرح سے گھر کے کاموں میں دلچسپی لی کہ اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔انہوں نے وفاداری ،سلیقہ شعاری اور محبت بھرے وفا شعار کردار اور ایثار سے ثابت کردیا کہ ایسی روایات پر صرف مشرق کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ یہ توفطرتاََ عورت کی سیرت کا حصہ ہے۔ وہ گھر کے ماحول میںاس طرح بس گئی کہ کم ہی عرصہ میںاس نے پورے خاندان کو اپنا گرویدہ بنا دیا۔فیض اور ایلس کی ازدواجی زندگی بے حد خوشگوار رہی۔دونوں میں محبت و الفت اور ایک دوسرے کو خوش کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔دونوںبہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ایلس وقت اوروعدے کی پابند تھی۔ دونوں میںسمجھوتہ اس طرح ہوا کہ فیضؔ رات گئے آتے تھے ۔ایلس کبھی بھی فیضؔ کی اس شب بیداری پر اعتراض نہیں کرتی البتہ سگریٹ نوشی پر ضرورٹوکتی تھیں کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے۔مرزا ظفر الحسن لکھتے ہیںکہ’’ ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کا ایک گُر میری سمجھ میںیہ آیا ہے کہ دونوںبہت کم ایک دوسرے سے الجھتے ہیں۔کبھی کبھی الجھن پیدا ہوجائے تو فیض کی کم گوئی اور ایلس کاصبراس کاحل بن جاتے ہیں‘‘۔
9مارچ 1951ء کو فیض گرفتار ہوگئے جس سے ان کے گھرکے مالی وسائل معدود ہوگئے اور ایک طرح سے ایلس پر مصیبت اور مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا لیکن وہ کبھی خوف زدہ نہیں ہوئی۔انھوں نے ان سب پریشانیوں کا سامنا بڑے ہی جرأت مندانہ انداز میں کیا ۔ ایک طرف بچیاں بڑی ہو رہی تھیں اور ان کی ضروریات میںروزبہ روز اضافہ ہو رہا تھا تو دوسری طرف فیض سے ملاقات کرنے کے لیے اضافی خرچہ درکا ر تھا۔ نیز دیگر اخراجات کے بڑھنے سے اس گھر کا بجٹ بری طرح سے متاثر ہو گیا تھا۔ اس بارِ گراں کو سنبھالنے کے لیے ایلس نے گھر میںراشن کا بندوبست اس وقت تک کے لیے کردیاجب تک کہ فیضؔ جیل سے لوٹ کر کام شروع نہ کر یں ۔ ایلس نے گھر کا انتظام اس طرح سوچ سمجھ کے کیا کہ جیسے اس کا سرپرست گھر سے گیا ہی نہ ہو۔ یوں ایلس نے نئی منصوبہ بندی سے مالی حالات پر حتی الوسع قابو پالیا تھا اور بچیوں کو اس کااحساس تک نہ ہونے دیا۔ فیض کے جیل جانے کے بعد ان کی دونوں بیٹیوں کی تعلیم میںخاصاخلل پڑا جس کا احساس ایلس کو تھا۔ لہذا وہ پاکستان ٹائمز کے دفتر سے نظام صاحب کو لے کر آئی۔ نظام صاحب نے سلیمہ کو حساب میں طاق اور اردو میںتیز کردیا ۔ فیضؔ کو بھی احساس تھا کہ ایلس پر اپنی اور بچیوں کی روزی حاصل کرنے کی ذمہ داری طویل ہوگئی ہے ۔لکھتے ہیں’’ مجھے اس کا پورا احساس ہے کہ تمہارے لیے یہ کوئی ہنسی کی بات نہیںہے اورتمہارے تھکے ہوئے کاندھوں پر لمبے عرصے کے بعد مزید بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔لیکن اپنا دل مضبوط رکھو اور ان لوگوں کے بارے میںسوچو جو تم سے کہیں کم نصیب ہیں‘‘۔
فیضؔ کی صرف دو بیٹیاں ہیں۔پہلی بیٹی سلیمہ 1942ء میںدلی میںپیدا ہوئی ۔ اس کو پیار سے ’’ چھیمی ‘‘ کہتے ہیںاور وہ کالج آف آرٹس لاہورکی پرنسپل رہ چکی ہے ۔اس کی شادی شعیب ہاشمی سے ہوئی ۔ دوسری بیٹی منیزہ (Muneeza) 1945ء میںشملہ میںپیدا ہوئی۔ فیضؔ اس وقت محکمۂ تعلقات عامہ میں کرنل کے عہدے پر فائز تھے، ان کو گھر والے پیارسے ’’ میزو‘‘ کہتے تھے ۔وہ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور میںپروڈیوسر ہیں۔ ان کی شادی حمیرہاشمی سے ہوئی جو شعیب ہاشمی کے سگے بھائی ہیں ۔
فیض اور ایلس ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے جو ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کی ایک نمائندہ مثال ہے۔دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے فکرمند رہتے تھے۔ایلس جب کبھی کسی پریشانی میں ہوتی تو اپنے خطوط کے زریعے فیض کو باخبر کرتی تو فیض ان کو بہت ہی خوبصورت الفاظ میں تسلی دیتے تھے۔ایلس نے فیضؔ کی اسیری کے بعد بہت سے دکھ سہے ۔ان میں سلیقہ ،ہمدردی ، ملنساری اور وفاداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔عمر بھرانہوں نے فیض ؔکے دوستوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھا۔ فیض کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کی اور بچیوں کو تہذیب اور معاشرت کا سبق سکھایا اور اپنے بچیوں کی تربیت بہت ہی خوبصورت انداز سے کی جس پر فیض کو بھی ناز تھا ۔ فیض کو احساس تھا کہ ان کی بچیوں کو ایلس سے اچھی ماں نہیں مل سکتی تھی۔فیض ؔنے اپنے اسیری کے ایک سے زیادہ خطوط میںان کو خراجِ محبت پیش کیاہے ۔اپنے خط نمبر 3 مورخہ 29 جون1951ء میںلکھتے ہیں:’’ یہ سن کر اطمینان ہو ا کہ تم اور بچے اچھی طرح ہو اور اس مصیبت نے تم لوگوں کو دل برداشتہ نہیںکیا۔مجھے تم لوگوں پر ناز کرنے کے لیے رہائی کے دن تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ ناز تو مجھے اب بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جدائی کے دکھ کے علاوہ دل میںاور کسی پریشانی کا وجود نہیں ‘‘۔
اس طرح سے فیض اور ایلس فیض کی ازدواجی زندگی میں بڑی محبت و الفت تھی اور ایک دوسرے کاخیال رکھناان کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ان کے اس بہتر تعلقات میں ایلس کا خاص ہاتھ تھا۔
فون نمبر7006566968
وہی پورہ پلوامہ کشمیر