بازار میں ایک دیرینہ دوست کبیرؔ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔علیک سلیک اور ہر دو جانب خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد میں نے اُن سے پوچھا کہ گھر یلو پوشاک میں نہیں بلکہ جنٹلمین ڈریس میں ہونے کا سبب کیا ہے ۔کیا کسی خاص کام سے کہیں گئے تھے ۔جواب میں انہوں نے مسکراکر کہا کہ کام خاص ہی تھا ۔دراصل وہ چھوٹے کو سکول میں داخل کرانے گئے تھے ۔ میں نے اُن کو مبارک باد دی اور اس بات سے اختلاف کیا کہ وہ چھوٹے کو سکول میں داخل کرانے گئے تھے ،وہ حیرانگی سے بولے:
’’ارے جناب !میں سچ عرض کررہا ہوں کہ میں نے چھوٹے کو ابھی ابھی سکول میں ایڈمشن دلایا ہے۔‘‘
جواب میں میں نے کہا: ’’نہیں حضور !میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ نے چھوٹے کو سکول میں نہیں بلکہ ایک دکان میں داخل کرایا ہے ۔ہاں میں صحیح عرض کررہا ہوں۔‘‘
’’کمال ہے !دوکان میں ،یعنی کیا مطلب ہے آپ کا ؟میں کچھ سمجھا نہیں۔ارے صاحب سکول دوکان کیسے ہوگیا ؟‘‘کبیر صاحب حیران ہوکر بولے۔
’’ہاں ! میں ٹھیک ہی عرض کررہا ہوں ۔ ریاست میں گنے چنے سرکاری سکول ہی رہ گئے ہیں ،وہ بھی ہائر سیکنڈری لیول کے جو دیہاتوں اور قصبوں میں ہیں۔مڈل اور پرائمری سکولوں میں حاضری اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔باقی شہروں اور قصبوں میں دوکان کھولنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے، جن میں دو سال کی عمر سے ہی بچے کو انٹری ملتی ہے ۔کریچ اور پلے سکولوں میں بچے کو سکول اوقات کے دوران پوری دیکھ بھال کی جاتی ہے ،اُسے سکول میں پیشاب ، پاخانہ اور سلایا جاتا ہے اور ماں کوڈھونڈنے یا مچلنے کی صورت میں اُسے ڈوز دے کر چپ کراکے گہری نیند میں ڈالا جاتا ہے ۔یہ شروع سے غیروں کے ہاتھوں پالن پوشن اور تعلیم و تربیت وغیرہ کی وجہ سے بچہ ماں باپ کی ممتا اور پیار سے ونسچنت رہ جاتا ہے اور بعد ازاں یہ منفی اثرات اُس کی تمام زندگی پر مرتب ہوجاتے ہیں ۔اخبارات میں ماں باپ کی خدمت گزاروں کے لئے دایہ کے ایڈ اس کا ادنیٰ سا ثبوت ہے ۔بچوں کی یہ دُردشنا نہیں ہوجاتی اور بعد میں عملی زندگی میں آکر وہ بھی بے مروت ثابت نہیں ہوتے مگر اُس کی وجہ صرف مستورات کا فیلڈ میں آکر ملازمت کرنا،برابری کے حقوق چاہنا اور گھر کی چار دیواری سے نکل کر آزادانہ مرد و زن کے اختلاط اور دوش بدوش کام کرنے کا متمنی ہونا ،بہ الفاظ دیگر چراغ ِخانہ سے شمع محفل بننا ،بوائے فرینڈ کے نئے فیشن کی داغ بیل ڈالنا وغیرہ ہے ۔اگر ہم اس پر کچھ کہیں گے تو ہمیں ہزار نام ملیں گے ،اس لئے اپنی پگڑی کو سنبھالنا ہی مصلحت ہے ۔البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ سوسائٹی پر خصوصاً اسلامی سوسائٹی پر اس کا کتنا منفی اثر پڑتا ہے اور خانگی معاملات کس حد تک متاثر ہوتے ہیں، وہ اظہر الشمس ہے ۔بہر حال آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی عرض کرتا چلوں ؎
شہر میں اخلاق ؔ اب یہ کوئی کہہ سکتا نہیں
آگ کے شعلوں کی زد سے میرا گھر محفوظ ہے
کبیرؔ میاں !اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری سکولوں ،وہ چاہے پرائمری ، مڈل ،ہائی یا ہائر سیکنڈری ہوں ،وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ تعینات ہوتے ہیں مگر وہ اپنا حاصل شدہ علم خزانۂ مغز تک ہی محدود رکھتے ہیں اور اُسے طلباء و طالبات کے ساتھ شیئر نہیں کرتے ۔البتہ جب وہ اپنے گھروں میں کلاس ہا لیتے ہیں اُس وقت وہ اپنے خزینوں کو تھوڑی سی ہوا دے دیتے ہیں ۔سرکاری سکولوں میں اب بچوں کی تعداد برائے نام ہی رہ گئی ہے مگر یہ بھی ایک صداقت ہے کہ بچوں کو وہاں ڈھنگ کی کوچنگ نہیں ملتی ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سرکاری سکولوں سے اجتناب کرتے ہیں اور پرائیویٹ دوکان نما سکولوں کی طرف راغب رہتے ہیں۔جہاں ٹیپ ٹاپ کے سوداگر ہیں ،جنہیں قوم کے مستقبل کی کردار سازی اور تعلیم و تعلم سے زیادہ دلچسپی اور دھیان اپنی تجوریوں کی طرف ہوتا ہے ۔نہیں تو کیا وجہ ہے کہ دین کے نام پر قائم ہونے والے سکول جو قوم کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے لئے برائے نام فیس لینے کا نعرہ دے کر میدانِ عمل میں اُترے تھے اور اُن کے جذبہ کو آفرین کی داد کے ساتھ عوام الناس نے خیر مقدم کیا تھا ۔۔۔۔آج وہی قوم کو دو دو ہاتھوں لوٹ رہے ہیں۔
سکول چاہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ ،ایک اعلیٰ پایہ کی منفرد و متبرک جگہ ہے بلکہ اُس کا کھولنا یا شروع کرنا بھی ایک بلند پایہ عمل اور عبادت ہے ۔اگر نیک جذبے کے ساتھ ایسے ادارے کھولے جاتے اور مدعا یہی ہوتا کہ اپنے ملک و قوم جو صدیوں سے پچھڑا اور اغیار کے استحصال اور دست ِتطاول کا شکار رہا ہے ۔۔۔۔کی ذہنی نشو ونما کے ساتھ دنیاوی ترقی بھی ہوگی ۔ہم بھی دوسروں کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرأت رندانہ اور اُس ذلت آمیز زندگی جس میں ’’ہاتو‘‘کا لقب ملتا تھا اور بے گار لی جاتی تھی، کو یکسر بھول کرمعتمدن اور ترقی یافتہ دنیا کی دوڑ میں شامل ہوجاتے اور یہ مقصد ہوتا کہ کل کے لئے ایک پود تیار کرنے ہے جو اپنی قوم کی ذمہ داریوں کو اٹھانے والے ستون ثابت ہوں گے تو اُس سے بڑھ کر اور کونسا جذبہ ،کونسا عمل یا کونسا نیک کام ہوسکتا تھا ،مگر مشاہدہ یہی ہے اور عمل ِزندگی میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ سکول کھولنے کا مقصد صرف مالی منفعت یا پیسہ بٹورنا ہے ۔وہ فیس کی صورت میں ہو ،کتابیں لگانے کے لئے بک سیلر کے ساتھ ساز باز ہو ،وردی منتخب کرنے کے لئے بزاز سے بات چیت ہو ،فوٹو کھنچوانے کے لئے فوٹو گرافر کے ساتھ معاملہ طے ہو ،بلڈنگ فنڈ کی وصولیابی ہو (گویا بصورت دیگر سکول بلڈنگ کا کرایہ بھی بچوں کے والدین سے وصول کیا جاتا ہے یا نئی بلڈنگ بنانے کے لئے تعاون بھی والدین سے ہی لیا جاتا ہے)یا پھر مدر ڈے ،فادر ڈے ،ٹیچر ڈے یا پیٹ پوجا ڈے منانے کے لئے کنٹری بیوشن (Contribution) ہو۔۔۔۔رہا پڑھنا ۔۔۔۔۔پڑھانا ۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995