عروج جہاں
رُخسانہ نے اپنے فیرن سے گرد جھاڑی ۔
جھاڑو ایک طرف رکھ دیا اور گیس کا چولہا بند کر دیا، جس پہ چائے پک رہی تھی۔
چائے کپ میں انڈیلی اور کانگڑی تھامے کچن کے ایک کونے میں جا بیٹھی۔ چائے کا کپ لبوں تک لے جانے کے سفر نے رُخسانہ کو خیالات کی ایک بھنور میں دھکیل دیا۔
شوہر کی سختی، اپنی اکلوتی اولاد کی ذمہ داریاں بھی ، خاص طور پر بیٹی کے مستقبل کی فکر، گھر کا نظام سنبھالنا اور رشتے داروں کے ساتھ نازک تعلقات کو قائم رکھنا، یہ سب اس کے ذہن میں سیلاب کی مانند اُمڈ آئے۔ چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ ایک اور فکر اس کے دل پر چھا جاتی۔
دروازے پر دستک نے اس کے خیالات کے دھارے کو روک دیا۔ اس نے ہلکے سے سر جھٹکا اور پردے کے پیچھے سے جھانکا۔ یہ اس کی بیٹی امانت تھی جو اسکول سے واپس آئی تھی۔
رُخسانہ کی نظر سر سے پاؤں تک اس پر گئی۔ امانت کا قد اور اس کی بڑھتی ہوئی جسمانی بناوٹ اکثر اسے گہری بے چینی میں مبتلا کر دیتی تھی۔ اپنی عمر سے بڑی اور جوان ہوتی ہوئی امانت کی صورت دیکھ کر رُخسانہ کے دل میں بے شمار وسوسے جنم لیتے۔
“کتنی بار کہا ہے کہ دوپٹہ ٹھیک سے سر پر رکھا کرو اور ایک بڑی چادر اوڑھا کرو جو تمہارے جسم کو مکمل ڈھانپ لے!” رُخسانہ نے آدھے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ “کیا تم چاہتی ہو کہ میں محلے والوں اور رشتہ داروں کی باتیں سنوں؟”
جواب کا انتظار کئے بغیر وہ واپس کچن میں چلی گئی اور آدھی چائے کا کپ سنک میں انڈیل دیا۔
“اماں! میں نے دوپٹہ لیا ہوا ہے۔ کوٹ کے اوپر چادر کیسے لے لوں؟ عجیب لگوں گی اور سب میرا مذاق اڑائیں گے،” امانت نے تلخی سے جواب دیا۔
“تو ایسے کپڑے پہنو ہی نہ جن پر چادر نہ اوڑھی جا سکے،” رُخسانہ نے نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ “تمہیں پتا ہے تمہارے ابا۔ اگر انہوں نے تمہیں اس حالت میں دیکھ لیا تو تم جانتی ہو وہ تمہارے ساتھ اور میرے ساتھ کیا کریں گے۔”
رُخسانہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ امانت ابھی سولہ برس کی ہوئی ہے، ایک ایسی عمر جو بے قراری سے بھری ہوتی ہے۔ سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا، نئے کپڑے اور جوتے خریدنا، اور زندگی کو آزادانہ جینے کی خواہش کرنا ، یہ سب اس عمر کے قدرتی تقاضے ہیں۔ لیکن رُخسانہ کو اپنے شوہر کے مزاج کا بخوبی علم تھا۔ طاہر ایسی کسی بات کو برداشت نہ کرتا۔ اگر اسے ذرا بھی شک ہوتا کہ امانت کے رویئے یا لباس میں کچھ بھی غلط ہے، تو وہ اسے زمین میں زندہ دفن کرنے سے گریز نہ کرتااور ساتھ ہی رُخسانہ کو بھی رسوا کر دیتا۔
شادی کے ابتدائی مہینوں میں طاہر ایک اچھا شوہر تھا۔ وہ رُخسانہ کا خیال رکھتا، اس سے باتیں کرتا اور ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھاتا لیکن جب امانت پیدا ہوئی تو وہ یکسر بدل گیا۔
رُخسانہ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ طاہر اتنا سرد مہر ہو جائے گا۔ دن بہ دن وہ سنگدل، بے حس اور ناقابل برداشت ہوتا گیا۔ جب تک رُخسانہ اس تبدیلی کی وجہ سمجھ پائی، سولہ سال گزر چکے تھے۔
پچھلے پچیس سالوں سے تاہر ایک کریانے کی دکان پر کام کر رہا تھا۔ وہ حساب کتاب اور سامان کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔ اس کی زندگی ایک مشینی انداز میں گزر رہی تھی۔ وہ فجر کی نماز کے لیے اٹھتا، خاموشی سے چائے اور روٹی کھاتا، رُخسانہ کے تیار کردہ ٹفن کو اٹھاتا اور دکان پر چلا جاتا۔
جوتے پہنتے ہوئے وہ ہمیشہ رُخسانہ کی طرف دیکھے بغیر سخت لہجے میں کہتا:
“مجھے کسی کے منہ سے کچھ نہ سننا پڑے۔ اپنی بیٹی کی حفاظت کرنا۔”
پچھلے سولہ سال سے رُخسانہ یہ جملہ ہر صبح سنتی آ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سر ہلا دیتی اور کچھ نہ کہتی۔
طاہر سارا دن دکان پر رہتا اور شام کو آٹھ بجے کے قریب گھر آتا۔ رُخسانہ کھانے کا انتظام کرتی، امانت کو بلاتی، جو سہمی ہوئی ایک کونے میں بیٹھتی اور تینوں خاموشی سے کھانا کھاتے۔ کھانے کے بعد طاہر اپنے کمرے میں چلا جاتا۔
یہی معمول سولہ سالوں سے چل رہا تھا ۔ایک ایسا معمول جو کبھی نہ بدلا، نہ ڈھیلا پڑا اور نہ ہی سانس لینے کی گنجائش دی۔
“جاؤ، کپڑے بدل لو، میں تمہارے لئے کچھ بناتی ہوں،” رُخسانہ نے امانت سے کہا، بغیر اس کی طرف دیکھے۔
“نہیں اماں، میں شمیلہ کے گھر جا کر اس کے نوٹس لے آتی ہوں۔ آ کر کچھ کھا لوں گی،” امانت نے جواب دیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
رُخسانہ اس کے پیچھے کمرے میں گئی اور سختی سے کہا، “نہیں، تم ابھی کہیں نہیں جاؤ گی۔ صبح اسکول سے لے لینا۔ اگر تمہارے اُبا نے تمہیں دیکھ لیا، تو مسئلہ ہو جائے گا۔”
امانت ہمیشہ اپنی ماں کے چہرے پر خوف کی یہ پرچھائیاں دیکھ کر حیران رہتی۔ اس کے خیالات اپنی سہیلیوں اور ان کے والدین کی طرف بھٹکنے لگتے۔ اسے یاد آتا کہ شمیلہ کے والد کس طرح اسے اسکول چھوڑنے یا لینے جاتے تھے اور وہ ان لمحات کی باتیں بڑی خوشی سے سناتی تھی۔ امانت بھی چاہتی تھی کہ اس کے والد اسے اسی محبت سے دیکھیں لیکن وہ ایک باپ کے ہوتے ہوئے بھی خود کو یتیم سی محسوس کرتی تھی۔
وہ بہت ساری باتیں جو امانت اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کی طرح کر سکتی تھی لیکن وہ سب امانت کے لیے منع تھیں۔
اسے اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت نہیں تھی۔ نہ اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کی اور نہ ہی جوانی کی معصوم خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی۔
اسے اپنی ذات بننے کی اجازت نہیں تھی، —ایک ایسی نو عمر لڑکی جو روشن خوابوں اور زندگی سے بھرپور جوش و خروش سے معمور ہوتی۔
