سوال:۔ موجودہ صورتحال میں مختلف قسم کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے غسل و کفن اور نماز جنازہ کے مسائل سے آگاہ کرکے مشکور فرمائیں ۔ عنایت ہوگی۔
مشتاق احمد جانباز
جانباز کوچہ امیراکدل سرینگر
غسل ، کفن اور جنازہ کے مسائل ۔۔۔
جواب:۔موت طبعی اور عمومی طور پر ہو،جیسے کوئی شخص بیمار ہوا اور بیماری میں ہی آہستہ آہستہ موت کے قریب پہونچا اور پھر وفات پا گیا،تو ایسے مردے کےلئے غسل کفن وفن اور جنازہ کے مسائل وہی ہیں جن پر عام طورپر مسلمان معاشرہ میں عمل ہوتا ہے۔ ان میں سے چند اہم مسائل یہ ہیں۔
جب مرنے والے شخص کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ اب اس کا صحت مند ہونا مشکل ہے تو علاج معالجے سے زیادہ فکر اس کو کلمہ طیبہ پڑھانے اور توبہ استغفار کرانے کی ہونی چاہئے۔ پھر جب جان کنی شروع ہو جائے تو ایک تو اُس وقت قریب ہو کر آہستہ آواز سے کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ وہ سنے اور اس کو بھی کلمہ پڑھنے کی ترغیب ملے۔ اگر کلمہ پڑھ لیا تو اب اس سے کوئی بات نہ کی جائے تاکہ اس کا آخری کلام کلمہ طیبہ ہو ۔ اگر اس نے وہاں سے بات کی تو پھر اس طرح کلمہ طیبہ پڑھانے کےلئے تلقین و ترغیب دیں۔ پھر جب اس کی روح پرواز کر جائے اور سانس لینا وہ بند کردے تو آنکھیں بند کی جائیں۔ ہونٹ ملا دیئے جائیں او رحلق کے پاس سر کی طرف ایک کپڑا باندھ دیا جائے تاکہ منہ کھلنے نہ پائے۔ دونوں ہاتھ سیدھے کر دیئے جائیں ایسے ہی جیسے نمازی نماز میں قومہ میں کھڑا ہوتا ہے۔ بعض لوگ مردے کے ہاتھ سینے پر یا ناف پر باندھ دیتے ہیں، یہ غلط ہے، صحیح وہ ہے جو اوپر لکھا گیا۔
دونوں پائوں کو سیدھا کرکے دونوں انگوٹھے آپس میں ملا دیئے جائیں۔ بلکہ کپڑے کے ٹکڑے سے باندھ دیئے جائیں تاکہ پائوں سیدھے رہیں۔ اس کے بعد جلد سے جلد غسل کا انتظام کیا جائے ۔ پانی گرم کرنا ضروری نہیں البتہ سخت سردی میں ٹھنڈے پانی سے غسل دینے والوں کو سردی لگ سکتی ہے۔ اس لئے ان کی ضرورت کےلئے پانی گرم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز سخت سرد پانی سے مردے کا جسم اکڑ سکتاہے۔ اس لئے پانی گرم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔مردے کو نہلانے کے لئےتخت پر لٹا کر کپڑے کا ایک ٹکڑا ا سکی ستر کی جگہ پر رکھا جائے ،یہ کپڑا ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ہو۔ پھر مردے کے کپڑے نکال دیئے جائیں ۔غسل دینے والا اپنے ہاتھ میں ایک کپڑا یا پلاسٹک کا لفافہ لگا کر پھر مردے کے ستر کی جگہ کلوخ( مٹی) استعمال کرائے۔ پھر پانی سے اچھی طرح استنجا کر دیں پھر وضو کرائیں۔کُلی کرنے کےلئے روئی بھگو کر اس کے منہ کے اندر اچھی طرح گھمائیں یہ عمل تین مرتبہ کریں۔ اگر روئی کا پانی مردے کے پیٹ میں چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس طرح روئی سے اس کی ناک کو تین مرتبہ اند راندر سے تر کیا جائے۔ وضو مکمل کرنے کے بعد مردے کے پورے جسم پر پانی بہایا جائے ۔پہلے سر پر پھردائیں کندھے اور پورے دائیں پہلو پھر بائیں پہلو پر۔ اس کے بعد اگر صابن استعمال کرنا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے ۔ اگر صابن استعمال نہ کیا گیا تو پورے جسم پر تین مرتبہ پانی بہایا جائے۔ اگر پہلی مرتبہ پانی بہانے کے بعد صابن استعمال کی اگیا تو پھر دو تین مرتبہ پورے جسم پر پانی بہایا جائے۔ تاکہ صابن کا اثر اچھی طرح دو رہو جائے۔
