اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں زوجین کے مابین ناچاقی اور کشیدگی پیداہونے کی صورت میں عورت کےلیےاپنے خاوند سے علاحیدگی کی کوئی صورت نہيں تھی، شادی کے بعد وہ زندگی بھر کیلئےمرد کی غلام بن جاتی۔ خواہ شوہر جیسا بھی ہو یا جتنا بھی ظالم ہو ،وہ زندگی بھر اسکے ظلم و ستم اور پنجۂ ستم سے نجات پانے اور آزادی حاصل نہیں کرسکتی تھی۔
قربان جائیے دین اسلام اور شریعت محمدی پرکہ اسلام نے یہ نظامِ قانون بنایا کہ جس طرح نکاح ایک اجنبی مرد و عورت کو حلال کر دیتاہے ، اُسی طرح خُلح وفسخ بھی حلال میاں بیوی کو جدا کر دیتا ہے، یعنی جس طرح نکاح کے ذریعہ ایک میاں بیوی ازدواجی زندگی سے منسلک (داخل )ہوجاتےہیں، اُسی طرح سے خلع اور فسخ کے ذریعہ سے بھی دونوں نکاح سے(خارج) باہرہوجاتےہیں۔گویانکاح دخول کا ذریعہ اور راستہ ہے اور خلع وفسخ خروج کا ذریعہ اور راستہ ہے۔ یہ قانون اسلام نے عطا کیاہے۔
اسلام نے جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار دیا، اُسی طرح عورت کو خُلح لینے اور (بصورت دیگر) شرعی قاضی سے فسخ نکاح کے مطالبے کا حق دیا۔ فرق یہ ہے کہ مرد اپنے حق کا استعمال براہِ راست کرسکتا ہے (مگر آج قانونی دشواری کے پیش نظر عدالتوں کا سہارا لینا مجبوری بن گیا، لیکن وہاں بھی حق کا استعمال شوہر ہی کرتاہے) اور عورت شوہر یا شرعی قاضی کے واسطے سے۔
شریعت نے عورت کےہاتھ میں طلاق کا اختیار اس لیےنہيں دیا کہ وہ زدو رنج، منفعل مزاج اور جذباتی ہوتی ہیں۔کیونکہ اگر اس کےہاتھ میں براہِ راست علاحیدگی کا اختیارہوتا تو طلاق بڑی کثرت سے واقع ہوتی اور اس میں خود ان کا نقصان تھا۔
خُلعْ کی صورت یہ ہے کہ شوہر کو کچھ مال دے کر یا اس نےمہر ابھی ادا نہیں کیا ہے تو مہر معاف کرکے اس سے طلاق حاصل کرلے۔ خُلعْ چونکہ زوجین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے ،اس کے لیے قاضی کی وساطت ضروری نہیںہے۔ مگر آج قانونی دشواری ہوتی ہے جس کی وجہ سے بعض وقت جعلی قاضی پھنس جاتے ہیں اور ان کو قانونی کٹگھروں سے دوچار ہوناپڑتاہے اس لیے ایسی صورت میں بھی اپنے طور سے حل کرنے کے بجائے کسی معتبر دارالقضاء جہاں پر باضابطہ امارت شرعیہ کے امیر شریعت، مسلم پرسنل لا بورڈ کے اکابرین نے قاضی مقرر کیاہو، ان سےہی خلع ودیگر معاملات حل کروائیں۔اس میں فائدہ یہ ہے کہ کارروائی کے پیپر اور سرٹیفکیٹ مضبوط رہتے ہیں۔خُلعْ کے متعلق سورہ بقرہ:۲۲۹ آیت میںہے: ’’زوجین کے درمیان ایسا اختلاف، نفرت اور دوری ہو کہ اندیشہ یہ ہو کہ دونوں اللہ کے مقرر کردہ حدود پر قائم نہيں رہ سکیں گے اور دونوں کی زندگی خوشگوارنہیں گذر سکے گی تو پھر اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت فدیہ دے کر شوہر سے طلاق حاصل کرلے۔‘‘
اسی طرح احادیث نبویؐ میںہے: حضرت حبیبہ بنت سہل ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثابت بن قیس کی شکایت لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا ،میرے شوہر اپنی جگہ بہت نیک اور دین کی طرف ہیں لیکن میں ان کے ساتھ نہيں رہنا چاہتی ہوں، نبیﷺ نے فرمایا: تم اس کا وہ باغ واپس کرسکتی ہو جو اس نے تمہیں بطور مہر دیاتھا؟انھوں نے کہا : جی ہاں!نبیﷺ نے ثابت کو بلایا، انہوں نے باغ واپس کردیا، اور نبیﷺ نے ان دونوں کے درمیان خُلع یعنی تفریق کردی۔( بخاری،نسائی،ابوداؤد،مسندِ احمد)
یہ اسلام کا سب سے پھلا خُلع تھا، اور مذکورہ آیت بھی ان ہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
دوسری صورت: فسخِ نکاح کی ہے۔ اگر شوہر خلع پر آمادہ نہ ہو نہ خود طلاق دیتاہوتو بیوی اپنا معاملہ معتبر دارالقضاء (جو اوپر میں بتایاگیا)میں پیش کرے شرعی قاضی سے فسخِ نکاح کا مطالبہ کرے۔ چنانچہ فسخِ نکاح کی صورت میں علاحیدگی کیلئے ٹھوس بنیاد یعنی اسبابِ فسخ میں سے کوئی سبب کا پایا جانا ضروری ہے، مثلاً: شوہر کی طرف سے ظلم و زیادتی مع وضاحت، حقوق زوجیت کی عدمِ ادائیگی، امراض خبیثہ(برص، جذام، جنون، وغیرہ) میں سے کسی مرض میں مبتلا ہونا، یا حد سے بڑھاہوا باہمی اختلاف وغیرہ، پس اگر بیوی شرعی قاضی کے سامنے شوہر کی زیادتی خود اور گواہوں کے ذریعہ ثابت کردے یا قاضی کو اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ دونوں میں اتنی نفرت اور دوری اور ایسا شدید اختلاف ہے کہ دونوں کا آپس میں نِباہ نہيں ہوسکتا تو قاضی حسبِ ضابطہ کارروائی کے بعد نکاح فسخ(توڑ) کردے گا، جس سے عورت کو آزادی حاصل ہوجائیگی اور عدت (تین حیض)گذار کر اپنے نفس کی مجاز ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں اسلام کے نظام کو سمجھنے اور اس کے مطابق معاملہ حل کرانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین