۱۸۵۷ء کی ہزیمت کے بعد جب مدرسہ غازی الدین (موجودہ قدیم دلی کالج) کے دو فضلاء یعنی مولانا قاسم نانوتویؒ اور سرسید احمد خان مرحوم نے دو الگ الگ اداروں یعنی دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی نیو رکھی تو بظاہر دونوں اداروں کا بنیادی مقصد تقریباً ایک جیساتھا یعنی مسلمانوں کو ہر ہر طرح کی بالخصوص تعلیمی پسماندگی سے باہر نکالنا۔البتہ دونوں کے طریق ہائے کار اور ترجیحات میں فرق تھا لیکن جس طرح علی گڑھ کی دینی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ٹھیک اسی طرح دارالعلوم دیوبند کی لسانی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بلاشبہ قیامِ دارالعلوم کا مقصد مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو یکجا کرنا تھا لیکن دارالعلوم کا دائرۂ کار بہت وسیع و کشادہ ہے۔اس نے دینی علوم کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ قومی و ملی اور ادبی و لسانی شعبوں میں بھی ایسے ایسے نمایاں کارنامے انجام دئے جس کے لئے یہ اتنا مشہور نہیں ہوا جتنا کہ اپنی دینی خدمات کے لئے پورے عالم میں مشہور و معروف ہے۔یہ امر مبنی بر حقیقت ہے کہ اس عظیم الشان ادارہ نے زبان و ادب کے میدان میں بھی غیر معمولی کردار نبھایا ہے اور نبھاتا رہے گا۔اردو زبان کی توسیع و ترویج اور تحفظ و بقاء کی خاطر بطورِ خاص اس کی کوششوں سے کوئی بھی حقیقت و انصاف پسند مؤرخ مکر نہیں سکتا۔ع
اُسے جب یاد کرنا تو مجھے بھی یاد کر لینا
دیوبند اور اس سے وابستہ تین ہزار سے زائد مدارس کی تعلیمی اور دفتری زبان اردو ہی ہے۔دارالعلوم کی جملہ تحریری و تقریری کاروائی آغاز سے آج تک اردو ہی میں ہوتی آئی ہے۔مولانا عبد الحمید نعمانی نے اس حوالہ سی بڑی اچھی اور سچی بات کہی ہے:
’’مدارس میں کم از کم یہ تضاد دیکھنے میں نہیں آتا کہ اردو والے کے سامنے کسی اور زبان میں اظہارِ خیال کیا جائے۔خالص اردو کے فروغ کے لئے قائم اداروں کے پروگراموں میں انگریزی و دیگر زبانوں میں تقریر یا مقالے کی خواندگی پوری سعادت مندی سے جاری ہے۔‘‘ [ماہنامہ اردو دنیا، مئی ۲۰۱۳ء، ج۱۵، ش۵]
اردو کے اشاعتی اداروں کے حوالہ سے بھی دیوبند اپنا کردار بخوبی نبھارہا ہے۔ابتدا میں مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے ’دارالاشاعت‘ اور مولانا قاسم نانوتویؒ کے پوتے مولانا محمد طاہر قاسمی نے ’مطبع قاسمی‘ کی بنیاد ڈال کر اشاعت کے حوالہ سے اردو کی توسیع و ترویج کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی اشاعتی ادارے فضلائے دیوبند کے ہاتھوں قائم ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس ضمن میں مولانا شوکت خان کا ’’نیشنل پریس‘‘، مولانا شوکت دیوبندی کا ’’آزاد پریس‘‘ اور قاضی انوار کا ’’محبوب پریس‘ ‘قابل ِذکر ہیں۔علاوہ ازیں ’’مکتبہ دارالعلوم‘‘ اور ’’شیخ الہند اکیڈمی‘‘ دارالعلوم کے اپنے دو اشاعتی ادارے ہیں۔ان مطابع اور اشاعتی اداروں نے ملک و بیرونِ ملک کے چپے چپے تک اردو زبان کو پہنچانے میں جو کارِ عظیم انجام دیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔
علیٰ الہٰذالقیاس شعبۂ خطاطی کے ذریعہ بھی دارالعلوم نے اردو زبان سے لوگوں کو قریب کیا ہے۔دارالعلوم دیوبند کے طلباء کے اندر خوش نویسی کی قوت پیدا کرنے کی غرض سے ۱۹۴۷ء میں شعبۂ خوش خطی کا قیام عمل میں لایا گیا اور بے شمار فضلاء نے خطاطی کا فن سیکھ کر دنیا بھر میں اپنے نام کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے حسن کو بھی دوبالا کر دیا۔اس سلسلہ میں طارق ابن ِ ثاقب ایک اہم نام ہے۔کولکاتہ، گجرات اور پونے وغیرہ کی درجنوں مساجد کے علاوہ امریکہ، افریقہ اور کناڈا میں بھی ان کے فن کی گونجیں سنائی دیتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس فن کے ذریعہ بھی اردو نے دور دراز اسفار طے کئے، اجنبیوں کو اپنے قریب کیا اور قلب و نظر کی تسکین کا سامان بھی بہم پہنچایا۔
اردو زبان اور طبِ یونانی کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے قیام کے صرف ۱۳ سال بعد ہی ۱۸۷۹ء میں علومِ طب کا سنگِ بنیاد رکھااور ۱۸۸۴ء میں باضابطہ شعبۂ طب کا آغاز کیا۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب نہ ہمدرد دواخانہ قائم ہوا تھا اور نہ ہی جامعہ ہمدرد مسند ِ قرطاس پر براجمان ہوا تھا۔۱۹۵۵ء میں ’’دارالشفاء‘‘کی علیحدہ عمارت تعمیر ہوئی اور ۱۹۶۳ء میں دارالعلوم میں مستقل ’’جامعہ طبیہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس جامعہ کی تعلیمی اور نظری و عملی ساری کاروائیوں کی زبان اردو ہی تھی۔مختلف شعبہ جات کے لحاظ سے دیوبند کی صد سالہ خدمات کے ضمن میں سید محبوب رضوی مرحوم نے جامعہ طبیہ کے فضلاء کی تعداد ۲۸۸ درج کی ہے۔دارالعلوم کے ایک نابینا فاضل حکیم عبد الوہاب المعروف حکیم نابینا کی علم النبض پر تحریر شدہ ’’اسرارِ شریانیہ‘‘ نامی معرکہ آرا کتاب قابلِ داد ہے۔ دیوبند کے ہی ایک اور فاضل حکیم عزیز الرحمٰن نے بھی ۲۳؍ سال جامعہ طبیہ میں درس دینے کے ساتھ ساتھ ’امراضِ صدر‘‘اور’’کتاب الرحمت‘‘ اور بارہ سو (۱۲۰۰) صفحات پر مشتمل دو ضخیم جلدوں میں اردو انگلش طبی لغت جیسی بیش قیمتی تصانیف کے ذریعہ طبِ یونانی اور اردو زبان کو ہم رشتہ کیا ہے۔
جہاں تک اردو زبان کی عالمی حیثیت کا سوال ہے تو دارالعلوم دیوبند نے نہ صرف یہ کہ ملک کے غیر اردو معاشرہ تک اردو کی روشنی پھیلائی بلکہ عالمی سطح پر بھی نکہت ِاردو کو دنیا بھر میں بکھیرنے کا روشن کارنامہ انجام دیا ہے۔اس سلسلہ میں پروفیسر سعود عالم قاسمی نے ہندوستانی مدارس کے فضلاء کی دینی، دنیاوی، تعلیمی، ثقافتی، معاشی، سیاسی اور لسانی سرگرمیوں کا بیان کرتے ہوئے جوہانسبرگ کے چار معروف مدارس یعنی دارالعلوم زکریاؒ، جامعہ اسلامیہ، دارالعلوم مسیح الامتؒ اور دارالعلوم نیوکاسل کا بطورِ خاص تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ان مدارس میں ابتدائی تعلیم سے لے کر دورۂ حدیث، افتاء اور تخصص فی الحدیث کی تعلیم ہوتی ہے۔یہاں کے مقامی طلباء کی مادری زبان اردو نہیں ہے مگر حدیث پڑھنے والے تمام طلباء کو پہلے اردو زبان سیکھنی ہوتی ہے۔ان مدارس کے بیشتر اساتذہ دارالعلوم دیوبند یا دارالعلوم کراچی کے فضلاء ہیں اور عربی کے ساتھ اردو میں تعلیم دیتے ہیں۔‘‘ [اردو کے فروغ میں مدارس کا کردار، ص ۴۰-۴۱]