اس کے بعد مردے کو سر کی طرف سے تھوڑا اور اوپر اٹھایا جائے اور آہستہ آہستہ اس کے پیٹ کو دبایا جائے، اگرکوئی ناپاکی اس کے جسم سے نکلے تو اس پر پانی ڈالا جائے اور اچھی طر ح میت کوطہارت کرائی جائے اس کے بعد دوبارہ جسم پر پانی بہانے کی ضرورت نہیں اس کے بعد مردے کو کفن پہنایا جائے۔ اگر میت مرد ہو تو تین چادر یں بغیر سلی ہوئی، اگر عورت ہو تو مزید دو کپڑے کے ٹکڑ جو نصف میٹر کے بقدر ہو، اس کے کفن میں استعمال کی جائیں ۔کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے میت کےلئے لفافہ جو کفن کی سب سے بڑی چادر ہوتی ہے بچھائی جائے اس کے بعد اس پر ازار جو کفن کی دوسری بڑی چادر ہوتی ہےبچھایا جائے ۔ اس کے بعد اس پر قمیص جو کفن کی سب سے چھوٹی چادر ہوتی ہے بچھائی جائے۔ قمیص اور ازار کوئی سلائی کیا ہوا کپڑا نہیں۔ قمیص کی لمبائی میت کے حلق سے اس کی پنڈلی یا پائوں تک ازار کی لمبائی سر سے لے کر پائو تک اور لفافہ سر سے ایک با لشت لمبا اور پائوں سے بھی ایک با لشت لمبا ہو ۔ ان تین کپڑوں کو کفن کہتے ہیں۔ اب پہلے قمیص لپیٹی جائے، پھر ازار لپٹیا جائے اور آخر میں لفافہ لپٹ دیا جائے اور سر کی طرف پیٹ کی جگہ اور پائوں کے نیچے کفن کو کپڑے کے ٹکڑے سے باندھ دیا جائے تاکہ کفن کھلنے نہ پائے۔
اگر میت کوئی خاتون ہو تو لفافہ ازار کے بعد سینہ بند اور اوڑھنی رکھی جائے۔ پھر قمیص بچھائی جائے۔ تاکہ کفن لیٹنے میں پہلے قمیص پھر سینہ بند پھر اوڑھنی پھر ازار اور آخر میں لفافہ لپیٹا جائے۔ دوسر طریقہ یہ ہے کہ لفافہ ازار بچھاکر میت کو قمیص پہنائی جائے۔ پھر اوڑھنی سے سر کے بال بند کریں پھر ازار پھر لفافہ او ر آخر میں سینہ لپیٹا جائے۔
اب جنازہ پڑھا جائے۔ بہتر ہے کہ جنازے کی طاق صفیں بنائی جائیں۔ جنازہ پڑھانے کا حق میت کے اقارب مثلاً باپ، بیٹا، بھائی ہو تو پہلے اُنہی کو حاصل ہے اگر وہ جنازہ نہ پڑھائیں تو جو مقامی امام ہو اس سے جنازہ پڑھایا جائے ۔ اگر مقامی امام سے زیادہ صاحب علم یا کوئی بزرگ جنازہ میں شریک ہو ں تو اُن سے جنازہ پڑھوانا بہتر ہے، مگر میت کے اولیاء اور مقامی امام سے اجازت لی جائے۔ جنازہ کی نماز جہراً نہیں بلکہ سِراً پڑھی جائےیہی سنت ہے۔ اس میں چار تکبریں ہیں جو لازم ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد ثناء دوسری تکبیر کے بعد درود شریف تیسری تکبر کے بعد مردے کے لئے دُعا مغفرت اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر اجائے۔ جنازے کی یہ چار تکبریں فرض ہیں، اس لئے امام کے ساتھ ساتھ مقتدیوں کےلئے بھی ان تکبیروں کا پڑھنا ضروری ہے۔ میت کو غسل کے بعد یا جنازے کے بعد بلا ضرورت دیکھنا بہتر نہیں ۔ ہاں اگر کوئی شخص اس وقت پہونچا ہو تو اس کو دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میت کو دیکھنے کےلئے محرم غیر محرم کی پروا ہ نہ کرنا اور اس بارے میں کوتاہی کرنا گناہ ہے۔ اس کے بعد جنازہ کو قبر کی طرف لے کر چلیں ہر شخص کوشش کرے کہ وہ میت کے تابوت یا چارپائی کو کندھا دے ۔اب قبر کے پاس مردے کو قبلے کی طرف رکھیں۔ جب قبر تیار ہو تو قبلہ کی طرف سے میت کو قبر میں بسمہ اللہ وعلی ملتہ رسول اللہ پڑھ کر لٹا دیں ۔میت کو دائیں کروٹ لٹا کر پاس مٹی یا کچی اینٹوں کا سہار ا کھڑا کریں۔ پھر کفن کو جو تین جگہ سے کپڑے کی گانٹھ لگائی گئی تھی اس کو کھول دیا جائے۔ اس کے بعد قبر کے اوپر لکڑی کے موٹے تختے یا پتھرکی سلیں رکھ دی جائیں اوراوپر سے مٹی ڈال کر قبر کو اونٹ کے کوہان یعنی جانور کی پیٹھ کی طرح بنا دیا جائے ۔پھر قبر کے سر ہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پائوں کی طر ف سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں اور مردے کے ثابت قدم رہنے کی دعا کی جائے۔ یعنی قبر میں کئے جانے والے سوالات کے صحیح جوابات دے پانے کے لئے دُعا کی جائے۔
دوسری صورت حادثاتی اموات کی ہے ۔حادثاتی اموات کی بہت ساری صورتیں ہیں ان میں وہ صورتیں بھی ہیں کہ میت کی لاش ہی ہاتھ نہ آئے، مثلاً دریا میں ڈوب گئی یا مکان نذر آتش ہوا اور اس کے ساتھ کوئی شخص بھی جل گیا اور کچھ ہڈیاں یا جسمانی حصہ ہاتھ آیا۔ اس طرح کوئی شخص درندے کا شکار ہوگیا یا کہیںبمباری کی زد میں آگیا اور جسم کے ٹکڑے ہوگئے۔اس طرح کی حادثاتی اموات کے غسل ، کفن دفن او رجنازہ کے بہت متنوع قسم کے مسائل کسی ایک ہی کالم میں بیان کرنا مشکل ہے اور یہ عموماً نا در یا کم وقوع پذیر ہونے والے واقعات ہیں۔ اس لئے اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو اس کے لئے اس وقت موقعہ پر او رمیت کی صورتحال پیش کرے کسی مستند مفتی سے تفصیلی طو ر پر مسائل کفن دفن و مسائل جنازہ معلوم کئے جائیں او رمسائل کو باعث نزاع نہ بنائیں۔ اگر میت بیمار تھا تو جسم میں لگائی گئی زائداشیاء مثلاً مشین وغیرہ الگ کر دیں جائیں ۔اگر جسم میں کوئی چیز ایسی فٹ کر دی گئی کہ وہ الگ نہ ہوسکے تو الگ کرنا لازم نہیں ہے۔ مثلاًمصنوعی دانت یا پیس میکر ، آنکھ میں لینس ہوتو ااُسے رہنے دیا جائےاور اُسی طرح دفن کیا جائے۔
سوال:۱- کسی شخص کے فوت ہونے پر بیوہ کا اس کے جائیداد میں کتنا حصہ شرعی دینا لازمی ہے۔ عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ بیوہ کو جوحصہ اداکیاجاتاہے وہ اس شرط پر اداکیاجاتاہے کہ اگر اس نے دوسری شادی کی تو وہ اس حق سے محروم ہوجائے گی۔ اس لئے عوام میں بھی اس کو تاحیات سمجھا جاتاہے۔ محکمہ مال میں بھی بیوہ کے نام کے ساتھ لفظ ’’تاحیات تانکاح ثانی‘‘ اندراج کیاجاتاہے ، یہ کس حد تک درست ہے ؟
سوال:۲-دوئم یہ کہ منتقلی جائیداد کے وقت بیٹے اور بیٹیوں کو سراجلاس بلا کر انتقالِ وراثت تصدیق کیا جاتاہے۔یہاں پر بھی بیٹیاں اکثر اپنے براداران کے حق میں جائیداد سے دستبردار ہوجاتی ہیں جب کہ وہ ابھی جائیداد کی مالک ہی نہیں ہوتی اور ’’بخش دیتے ہیں ‘‘کا جملہ استعمال کیاجاتاہے۔ بعض اوقات بیٹیوںکویہ کہہ کرمجبور کیا جاتاہے کہ آپ کو اپنے میکے میں یعنی بھائیوں کے پاس آنا جانا ہے اگر آپ نے حصہ لے لیا تو میکے میں آمد ورفت سے دستبردار ہوناہوگا اور اسی عوامی ذہنی کی بناء پر بیٹیاں بھی سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو ہم نے میکے آنے کا راستہ بند کردیا۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر آپ سے گذارش ہے کہ منتقلی وراثت کا مسنون طریقہ کیا ہے۔ براہ کرم تفصیلاً جواب سے آگاہ فرمائیں؟
