بوڑھا ابوبکر راحتی کیمپ میں اکیلا رینگ رینگ کر زندگی بسر کرتا تھا۔ اُسکی بیوی ذینب ایک سال قبل ایک دھماکے میں فوت ہوگئی تھی۔ اُس کے تینوں بیٹے امجد، عاشق اور ماجدطتاغوتی نظام کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہوچکے تھے! اب صرف اُس کی جوان بیٹی آسیہ اُس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ ظالموں نے ایک رات اُس کی اُس جوان بیٹی کو بھی اغوا کرلیا۔ بوڑھا کمزور باپ اپنی بیٹی کو ظالموں سے آزاد نہ کرسکا۔ آخر کار ابوبکر بے چارہ حواس باختہ ہوا اور اسی حالت میں وہ وطن عزیز سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا…!
پناہ گزینوں کے راحتی کیمپ میں جب بوڑھا ابوبکر کسی جوان لڑکی کو دیکھتا تو اُس سے رہا نہ جاتا تھا۔ وہ چِلا چِلا کر اپنے ساتھی مہاجرین سے صرف وہی ایک سوال بار بار پوچھتا تھا۔ ’’میری جوان بیٹی آسیہ کو اُن ظالموں نے کہاں چُھپا لیا؟ بے چارا ابوبکر پھر زار و قطار روتا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اپنی گمشدہ بیٹی آسیہ کو بُلاتا تھا۔
’’آسیہ! بیٹی تمہارا بوڑھا اُبو تمہارا انتظار کرتے کرتے اب تھک گیا ہے… تمہارے فراق میں اُسکی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی! کہاں ہو بیٹی! تیری جدائی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ہے…اس طرح ابوبکر مہاجر کیمپ کے ہر خیمے میں اپنی آسیہ کو تلاشتا تھا۔ پناہ گزینوں کی ہر صبح صبحِ کربلا اور ہر شام شامِ غریباں تھی۔
ایک رات ابوبکر حسب عادت اپنی بیٹی آسیہ کو یاد کررہا تھا کہ اِسی دوران ایک دُکھیاری ماں ابوبکر کے پاس آئی۔ اُس کے ہاتھوں میں اُس کے جوان بیٹے فیضاں کا خون آلودہ کُرتا تھا۔ وہ ابوبکر سے مخاطب ہوئی…’’میرے بیٹے کے ہاتھ پر لگی مہندی ابھی گیلی ہی تھی جب اُن ظالموں نے اُس کو پیٹ پیٹ کر بے ہوش کردیا۔ پھر ان ظالموں نے اُس کی چھاتی میں خنجر پیوست کیا۔ میرا بیٹا مدد کے لئے چلاتا رہا۔ لیکن کوئی بھی آگے نہیں آیا۔ میرے بیٹے نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اُس کا صرفِ اتنا قصور تھا کہ وہ مسلمان تھا۔
ایک جوان لڑکی نے ابوبکر کو گلے لگایا۔ وہ بوڑھے ابوبکر سے رو رو کر کہتی تھی۔ ’’بابا! اُن ظالموں نے ہماری بسی میں بربریت کا کربناک کھیل کھیلا… اُن وحشی درندوں نے چُن چُن کر مائوں سے بچے چھین لئے اور ان کو ہمارے سامنے زبح کیا!! اُن درندوں نے ہماری بہنوں کی عزت اور عصمتیں تار تار کیں!!انہوں نے تاتاریوں کا شرمناک اتہاس دہرایا۔
ابوبکر نے اُن غم زدہ نفوس سے خاموش رہنے کے لئے کہا… کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ خوب رویا… پھر اچانک وہ ایک مظلوم ماں کا ہاتھ پکڑ کر غم سے نڈھال پناہ گزینوں سے یوں مخاطب ہوا۔
’’میں …ہاں ہاں میں گوتم بودھ جی سے ضرور پوچھوں گا۔ گوتم بدھ جی! آپ نے زمین پر رینگنے والے کیڑوں تک کو مارنے سے منع کیا تھا! آپ کو گوشت خوروں سے اس لئے نفرت تھی کیونکہ کہ وہ جانوروں کو زبح کرکے کھا لیتے تھے لیکن بودھ دھرم کے نام پر آپ کے پیروکار اپنی شرمناک کرتوتوں سے اِنسانیت کو داغدار کررہے ہیں!! گوتم بدھ جی ! کب تک آپ کے مذہب کے نام پر اِس طرح بے گناہ اور معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جائیگی!!؟ گوتم بودھ صاحب! حضور ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم روہنگیائی مسلمان ہیں! دیکھ ذرا… کس طرح مظلوم اور بے بس لوگ خون کے آنسوبہا رہے ہیں! کس طرح بھوک اور پیاس سے بچے بِلک رہے ہیں! …گوتم جی! کیا آپ کو مظلوموں کی سسکیاں سنائی نہیں دے رہی ہیں!؟‘‘
اُس دکھیاری ماں، جس کے ہاتھوں میں اپنے جوان بیٹے فیضان کا خون آلودہ کُرتا تھا، نے آسمان کی طرف اپنے تھرتھراتے ہاتھ اُٹھا ئے اور پُرنم آنکھوں سے مناجات پڑھنے لگی۔
’’کائینات کے والی! روہنگیائی مسلمانوں پر اَبرھ اور اُس کی فوج کا عتاب جاری ہے! دِل مسلم خفتہ ہوچکاہے… مسلمان مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے! اَبرھ ہمارے وطنِ عزیز کو برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اب برما کے روہنگیائی مسلمانوں پر رحم فرما دے۔ تمہیں واسطہ ہے ان کبوتروں کا جو برما کی شکستہ حال مساجد کے میناروں پر مرثیہ خوانی کررہے ہیں… تمہیں واسطہ ہے ان کا جنہوں نے اپنے لہو سے عظمتِ قرآن کو زندہ رکھا۔ تمہیں واسطہ ہے ان شہدا کا جن کی تکبیروں کی گونج برما کی غمزہ فضا میں تاقیامت سنائی دے فی…!!!
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
9906534724