اس ضمن میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ہاتھوں قائم کردہ کابل میں اردو کی پہلی یونیورسٹی، مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش) میں مولانا اطہر بنگالی کا دارالعلوم دیوبند کے طرز پر قائم کردہ پہلا اردو مدرسہ اور ایران و تہران میں اسی طرز کے دیگر مدارس آپ اپنی نظیر ہیں۔پروفیسر سعود عالم قاسمی ’مدارس اور بیرونی ملکوں میں اردو زبان کی اشاعت‘ کے زیرِ عنوان اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’راقم نے ۲۰۱۱ء میں مشہد اور تہران کی زیارت کی۔وہاں متعد ایسے علماء سے ملاقات ہوئی جو اردو زبان سے واقف تھے۔ان میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے اردو زبان میں متعد علمی کتابوں کی ترجمے کئے تھے۔مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ حضرات دارالعلوم زاہدان کے تعلیم یافتہ ہیں۔اس مدرسہ کو دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل مولانا عبد العزیز قاسمی نے قائم کیا تھا۔یہاں فارسی کے علاوہ اردو زبان پڑھائی جاتی ہے۔‘‘ [اردو کے فروغ میں مدارس کا کردار، ص ۳۸-۳۹]
تبلیغی جماعت، جو ۱۹۲۷ء سے باضابطہ مصروفِ کار ہے، کے ذریعہ مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے بھی اردو زبان کو دنیا بھر میں رابطہ کی زبان بنانے کا ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔اس وقت فضلائے دیوبند کے ہاتھوں قائم ہونے والی کسی بھی تحریک میں سب سے فعال اور اردو زبان کو استعمال کرنے والی بین الاقوامی جماعت یہی ہے۔حقانی قاسمی لکھتے ہیں:
’’اس ضمن میں محمد الیاس کاندھلویؒ کی عالمی تبلیغی تحریک کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے اردو زبان کی حد تک اردو کے فروغ میں اردو کی باضابطہ تنظیموں اور اداروں سے زیادہ فعال اور نمایاں کردار ادا کیا ہے۔صرف ایشیاء اور افریقہ نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی اردو کے تہذیبی لسانی چراغ کو روشن رکھا ہے۔‘‘ [دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، ص ۴۸]
اس تحریک کا ایک عوامی نصاب تیار کرنے کے لئے مولانا الیاس کاندھلویؒ نے اپنے لائق و فائق برادرزادہ مولانا محمد زکریاؒ کو حکم دیا اور اسی کی تعمیل میں ’فضائل ِ اعمال‘ نامی عالمی سطح پر مشہور و معروف کتاب وجود میں آئی جو اردو زبان میں ہے۔’دورِ حاضر میں اردو زبان کی کثیر الاشاعت تصانیف‘ کے زیرِ عنوان عارف اقبال لکھتے ہیں:
’’اس (فضائل ِ اعمال) کا عالمی شہرہ ہے۔اس کا ترجمہ متعد بین الاقوامی زبانوں میں ہو چکا ہے۔دورِ حاضر میں قرآن مجید کی اشاعت کے بعد غالباً یہ دوسری کثیر الاشاعت کتاب ہے۔‘‘ [سہ ماہی اردو بک ریویو، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۳ء]
جس طرح دارالعلوم دیوبند نے علمی، تعلیمی، تبلیغی، ملی اور سیاسی تحریکوں میں اردو زبان کو ترجیح اور فروغ دیا ہے اور اس کے تحفظ و بقاء کے لئے تعمیری و مثبت کوششیں کی ہیں۔ اسی طرح آزادیٔ ہند کے بعد جب فرقہ پرست عناصر نے اردو کے لئے ملک کی زمین تنگ کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں تو ایسے حالات میں بھی دیوبند اور اس کے خوشہ چینوں نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان کو اپنے گلے کا ہار بنائے رکھا اور اس کی صحت پر کوئی خراش نہ آنے دی بلکہ تحریکی طور پر بھی اس کے حقوق کی بازیابی کے لئے علم ِجہاد بلند کیا۔اس ضمن میں مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے نہ صرف پارلیمنٹ کے باہر بلکہ اس کے اندر بھی اردو زبان کو انصاف دلانے کے لئے آواز اٹھائی اور آخری دم تک اس کے لئے لڑتے رہے۔۱۹۵۱ء میں انجمن ترقی اردو کے تحت اترپردیش کے گورنر سے اردو کے حقوق کے مطالبہ کا موقع ہو یا ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی دستخطی مہم ہو یا پھر ڈاکٹر تارا چند کے زیرصدارت ۱۹۵۸ء کی اردو کانفرنس مولانا سیوہارویؒ پوری چاق و چوبندی کے ساتھ ہر ہر جگہ کھڑے رہتے اور ہر ہر حال میں حاضر رہتے۔اردو زبان کے تحفظ و بقاء اور ترویج و اشاعت کے لئے مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ کے جذبۂ خلوص اور غیر معمولی جد و جہت ناقابلِ فراموش ہے۔
تصنیف و تالیف کے حوالہ سے بھی فضلائے دیوبند نے اپنی گراں قدر تصنیفات سے بھی اردو زبان کے ذخیرہ کو مالامال کیا ہے۔قرآنیات، حدیث، فقہ، فلسفہ و تصوف، تاریخ و سیرت اور ادب و لغت کے موضوعات پر ایک سے بڑھ کر ایک کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں بعض تو اپنے موضوع کے اعتبار سے متنوع و منفرد ہیں اور بعضوں کو تو عالمی شہرت بھی حاصل ہے۔دارالعلوم کی صد سالہ کارکردگی کے ضمن میں سید محبوب رضوی نے فضلائے دیوبند میں مصنفین کی مجموعی تعداد ۱۱۶۴ بتائی ہے جب کہ اعلیٰ پایہ کے مصنفین کی تعداد ۲۷۶ درج کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے دیگر موضوعات کے ہمراہ صحافت میں بھی اپنے سکے منوائے ہیں اور اس طرح بھی اردو زبان کی زبردست خدمات انجام دی ہیں۔فضلائے دیوبند نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر صحافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ انہوں نے اردو صحافت کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے بھی سرفراز کیا ہے۔ہفت روزہ ’’الہلال‘‘و ’’البلاغ‘‘ اور ہفتہ وار’ ’ہمدرد‘‘ وغیرہ ابھی پردۂ عدم میں ہی تھے کہ شیخ الہندؒ نے اپنے دو شاگردوں یعنی مولانا مقبول الرحمٰن سرحدی اور مولانا شوکت علی بنگالی کو آزادیٔ ہند کی غرض سے چین کے محاذ پر روانہ کیا۔ان دونوں حضرات نے شنگھائی کی سیرت کمیٹی کے تحت اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ۱۹۰۵ء میں چینی اور اردو زبان کا مشترک ماہنامہ ’’السین‘‘ جاری کیا جسے چین میں اردو زبان کی پہلی اذان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
دارالعلوم کی عمر جب اَڑتالیس ہوگئی اور اس نے ۱۹۱۴ء اپنے دفتری ماہنامہ’ ’القاسم‘‘ اور ۱۹۱۵ء میں ماہنامہ ’’الرشید‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا تو ان ماہناموں کو فارسی یا عربی کی بجائے شعوری طور پر اردو زبان دی گئی جب کہ اس وقت دارالعلوم میں چوٹی کے عربی و فارسی ماہرین موجود تھے۔دارالعلوم دیوبند نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ساتھ تحریک ِآزادی اور میدانِ کارزار میں بھی اردو کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا۔چنانچہ جب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اپنے جانباز شاگردوں اور ہم نوائوں کے ذریعہ تحریک آزادیٔ ہند کی پہلی اور آخری عالمی تحریک ’’ریشمی رومال‘‘ کا آغاز کیا تو اس کا سارا خاکہ اردو زبان میں ہی تیار کیا گیا۔اس تحریک کے زیر سایہ چین میں ماہنامہ ’’السین‘‘ کے علاوہ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے امریکہ سے ’’غدر‘‘ اور فرانس سے چودھری رحمت علی پنجابی نے ’’الانقلاب‘ ‘جاری کیا جو متعلقہ خطہ کی علاقائی زبانوں کے ساتھ اردو زبان کے مشترک اخبار و رسائل تھے۔اس سلسلہ میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے ریشمی رومال پر جو تین خطوط تحریر فرمائے تھے ان کی زبان بھی اردو ہی تھی۔مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو اپنی مادری زبان یعنی سندھی کے علاوہ عربی و فارسی پر بھی دسترس حاصل تھی۔وہ ان زبانوں میں بھی یہ خطوط لکھ سکتے تھے اور شیخ الہندؒ انہیں سمجھ بھی سکتے تھے لیکن باوجود اس کے انہوں نے اردو زبان کو ہی ترجیح دی۔اس عمل کو غیر شعوری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ امر عین شعور و منصوبہ بندی سے انجام دیا گیا تھا۔
کسی بھی زبان کے ادب میں لغت نویسی کا ایک اہم کردار ہوتا ہے اور اہلیانِ علم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ لغت نویسی کسی عام قلم کار کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے شاذ و نادر صلاحیت، علمی لیاقت اور ذہنی قوت درکار ہوتی ہے۔جہاں تک لغت نویسی کا تعلق ہے تو دارالعلوم دیوبند نے اس شعبۂ ادب میں بھی نہایت اہم اور ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔اس سلسلہ میں مولانا ابو الفضل بلیاوی کی ’’مصباح اللغات‘‘، قاضی زین العابدین میرٹھی کی’ ’قاموس القرآن‘‘ و’’بیان اللسان‘‘، حکیم عزیز الرحمٰن کی اردو انگلش ’’میڈیکل ڈکشنری‘‘، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی’ ’قاموس الفقہ‘‘ اور مولانا ندیم واجدی کی ’’القاموس الموضوعی‘‘ وغیرہ بہت مقبول و معروف اور قابلِ داد و تحسین ہیں۔
تصنیف و تالیف، ادب و صحافت، طب و حکمت اور خطاطی و لغت نویسی کے ساتھ ساتھ فضلائے دیوبند نے باب التراجم میں بھی بھر پور حصہ لیا ہے۔اس سلسلہ میں مولانا حکیم اختر کی ’’معارفِ مثنویٔ رومی‘‘، قاضی سجاد حسین کی ’’مثنوی مولانا روم‘‘ و ’’ترجمہ دیوانِ حافظ‘‘، مولانا محمد اسلم کی ’’ترجمہ سیرتِ حلبیہ‘‘ اور مولانا ندیم واجدی کی ’’ترجمہ احیاء العلوم‘‘ وغیرہ اپنی نوعیت کے بے مثل کارنامے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے اپنی دینی، تعلیمی، معاشی، ثقافتی، قومی اور ملی خدمات کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی توسیع و ترویج ، تحفظ و بقاء اور اس زبان کو عالمی زبان بنانے کے حوالہ سے جو لازوال کارنامے انجام دئے ہیں انہیں کوئی بھی ذی شعور فراموش نہیں کر سکتا۔۱۹۶۴ء میں ثقافت و سائنسی تحقیقات کے مرکزی وزیر پروفیسر ہمایوں کبیر جب دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے تو انہوں نے اپنی گفتگو میں دیوبند کی دیگر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی اردو زبان کی خدمات کا پوری قوت سے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’مجھے یہ معلوم ہو کر خوشی ہوئی کہ آپ کے یہاں ذریعۂ تعلیم اردو زبان ہے۔آپ کے یہاں جو طلباء آتے ہیں ان کی زبان برمی و یا بنگالی، وہ فارسی بولتے ہوں یا انڈونیشی یا پھر انگریزی یا اور کوئی ان کی مادری زبان ہو آپ انہیں اردو تعلیم دیتے ہیں۔اس طرح آپ نے اردو کو بین الاقوامی زبان بنا دیا ہے۔‘‘ [تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج ۱، ص ۳۶۴]
رابطہ9469366682