ایک سائل…واتھورہ
بیوہ کے حق وراثت اور نکاح ثانی کا کوئی تعلق نہیں
جواب:-شریعت اسلامیہ نے تقسیمِ وراثت میں فوت ہوئے شخص کی زوجہ کو ہرحال میں مستحق وراثت قرار دیاہے اور یہ قرآن میں صاف صاف موجود ہے کہ فوت ہونے والے شوہر کے ترکہ میراث میں سے زوجہ کو چوتھا (1/4)حصہ ملے گا ،اگر فوت ہونے والے شخص کی اولاد نہ ہو اور اگر اس کی اولادہوئی تو پھر زوجہ (بیوہ)کو کل ترکہ کا آٹھواں (1/8) حصہ دیا جائے۔ اس سے واضح ہواکہ بیوہ کو یہ حصہ قرآن نے دیا ہے۔یعنی اللہ نے یہ حصہ مقرر کیا ہے۔ اس لئے اس حصہ کے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ تاحیات یا نکاح ثانی ‘‘ ہے غلط ہے۔ نہ محکمہ مال کے اندراج کنندگان حضرات کے لئے ، نہ بیوہ کے لئے ، نہ بیوہ کے بھائیوں یا اولاد کے لئے یہ درست ہے کہ شریعت کے مقرر کردہ حصہ کو وقتی قرار دیں۔جیسے ہر وارث کو شریعت نے حصہ دیاہے اور اس کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ جیسے چاہے اس میں تصرف کرے۔ چاہے فروخت کرے یا صدقہ کرے۔ یا کسی کو ہبہ کرے یا اْس کے متعلق شرعی طور پروصیت کرے۔ یا چاہیں جو کرے ہروارث کی طرح بیوہ کو بھی یہ حق ہے۔ اسلئے تاحیات یا نکاح ثانی کہنا ، یاسمجھنا ،لکھ کر رکھنا ہرگز درست نہیں ہے۔بہرحال شریعت اسلامیہ کی رو سے بیوہ کو ملنے والی وارثت اْس کا ایسا ہی حق ہے جیسے دوسرے وارثوں مثلاً بیٹوں کوملنے والی وراثت ہوتی ہے۔
قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرانا غیر درست
جواب:۲-والد کے فوت ہونے کے بعد جیسے بیٹے وراثت کے مستحق ہوتے ہیں اْسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہوتی ہیں۔اور یہ حق قرآن کریم نے صاف اور صریح طور پر واضح کیا ہے۔ وراثت کا استحقاق بیان کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کا مقررکردہ فریضہ ہے۔یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جواِن حدود کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اْس کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔تقسیم وراثت میں شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے پر دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ آتاہے اور یہ مسلمانوں کی غلط کاری کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ اپنی بدعملی سے اسلام پر اعتراضات کراتے ہیں۔کسی شخص کے فوت ہونے پربیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ حقِ وراثت قرآن کریم نے مقرر کیا ہے۔ بھائی کا بہن کو حصہ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حکم قرآنی پر عمل ہے۔ اب اگر کوئی بہن دل کی رضامندی سے از خود اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دینا چاہے تو اْس کے لئے بہتر اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اْس کا حصہ اْس کے قبضہ میں دے دیا جائے۔جب وہ اپنے حصہ پر قابض اور متصرف ہوجائے اْس کے بعد جب چاہے اپنے بھائی کو بطورِ ہبہ کے دے سکتی ہے۔تقسیم سے پہلے اور قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرنا غیر منقسم اور متعین مال کا ہبہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ مشاع کہاجاتاہے اور یہ ہبہ مشاع درست نہیں ہے۔