حمیرا فاروق ۔آونیرہ
انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ راحت ،آسانی ،عیاشی اور سکون کا تذکرہ سنتاہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ میں بھی اس وادی کا ایک شہری بنوں، جہاں مجھے دنیا کے غموں ، مصیبتوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے ۔لیکن یہ سوچتا نہیں کہ ہر آسانی اور سکون کے لیے مجھے کچھ نہ کچھ اس بھری محفل میں گنواں دینا ہے جو مجھے اتنا غافل کر دیتی ہے کہ میں اپنے خالق کو ہی بھول گیا ۔جہاں میں نے اپنے وجود کو ریزہ ریزہ کر کے دنیا کی لذتوں میں لُٹا دیا ۔ دراصل انسان کی ذہن سازی اس طریقے سے کی گئی کہ وہ اس حقیر دنیا کو ہی اپنا کُل توشہ سمجھ بیٹھا ۔اس کے لئے سکون صرف ایک لفظ تک ہی محدود رہا ۔ خوشی کی مٹھاس سے انسان محروم رہ گیا ۔ اصل خوشی صرف خدا دوست کے چہرے پہ مل جائے گی۔ کیوںکہ وہ اپنے معاملات کا قاضی رب کوبناتاہے جو اس کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا ، اور جب انسان اپنے معاملات کا قاضی رب کے ماسوا کسی اور انسانی طاقت کو بنا دیتا ہے تو زوال مقدر بن جاتا ہے ۔ عیاشیوں میں بھی محو فنا فی اللہ کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ دنیا دار کو، کیونکہ وہ دنیا کے غموں سے مبّرا ہوتا ہے ۔راحت و آسانی کی زیست گزارنے والا شکر و صبر کرنے والے ہی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر قدم پہ رب کو اپنا حاکم تصور کرتے اور دل میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ جو کرتا ہے بندےکے لیے بہتریں ہوتا ہے ۔ بذات خود رب کو نہ پہچاننے والا ان تمام نعمتوں سے محروم ہوتا ہے ۔یہ کوئی ظلم نہیں کہ اس پر کیا جائے بلکہ یہ اس کا ضمیر ہے جو کبھی ان چیزوں کے لئے بیدار ہی نہ ہوا ہوتا ہے، انسان نیکی اور حقوق کے معاملے میں اتنا آلسی بن گیا کہ خود کو عذاب سے ہی نہیں بچا سکتا،بھلا دنیا اس سے خیر کی کیا توقع رکھیں ۔یہ دنیا کے حرص و لالچ کا اس طرح قیدی ہو چکا ہوتا ہے کہ نکلنا دشوار ہو جاتا ہے ۔ جس طرح ایک شخص جنگل میں پڑا ہوا ہوتا ہے اور بھوک سے نڈھال ہو کر اس کو نیند پڑ جاتی ہے اور خواب میں کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے، لیکن وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوتی ۔حقیقتاً جب یہ شخص بیدار ہو جاتا ہے تو بھوکا ہی بیدار ہو جاتا ہے ۔دراصل یہ احمق خود کوشش نہیں کرتا کہ جنگل سے نکل کر آبادی کی اور آجاؤں جہاں جینا آسان اور سہولیت میسر ہوگی بلکہ بس سوچتا رہتا ہے اور اس کو سوچوں کا سفر اتنا تھکا دیتا ہے کہ ایک دن وہ بھوک سے نڈھال اور ننگا جسم ہو کر موت کا شکار ہوجاتا ہے ۔
یہ حال آج کل پوری امت کا ہے کہ ہم اس چیز کے خواہاں رہتے ہیں جہاں ہمیں زندگی کی ہر آسائش مل جائے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا حال بہتر سے بہترین ہو ۔جہاں ہماری شخصیت کی قدردانی کی جائے اور ہم جس پسماندگی کے آج کل پھر سے شکار ہو رہے ہیں، اس سے نکل جائے ۔لیکن اس کے لیے ہم کتنی کوششیں کرتے ہیں ۔اس کا نتیجہ آج کل ہمارے سامنے ہے ۔جہاں ہماری بے ضمیری دریائےفرات کو تڑپا رہی ہیں ۔ اگر ہم اہل حق ہوتے تو آج انسانیت کا قتل عام نہیں ہو جاتا ۔ہم محض مفاد اور دکھاوے کے لیے اتنے گر جاتے ہیں جس سے دوسروں کی روح مجروح ہو جاتی ہے ۔
