وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے 71ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر دلی کے لال قلعے سے اپنی تقریر کے دوران اگرچہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی کے تین الفاظ ’ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ کو دوہرانے کے بجائے ایک نئے انداز ے میں 70برسوں سے چلے آرہے مسئلہ کشمیر کو آنکھ جھپکنے میں حل کرنے کافارمولہ پیش کیا کہ ’’ مسئلہ نہ تو گولی سے حل ہوگا اور نہ ہی گالی سے بلکہ کشمیری عوام کو گلے لگانے سے حل ہوگا ‘‘ ۔تاہم سال2016کے دوران کشمیر میں پیدا ہونے والی صورت حال کو دبانے کے دوران انہوں نے اشارتاًکنایتاً واضح کیا تھا کہ کشمیری عوام محض لاٹھی اور گولی کی بولی ہی ٹھیک سے سمجھتے ہیں ۔اُدھر دلی کے لال قلعے سے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے 125؍کروڑ شہریوں کو کیا یہ یقین دلایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بے حد سنجیدہ ہیں ۔اب مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کشمیر کے 4دن کا دورہ کر گئے اور اپنی تعریف میں خودکہا کہ پہلی بار وزیرداخلہ ایک سال میں چار بار گھاٹی آیا ۔ انہوں نے اپنی خوش کلامیوں اور نرم لہجے سے اخباری سرخیاں بھی خوب بٹوریں ۔ یہاں کی موجود کشیدہ صورتحال کو سمجھنے اور بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تجاویز طلب کرنے کے سلسلے میں مین سٹریم لیڈران سمیت کئی پولیس وسول وفود سے بھی وہ ملاقی ہوئے ۔ عام لوگوں کو لگ رہاتھا کہ شاید مرکزی حکومت کشمیر کے حوالے اپنی سخت گیر پالیسی کو ترک کرکے اس بار سود مندبات چیت کا عمل شروع کرے گی لیکن ایسا قطعی طور نہیں ہوا بلکہ وہی رٹے رٹائے جملے لوگوں کوسننے کوملے۔سرینگر کے ہری نواس (پاپاٹو) کے صحن میں وزیر اعظم نریندرمودی کے الفاظ کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی خاطروزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ ’’مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد(5 سی )پر مشتمل ہے ‘‘جس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ Compassion(ہمدردی)، Communication (روابط)، Coexistence( ہم آہنگی)، Confidence building(اعتماد سازی) اورConsistency(استحکام) ایسے نکات ہیں جن میں مسئلہ کشمیر کا حل پنہا ںہے جب کہ ریاست سے متعلق دفعہ 35Aسمیت کسی بھی قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی بھی یقین دہانی کراتے ہوئے سبھی متعلقین سے بات چیت کا خوب ذکر چھیڑا۔اتنا ہی نہیں سرینگر آنے سے قبل نئی دہلی میںبھی انہوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیر میں سبھی لوگوں کے ساتھ کھلے دل سے بات چیت کیلئے تیارہیں جس کیلئے کسی پیشگی شرط کا بھی انہوں نے حوالہ نہیں دیا تھا مگر نہ بات چیت ہی ہوئی ، نہ دل ہی کھلے اور نہ کشمیریوں کو کسی نے اپنے گلے سے لگایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کشمیر کے حوالے سے بات چیت کی بات ہوتی ہے تو یہ سوال لازمی پیدا ہوتا ہے کہ بات کن حلقوں سے کرنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھی اس طرح کے متعدد وفود راجناتھ سنگھ اور دیگر مرکزی اکابرین سے مل چکے ہیں تاہم چونکہ زمینی سطح پرایسے عمل سے صورت حال میں تبدیلی پیدا ہونے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ، لہٰذارات گئی بات گئی کے مصداق اگر ا س مشقِ لاحاصل کو ہر بار کی طرح اس بار بھی فوٹو سیشن کا نام دیاجائے توشاید بیجا نہ ہوگا۔ سکے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر میں چل رہی مزاحمتی تحریک اندرونی خود مختاری یا سیلف رول کیلئے نہیں بلکہ اس کا مقصد اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر مسئلہ کا منصفانہ اور قابل قبول حل ہے اور بات چیت کے اصل فریق کشمیری عوام بوساطت مزاحمتی خیمہ ہیں ، کیونکہ اس فریق کو الحاق کشمیر پر تحفظات ہیں اور وہ آئین ہند سے باہر بات چیت پر زور دیتارہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہند کیلئے اگر واقعی کشمیر حل کے لئے کسی کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تو وہ یہی طبقہ ہے۔