رحیم رہبر
مریم نام کی لیبل اُس کے بیڈ (Bed)پر چسپاں تھی۔ اُس کا سنہری بدن چھلنی تھا۔ وہ پچیس، چھبیس یا ستائیس برس کی ہوئی ہوگی۔ اُس کی چھاتی پر خون کے دبھے اب سوکھ گئے تھے۔ اُس کا شیرخوار بچہ اُس کے پستان کو چوس رہا تھا جب ریڈکراس کی ٹیم واڈ میں داخل ہوئی۔ اس ٹیم کی سربراہی ایک خوبصورت جوان خاتون ڈاکٹر کررہی تھی۔ اس خاتون ڈاکٹر کے نام پلیٹ پر ’لیلا‘ لکھا ہو اتھا۔ اُس کی شکل مریم کے ساتھ ملتی جلتی تھی۔ نرس کے نام پلیٹ پر میری (Marry) لکھا ہوا تھا۔
میری نے جونہی بچے کو مُردہ ماں کی چھاتی سے اُٹھانا چاہا، بچے نے معصوم ہاتھوں سے ماں کے پستان کو زور سے پکڑا۔ معصوم بچے کا چہرہ خون آلودہ تھالیکن وہ زندہ تھا۔ میری سے یہ کرب ناک منظر دیکھا نہ گیا۔ وہ سٹول پر بیٹھ گئی۔
ڈاکٹر لیلا کی نظر جب بھی مریم کے چہرے پر پڑتی تھی، اُس کی چھاتی خود بخود تر ہوجاتی تھی! لیلا نے میری کو پھر مریم کی چھاتی سے بچہ اُٹھانے کے لئے کہا۔ جونہی میری نے بچے کو ہاتھ لگایا، وہ بلک بلک کر رویا۔ اُس نے ماں کے پستان کو زور سے پکڑا۔ معصوم بچہ ماں کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ میری کی آنکھوں میں بے اختیار آنسوئوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ وہ بیڈ کے نزدیک ایک سٹول پر بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنے سکارف سے چہرے کو چھپایا۔
“Now Try Again”(دوبارہ کوشش کرو)۔ڈاکٹر لیلا نے پھر میری سے کہا۔
“Sorry Doctor, I can not.”(معاف کیجئے گا مجھ سے نہیں ہوگا)۔میری نے نم دیدہ آنکھوں سے عاجزی کی۔ سب والینٹریز کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر زندگی نوحہ سرا تھی۔ ہسپتال کے واڈ نمبر آٹھ میں غمناک خاموشی پہرہ زن تھی!
ڈاکٹر لیلا کی نظر جب بھی مریم اور اس کے بچے پر پڑتی تھی اُس کی آنکھیں نم ہوتی جارہی تھیں لیکن اُس نے جبراً خود کو کنٹرول کررکھا تھا۔آخر کار ڈاکٹر لیلا نے میری کے ہاتھ میں فائیل دی۔ اُس نے ہاتھوں میں گلائوز لگائے اور دھیرے دھیرے مریم کے قریب آئی۔
لیلا نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ بچے کو ماں کی چھاتی پر سے اُٹھایا اور اپنی چھاتی کے ساتھ لگایا۔ معصوم بچے نے ڈاکٹر لیلا کو گھورا اور اس کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ کی! لیلا بچے کو بار بار چومتی رہی۔ اُس کے دونوں پستانوں سے دودھ ٹپک رہا تھا۔ بچے کو ڈاکٹر لیلا کی گود میں قرار آیا۔! بچے کو نیند آگئی اور سوگیا۔
ڈاکٹر لیلا نے بچے کو میری کی گود میں دیا اور خود مریم کے بیڈ کے قریب آگئی! اُس نے مریم کے چہرے سے سبز رنگ کی چادر سرکائی اور ہاتھ جوڑ کر اُس سے مخاطب ہوئی!
’’پیاری بہن! غزہ شہر کے جس سکول میں تم پڑھاتی تھی اور اب امر ہوگیا، وہاں میرا بیٹا اکبر بھی پڑھتا تھا!
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724