اگرچہ انسان کو اللہ نے افضل ترین مقام عطا کر کے باقی تمام مخلوق سے مستثنیٰ رکھا ۔ انسان کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ اگر رب نے مجھے فہم و فراست سے نوازا تو اس کو خیر خواہی کے لیے میں استعمال کروں ۔پہلے خود پہ توجہ دیں کہ ہمارے عقبی اور دنیا کیسے بہتر رہے گی تاکہ ہم کسی کے لیے رہنما بن جائے اور لوگ آپ کی شخصیت پہ ناز کریں ۔سکون اگرچہ دنیا میں عدم ہے لیکن جس چیز میں وہ پنہا ں ہے، اسی چیز کو عملی جامہ پہن کر ہم بھی راحت کی زیست گزاریں، جہاں خوشیوں کے پھول لہلہاتے ہوں ،اُمیدوں کے باغات کھل رہے ہوں ،عیاشوں کے بازار لگے ہوں، راحت کی سواری پہ ہر بندے خدا اس طرح سوار ہو جائے کہ گرنے کا نام نہ لیں، اس کے لیے خودشناسی ضروری ہے۔ اس کے بعد خدا شناسی ہمارے اندر خود بہ خود آجائے گی، جب ہم خود ہی کے قدر شناس بن جائیں گے تو خالق کی تخلیق دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی نظر آنی لگ جائے گی پھر دنیا کے مکر و فریب سے انسانی کی آزادی حاصل ہوگی ۔یہ دنیا ہماری نظروں میں ایک بے وقعت خزانہ بن جائے گا، جس کے قریب آکر ہی ہم اس سے بھاگنے کی کوشش کریں گے ۔پھر انسان خوابوں کو حقیقت اور حقیقت کو خواب تسلیم نہیں کر پائے گا ،جہاں وہ خیالی کے چیزوں کو چھوڑ کر حقیقت کی اور آجائے گااور پھر جہاں جہاں بھلائی نظر آنے لگے، اس میں اس قدر غوطہ لگائیں کہ برائی نام کی کوئی چیز اندر باقی نہ رہیں ۔پہلے خود اور پھر دوسروں کو بھی حقیقت اور سچائی کا درس دیں اور اس شہر کے مکین رہیں ،جہاں حق کے پیمانے نافذ شدہ ہو، جہاں مجرم کو اس کے جرم کی سزا دی جائے ۔بھلائی کرنے والوں کو شاباشی اور گنہگاروں کو ٹوکا جائے ۔
اس شہر کو بنانے کے لیے ہمیں اپنے اندر کے شہر کو سب سے پہلے بدلنا پڑے گا ۔جہاں جہاں فسادات نے ہمارے دلوں میں جنم لیا ہوگا، اس کی جڑیں وہاں مٹا دینی ہوگی۔جہاں نفرت جسم میں پنپنے لگے تو اس کو ختم کر لیا جائے ۔ خوشی سکون اور راحت کی ان راہوں کے متلاشی بنے رہیں کہ سفر خدا کی اور ہوں اور نیت اس کی رضا ۔ وہی دراصل سکون اور خوشی کی زندگی عطا کرتا ہے جہاں ہم خیالوں کی دنیا سے نکل کر اپنا ایک ابدی گھر تیار کر لیتے ہیں ۔جہاں ہر وہ چیز میسر رکھی جائے گی جس کی ہم تمنا کریں اور ہماری دنیا کے ادھوری خواہشیں وہاں مکمل ہو جائے گی اور اس گھر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا کوئی زوال نہیں نہ ہی طوفان اس کو اکھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی زلزلہ اس کو ہلا سکتا ہے ۔ الغرض وہاں مصیبتوں کا نام و نشان مٹا دیا جائےگا اور زندگی اس قدر پاک ہو جائے گی کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔لہٰذا ہر چیز میں رب کی رضا تلاش کریں اور عملاً ثبوت دیں کہ میں واقعی ایک کمزور بندہ ہوں اور اللہ تبارک و تعالیٰ میرا رب ہے ۔ سکون، راحت ،عیاشیاں سب آپ کی زندگی کا ایک اہم حصہ اس طرح بن جائے گا جو کہ کبھی جدا نہیں ہوگا ۔ لیکن اس کے لیے خوابوں خیالوں کی دُنیا سے نکل کر عملاً اور حقیقتاً اس کا ثبوت دینا ہوگا ۔ خوابوں میں رہنے والا صرف ایک بے وقوف اور ذہنی بیمار ہی رہ سکتا ہے ۔ایک صحت مند ذہن ہمیشہ حقیقت کی اور رجوع کرنے والا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کو بھی ایک صحت مند ذہن نصیب فرمائے تاکہ ہم اہل سکون و راحت بن جائیں اور ہم اپنی دنیا اور عقبیٰ بہتر بنا سکیں ۔آمین
[email protected]