مزاحمتی طبقہ ہی بنیادی معاملات پر دلی سے اختلافی موقف رکھتا ہے ، لہٰذا معاملہ فہمی اورمفاہمتی اصولوں کا تقاضا ہے کہ ناراض لوگوں سے ہی بات کی جانی چاہئے، تاہم دلی اس معاملے میں ہمیشہ التا کر تی چلی آئی ہے ،اس سے یہاں کی زمینی صورت حال پر بالکل بھی کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ سب دائرے کا سفر ثابت ہوتا ہے۔جن لوگوںکوبات چیت میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ،انہیں پہلے تو صرف علیحدگی پسند کہاجاتا تھا لیکن جب نئے حالات میںانہیں دہشت گرد قرار دئے جانے کی مہم جاری ہو اورحکومت ہند کی نظرمیں گیلانی،میرواعظ اور ملک سمیت سارے مزاحمتی لیڈران اور کارکن اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیںتو ظاہر سی بات ہے کہ ان سے کیا بات چیت کی جاسکتی ہے؟
اپنے اقتدار کے تین برسوں کے دوران دلی کشمیر کے حوالے سے انتہائی سخت گیر موقف پر قائم ہیں اور کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضرورت سے زیادہ طاقت اور قوت کا استعمال عملا رہی ہے جب کہ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو پیسوں کی ریل پیل سے جوڑ کر یہ تاثر دینے کی پیہم کوشش کی جارہی ہے کہ یہاںمزاحمتی تحریک کے نام پر اصل میں حوالہ رقوم کا دھندا کیاجارہا ہے لیکن اس سخت گیر انہ پالیسی کا آج تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا بلکہ حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ اس وجہ سے کشمیر کے حالات دن بہ دن بد سے بد تر ہوتے چلے گئے کہ ایک طرف سے ملی ٹنسی کا گراف کافی اوپر چلا گیا ۔ایک عرصہ سے زیادہ سے زیادہ نوجوان مسلح جھڑپوں کے دوران مارے جارہے ہیں۔ نئی دلی نے گزشتہ سال ہنگامہ خیز حالات کے دوران کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے بیچ پاکستان کو روایتی طور مورود الزام ٹھہراتے ہوئے ’’پانچ فیصد‘‘ کا شوشہ کھڑا کر کے دعوی ٰکیا کہ’’ مٹھی بھر نوجوان پاکستان کے بہکاوے میں آکر‘‘ کشمیر میںحالات بگاڑنے میں مصروف ہیں لیکن زمینی حقیقت کچھ اور تھی ۔ بہرحال قبل ا زیں نریندر مودی نے پہلے واچپائی سے مستعار ’’جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت‘‘ ہم قافیہ لفظوں کااستعمال کر کے کافی کوشش کی کہ اس فقرہ بازی سے کشمیر ی عوام کو اپنی جانب متوجہ کریں لیکن ا س کاکوئی اثر دیکھنے کو نہ ملا۔فی الوقت کشمیر میں عوامی حلقوں میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ مودی صرف باتیں کرتے ہیں، عملاً کوئی اقدام نہیں کرتے اور ان کی تقریریں محض زبانی جمع خرچ ہوتی ہیں ۔ دراصل بھارت افہام وتفہیم کے بجائے علی الاعلان کہتا ہے آئو جو کرنا ہے وہ کر لو۔ کشمیر اگر دوسرا فلسطین ہے تو بھارت یقیناً دوسرا اسرائیل ہے جوامریکا، سوویت روس اور مغربی طاقتوںکا مشترکہ پیدا کردہ ناسور ہے۔فی الوقت مودی حکومت کی جانب سے مسلح فورسز کو اگلی صفوں میں کھڑا کردینے اور انہیں صورت حال سے نمٹنے کے پورے اختیار ات دئے جانے سے ایک بات واضح ہورہی ہے کہ نئی دلی محض اس خطے پر طاقت کے بل پر مسلط ہونے سے گریزاں نہیں اور اس کا یہ کہناکہ ہم کشمیریوں کاگلے لگا نا چاہتے ہیں ، محض ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ اس کے برعکس کشمیر کی موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے، جس سے کشمیری عوام کو یہ یقین دہانی مل سکے کہ حل طلب مسئلہ کا نپٹارا مسلسل گفت و شنید کے ذریعے کیا جائے گا۔جموں وکشمیر میں ڈیولپمنٹ اور ترقی کے نام پر سیاست گذشتہ 70برسوں سے جاری ہے، جب کہ اصل مسئلہ جوں کا توں ہے۔ بارہا یہ امر ثبوت وشواہد کے ساتھ تسلیم کیاجاچکا ہے کہ ترقیاتی پیکیجز سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے بلکہ کور ایشو یعنی کشمیر مسئلہ کو کھلے دل اور نیت خلوص سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ۔اربا ِ ب ِاقتدار اس غلط فہمی میں بھی نہ رہیں کہ این آئی اے جیسے آوپریشنوں سے یہاں کی مزاحمتی تحریک دب جائے گی ۔نئی دلی اگر واقعی مسئلہ کا حل چاہتی ہے تو اس پر یہ لازم وملزوم بلکہ ضروری ہے کہ مزاحمتی قیادت اور پاکستان کو بیک وقت بات چیت میں شامل کیا جائے تاکہ کشمیر قضیہ کا متفقہ مذاکراتی اور ٹھوس حل نکالاجا سکے ۔
نوٹ:مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے ساتھ وابستہ ہیں
رابطہ:9797205576،[email protected]