رہا پڑھنا ۔۔۔۔پڑھانا ۔۔۔۔اُس کے لئے بچے کو کوچنگ گھر میں کرنا پڑتی ہے یا خوب صور ت دیگر نرسری کلاس سے ہی پرائیویٹ ٹیوٹر کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔آپ کسی ایسے ا سکولی بچے کی مثال دیجئے جو صرف سکول کی تعلیم پر ہی متکفل ہو ،کم از کم میں نے تو کوئی ایسا بچہ نہیں دیکھا ۔ہمارے جتنے بھی بچے ہیں،جتنے یار دوست ،عزیز و اقارب یا دیگر رشتہ داروں کے بچے ہیں ،اُن کو والدین یا تو گھروں میں پڑھاتے ہیں یا اگر اگلی کلاسز ہوئیں تو ایک اور داکاندار کے پاس پڑھانے کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔وہ دکاندار بلا شبہ تنخواہ تو سرکار سے لیتا ہے اووور پڑھاتا گھر میں بچوں کو نہیں بلکہ جتھوں یعنی گروپوں کو ۔اور ایسے دکانداروں سے بچے اسباق کے نوٹ کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔
ہاں ! البتہ استثنیٰ ہے ۔کوئی ایسا بچہ بھی ہوتا ہے جو خود سے ہی بغیر ٹیوشن لگائے کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوتا ہے مگر ایسے بچے غیر معمولی (Exceptional)ذہین ہوتے ہیں ۔وہ خود سے ہی یعنی پیدائشی قابل اور ہونہار ہوتے ہیں اور ایسے گدڑی کے لال سینکڑوں میں دس بیس نہیں بلکہ ہزاروں میں ایک ہوتا ہے ۔عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ ہم منسٹروں کوکوستے ہیں ،اربابِ اقتدار کو گالیاں دیتے ہیں ،ناانصافی اور ناقص تعلیمی نظام کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں ۔بورڈ اور یونیورسٹی کے طریقۂ امتحانات میں مین میخ نکالتے ہیں ۔کیا کبھی ہم نے خود اپنے آپ سے پوچھا ،اپنے ضمیر سے سوال کیا ،اپنا محاسبہ کیا،اپنے اندر سے اپنے ہمزاد کو باہر نکالا ؟اگر نہیں تو پھر یہ سب باتیں ہیں ،باتوں کا کیا اعتبار ہے۔دکان کھولنے والے بھی ہم ہی ہیں ،دکان چلانے والے بھی ہم ہی ہیں اور دکان کے خریدار بھی خود ہم ہیں۔دوش دیں تو کس کو۔۔۔۔؟مورد الزام ٹھہرائیں تو کس کو ۔۔۔لوگ باہر کے ملکوں سے یا مریخؔ سے اُتر کر تو نہیں آتے ۔ہاں جو لوگ باہر سے آتے ہیں اُن کا مشن ہمارے سے مختلف ہوتا ہے ۔وہ پیسہ بھی بٹورتے ہیں اور تبدیلی ٔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تبدیلی ٔ دین بھی کرلیتے ہیں۔یہاں اس داویٔ دل سوز میں ایسی بھی کئی دکانیں ہیں جو نصرانیت کے فروغ کے لئے کام کررہی ہیں اور اُن کو خاطر خواہ کامیابیاں بھی ملی ہیں جیساکہ آئے دن مشاہدے میں آتا رہتا ہے ۔ہے تو یہ عجیب سی بات مگر حق پر مبنی ہے کہ یہاں منافقانہ چادر اوڑھے سینکڑوں لوگ ہیں جن میں اکثریت نوجوان طبقے کی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ حق بات یہ بھی ہے کہ موجودہ وقتوں میں حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے نوجوان طبقہ ہی حد سے زیادہ ہِٹ ہے ،ناانصافی کا شکار ہے اور نظر انداز (Ignore)ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کا مایوس نوجوان نشے کی لت میں نہ پڑتا ،مضحکہ خیز حرکات نہ کرتا اور بزرگوں سے قطع تعلق نہیں کرتا۔پڑھا لکھا نوجوان اپنے باوقار اور با آبرو زندگی کے رنگین سپنوں کو فراموش کرکے سڑکوں کی پٹریوں پر ’’بنگلہ دیشی‘‘سامان فروخت کرتا نہیں ہوتا ۔اس سلسلے میں حد سے زیادہ تختۂ مشق شہری مسلمان نوجوان ہے کیونکہ وہ کٹیگری ،یہ کٹیگری اور مختلف دفعات نافذ کرکے اُسے انتظامیہ میں ہمیشہ باہر کا راستہ ہی دکھایا جاتا ہے ۔ان حالات میں وہ لاچار و مجبور ہے ۔بقول فانیؔ بدایونی —–ع
بہلا نہ دل نہ تیرگی ٔشام ِ غم گئی
اگر آپ نوکری سے سبکدوش ہوجائیں اور کوئی کام دھندہ کرنا چاہتے ہوں یا آپ کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں اور اپنا بزنس تبدیل کرنا چاہتے ہوں تو اولاً آپ کو اپنے یار دوستوں اور عزیزواقارب سے یہی مشورہ ملے گا کہ آپ ایک دکان یعنی ایک سکول کھولیں ۔اگر آپ تیار ہوئے تو آپ کے وارے نیارے ہوجائیں گے کیونکہ اگر یہ اسکول ریٹایڑڈ اُستاد ،پرفیسر اور ایجوکیشن سے وابستہ حضرات کھولتے تو کوئی بات تھی مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اس ٹریڈ سے وابستہ بالکل غیر متعلق لوگ ہوگئے ہیں ۔ہمارے محلے میں ایک صاحب ملازمت میں تھے تو سبکدوش ہونے پر انہوں نے ایک سکول کا نرمان کیا اور اسی طرح ایک اور صاحب پنساری کی دکان چلاتے تھے مگر آج شہر کے ایک مصروف علاقے میں ایک معروف سکول ہے جس کو اپنے کارِ کال کے دوران مجھے بھی انسپکشن کا سوبھاگیہ ملا تھا ۔سکول کے سربراہ نے میرے دفتر میں ایک ایسی بات کی جس سے وہاں اور دوچار حاضرین حیرانگی کے ساتھ ایک دوسرے کا مُنہ تکنے لگے ۔موصوف کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ بخاری شریف احادیث پاک بنی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا مجموعہ ہے جسے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے تالیف کیا ہے ۔
اس طرح سے آپ خود انصاف کرسکتے ہیں کہ پرنسپل موصوف مارننگ اسمبلی میں بچوں کو کیا درس دیتے ہوں گے اور اُس کے دکان کی تعلیمی اعتبار سے کیا حالت ہوگی؟اُس کی دکان کے سیلز مین کتنے قابل ،پڑھے لکھے اور ماہر اُستاد ہوں گے ،وہ سوچنے والی بات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ بچوں کو ڈیوک(Duke)کو ڈیوکے اور ٹیوب (Tube)کو ٹیوبے پڑھاتے ہیں اور چھ سو روپیہ ماہوار کا چرمی بیگ کندھے سے لٹکا کر آٹھ سو روپے کا ڈیوڈرنٹ(Deodorant)چھڑک کر بس یا میٹا ڈار میں اپنی سہیلی سے بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ بے دھڑک بولتی ہے ۔
’’ارے رضیہؔ سنو تو مجھے باتیں آرہی ہیں ۔گھر میں اس بات کا بڑا شور ہے۔‘‘
اُس کی سہیلی بھی اُسی رنگین بیانی اور وارفتگی سے جواب دیتی ہے:
’’اری کیا سچ بول رہی ہے تمہیں میرا مرنا ‘‘۔۔۔
یہ حالت ہمارے اساتذہ اور یہ گت ہماری سرکاری زبان کی ہے ۔اب کس کو دوشی ٹھہرائیں۔۔۔۔۔۔
یہ ساری بات کبیرؔ صاحب نے سن کر ایک ٹھنڈی سانس لی اور زِچ ہوکر بولے:
آپ صحیح فرما رہے ہیں جناب ۔۔۔اصل میں بات یہ ہے ۔۔۔۔ع
محفل کی محفل ہے ویراں کون کرے اب کس کا ماتم
جی ہاں! کبیر صاحب خوب کہا آپ نے بلکہ میں تو یہ کہنے کی بھی جسارت کروں گا ۔۔۔۔ ؎
خوف آتا ہے دروبام کی ظلمت سے ہمیں
ٹمٹماتا ہی سہی گھر میں اک دِیا چاہتے ہیں
(قمرسنبھلی)
(ختم شد)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995