اس کی ہنسی دبا دی گئی، اس کے خواب دھندلا دیئے گئے اور اس کی جوانی کو خوف اور پابندی کی دیواروں میں قید کر دیا گیا۔
اسے ایک واقعہ آج بھی یاد تھا۔ ایک دن جب وہ اسکول سے گھر واپس آ رہی تھی تو ایک لڑکے نے اس سے بات کرنے کے لئے قریب آ کر اس کا راستہ روک لیا۔ امانت سڑک کے درمیان رک گئی، جیسے پوری سردیوں کی برف اس کی روح میں سرایت کر گئی ہو۔ طاہر نے دور سے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ بغیر کسی لفظ کے اس نے امانت کو گھر کھینچ لیا اور سات دن تک کمرے میں بند کر دیا۔ صرف رُخسانہ کی مسلسل منتوں کے بعد اسے کھانا دیا گیا۔
ایسی ہی کئی وارداتیں امانت کی یادوں میں گہرے نشانات چھوڑ گئی تھیں۔
“اماں! میں بس دو گلیوں تک جا رہی ہوں، دس منٹ میں واپس آ جاوں گی,” امانت نے منت کی، اس کی آواز میں بے قراری تھی۔ “کل میری ہوم ورک جمع کرانی ہے، ورنہ استانی مجھے ڈانٹے گی۔”
رُخسانہ سختی سے انکار کرنا چاہتی تھی، لیکن اپنی بیٹی کی آنکھوں میں موجود بے بسی نے اسے مجبور کر دیا۔
“ٹھیک ہے، مگر بیس منٹ میں واپس آ جانا۔ میں آنگن میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں,” رُخسانہ نے کہا، ہار کر۔
“ٹھیک ہے، اماں! میں فوراً واپس آ جاؤں گی،” امانت نے کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
رُخسانہ نے چھت کا جھاڑو لگانے میں خود کو مصروف کر لیا لیکن اس کا دماغ بے شمار خیالات میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جب امانت واپس آئے گی تو وہ اسے کچن میں کمبل بچھانے میں مدد کے لئے کہے گی۔
لیکن تیس منٹ گزر گئے اور امانت واپس نہیں آئی۔ ان تیس منٹوں میں رُخسانہ نے تیس گلاس پانی پیا اور تیس بار دروازہ کھولا، یہ امید کرتے ہوئے کہ شاید اس کی بیٹی آ جائے۔ مگر امانت کہیں نظر نہیں آئی۔
اپنی بے چینی کو روک نہ پاتے ہوئے رُخسانہ نے دروازہ باہر سے بند کیا اور شمیلہ کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ وہ ابھی آدھا راستہ ہی طے کر پائی تھی کہ سامنے سے طاہر آتا دکھائی دیا۔ اس کی بانہوں میں کچھ تھا۔
جب وہ قریب آیا تو رُخسانہ نے دیکھا کہ وہ امانت تھی، وہی امانت جسے اللہ نے ان کے حصے میں دیا تھا،اب جیسے وہ واپس لے لی گئی ہو، جیسے انہوں نے اس امانت کو خیانت سے کھو دیا ہو؟
رُخسانہ کے کاندھوں پر آسمانوں کا بوجھ گر گیا۔ اس کے ہاتھ بے جان ہو کر نیچے لٹک گئے۔ اس کی نظریں طاہر سے ملیں لیکن اس کے چہرے پر نہ کوئی ندامت تھی اور نہ کوئی جذبات۔ وہ وہاں سرد اور بے پرواہ کھڑا تھا اور اسے سرد نگاہوں سے گھور رہا تھا۔
رُخسانہ کے ہونٹ کپکپا رہے تھے، مگر الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ اس کے قدم زمین میں جڑ گئے، اور اس کی دنیا ٹوٹ کر بکھر گئی۔
���
ٹیچر مدرسہ تعلیم الاسلام ترال، پلوامہ، کشمیر