پرویز مانوس
خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال کا یہ شعر انسان کو خودی کی بلندی، خود اعتمادی، اور اپنی تقدیر کا خود خالق بننے کی تلقین کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خدا نے انسان کو عظیم قوتوں سے نوازا ہے، اور اسے چاہیے کہ وہ ان کا استعمال کرکے اپنی ذات اور کائنات میں انقلاب برپا کرے۔اس میں شک نہیں کہ وہ بسیع الصمیر ہے
معجزے اس سے قبل بھی ہوتے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ الللہ تعالی انسان کی نیت دیکھتا ہے جب آپ کی نیت صاف ہو اور مقصد نیک ہو تو الللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لئے خود بخود راستے کھول دیتا ہے ،ویسے بھی سخاوت انسانی زندگی کا ایک عظیم وصف ہے جو معاشرتی ہم آہنگی، روحانی سکون، اور باہمی احترام کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ سخاوت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کے لیے جینے کی ترغیب دیتا ہے۔
سخاوت کی افضلیت اسلام اور دیگر مذاہب میں بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سخاوت کو بار بار سراہا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ “سخی اللہ کے قریب، جنت کے قریب،
اور لوگوں کے قریب ہوتا ہے۔” اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی سخاوت کو انسانیت کی سب سے بڑی خدمت قرار دیا گیا ہے۔
سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک 72سالہ شخص عبدلرحمان کمار 45 سال تک ہر سال حج کے قافلے کو الوداع کہنے آتا اور عازمین سے درخواست کرتا کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی حج کی سعادت نصیب کرے۔ اس کی معصومیت اور اخلاص نے سب کے دلوں کو چھو لیا، لیکن اس کی مالی حالت حج پر جانے کی اجازت نہ دیتی تھی۔حسب روایت امسال بھی وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سیدھا حج ہاوس بمنہ پہنچا جہاں عازمینِ حج کا پہلا قافلہ ائر پورٹ کی طرف روانہ ہونا تھا -حج ہاوس کے مناظر ہر سال ایک دلگیر صورتِ حال پیش کرتے۔ عبدالرحمن کمار لوگوں سے گلے ملتا، ان کے ہاتھ چوم کر روتا، اور بار بار یہی کہتا، “میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی حج کی توفیق عطا فرمائے۔” اس کے چہرے پر دکھ اور امید کی ملی جلی کیفیت ہوتی، اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ عازمین اس کے اخلاص سے متاثر ہو کر اسے گلے لگاتے اور تسلی دیتے۔ وہاں موجود لوگ یہ منظر دیکھ کر جذباتی ہو جاتے اور کئی لوگوں کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ یہ وہ لمحے تھے جو انسانیت کی گہرائی اور اللہ پر یقین کی خوبصورتی کو ظاہر کرتے تھے۔
اُس سے ایک میڈیا والے نے تفصیل معلوم کی پھر جو کچھ اُس نے بتایا اور ویڈیو اس طرح وائرل ہوئی کہ سخاوت کے در وا ہوگئے۔دو گھنٹے میں ہی میڈیا رپورٹر نے اس کی داستان کو عام کر دیا، اور اس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ اس ویڈیو نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، دریں اثنا ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے خُدا کے ایک نیک بندے عبدلحمید خان نے عبدللرحمان کمار کا حج کا تمام خرچ اٹھانے کی ذمہ داری لے لی جو کہ پیشے سے ایک ٹھیکیدار ہیں ۔
کہاں کا منصب، کہاں کی دولت، قسم خُدا کی یہ ہے حقیقت
جنہیں بُلایا ہے مصطفٰے وہیں مدینے کو جا رہے ہیں
یہ واقعہ نہ صرف سخاوت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے کہ جب آپ کے دل میں کدی شے کو حاصل کرنے کی تڑپ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لیے راستے کھول دیتا ہے۔ایسے واقعات معاشرے کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں سخاوت کو شامل کریں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی عبدلرحمان موجود ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی مدد کرنا ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے۔
سخاوت صرف مالی امداد تک محدود نہیں ہوتی۔ یہ وقت، محبت، اور توجہ دینے کا نام بھی ہے۔ ایک مسکراہٹ، کسی کی بات سن لینا، یا کسی کے دکھ میں شریک ہونا بھی سخاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ وہ چھوٹے اعمال ہیں جو دلوں کو جوڑتے ہیں اور انسانیت کے رنگ کو گہرا کرتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سخاوت انسان کے دل کو سکون اور خوشی فراہم کرتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس سے انسان کو اللہ کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ سخاوت کرنے والا شخص نہ صرف دوسروں کی زندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ اپنی روح کو بھی مطمئن کرتا ہے۔ہمیں عبد الرحمن کمار جیسے لوگوں سے سیکھنا چاہیے جو اپنے خلوص اور عاجزی سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ اور عبدلحمید خان صاحب کی طرح ہمیں اپنے وسائل کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں سخاوت کے اصولوں کو اپنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیکی کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رابطہ۔آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر