یو این آئی
نئی دہلی//عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او)نے جمعرات کو اپنی جرات مندانہ پہل 3’بائی 35 ‘کا آغاز کیا، جس میں ملکوں سے زور دے کر کہا گیا ہے کہ وہ 2035 تک تمباکو، شراب اور شکر والے مشروبات پر ٹیکس میں کم از کم 50فیصد اضافہ کریں۔اس پہل کا آغازغیر متعدی امراض (این سی ڈیز)جیسے دل کی بیماری، کینسر اور ذیابیطس کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے معاملات سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں 75 فیصداموات کا سبب یہی بیماریاں بنتی ہیں۔ڈبلیو ایچ اوکے ہیلتھ پروموشن اینڈ ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جیریمی فرار نے یہاں ایک بیان میں کہا، ہیلتھ ٹیکس ہمارے پاس موجود سب سے موثر ٹولز میں سے ایک ہے۔اس سے نقصان دہ مصنوعات کی کھپت کم ہوتی ہے اور آمدنی ہوتی ہے جن سے،حکومتیں حفظانِ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ میں دوبارہ سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔ یہ کام کرنے کا وقت ہے۔این سی ڈیزمیں اضافہ سے عالمی صحت کے نظام پر بہت زیادہ دبا پڑا ہے، جو پہلے ہی کم ترقیاتی امداد اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں سے دوچار ہے۔حالیہ تحقیق میں ایسے اقدامات کی صلاحیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اندازوں کے مطابق تمباکو، الکحل اور شکر والے مشروبات کی قیمتوں میں ایک بار 50 فیصد اضافہ سے اگلی پانچ دہائیوں میں 50 ملین قبل از وقت اموات کو روکا جا سکتا ہے۔اس پہل کامقصد اگلے 10 سال میں ایک ٹریلین امریکی ڈالر اکٹھا کرناہے۔ 2012 اور 2022 کے درمیان، تقریبا 140 ممالک نے تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کیا، جس سے حقیقی قیمتوں میں اوسطا 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تبدیلی ممکن ہے۔بیان کے مطابق،کولمبیا سے جنوبی افریقہ تک، جن حکومتوں نے ہیلتھ ٹیکس متعارف کرایا ہے، ان کے یہاں کھپت میں کمی آئی اور آمدنی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے ممالک تمباکو سمیت غیر صحت بخش صنعتوں کو ٹیکس مراعات فراہم کرتے رہتے ہیں۔