خورشید ریشی
پریشان تھے اور ژالہ باری سے میوہ صنعت کو زبردست نقصان ہوا اور ضلع رام بن میں قدرت نے تو اپنے قہر سے نقشہ ہی بدل دیا اس دوران بجلی کے چمکنے اور گن گرج سے ہر ایک انسان کا دل کانپ رہا تھا، لیکن کسی کو کیا معلوم کہ ژالہ بھاری بادلوں کا پھٹنا اور گن گرج کسی نئے طوفان کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔موسم میں بہتری بھی آگئی اور جو سیاح وادی کشمیر میں گل لالہ باغ کی سیر و تفریح کے بعد وادی کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات کی طرف روانہ ہوئے ،ان کو کیا معلوم کہ ہمارے ساتھ پہلگام کی سرسبز و شاداب زمین پر موت کا رقص ہوگا۔کل پہلگام سانحہ کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر معصوم اور بے گناہ سیاحوں کی خون میں لت پت تصویروں کا وائرل ہونا ہی تھا کہ ہر طرف افراتفری اور ہو کا عالم نظر آنے لگااور نئی نویلی دلہن کا اپنے شوہر کی لاش پر خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں دوڑائے رکھنا ،اس تصویر نے ہر ایک انسان کی کمر توڑ دی اور ہر آنکھ سے اشکوں کا سیلاب امڈ آیا اور اس کی خاموشی اور ٹوٹے ہوئے دل کی کیفیت کو سمجھنا بہت مشکل ہے ۔
تمام سیاحوں نے اپنے اپنے ارمانوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے ساتھیوں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ منصوبہ بنایا ہوتا اور تمام پہلگام کی دلکش ہواؤں میں قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ان تمام سیاحوں نے اپنے گھر والوں دوست و احباب کے لئے کشمیر سے مختلف تحائف لینے کا ارادہ بھی کر لیا ہوتا، مگر کس کو کیا معلوم کہ ان کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ داروں پر بھی مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ جائیں گے اور اب یہ کبھی بھی اپنے پیاروں کے ساتھ بات نہیں کر پائیںگے اور اب گھر والوں کو ہی انکی آخری رسومات کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔پہلگام سانحہ میں چھبیس جانوں کے زیاں نے ہر ایک کشمیری کے دل کو چھلنی کر دیا اور ہر ایک کے چہرے پر دکھ کے آثار نمایاں نظر آ رہے تھے اور ہر ایک نے اس انسانیت سوز واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی اور قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بات کی۔سیاح ہمارے مہمان ہیں اور ان کی آمد سے وادی کشمیر میں ہر طرف رونق اور چہل پہل دیکھنے کو ملی رہی ہے کیونکہ ان سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے سیاح وادی کشمیر میں بغیر کسی خوف و ڈر کے آتے رہے ہیں اور وادی کشمیر کے لوگ اپنی مہمان نوازی سے انہیں متاثر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کسی بھی سیاح کا کوئی معمولی چیز بھی گم ہو جائے تو کشمیری عوام اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور اس کی کھوج لگاتے ہیں اور سیاحوں کے ساتھ کشمیریوں کا برتاؤ اپنی مثال آپ ہے۔مگر کل کے دلدوز سانحہ نے ہر ایک انسان کی نیند حرام کر دی اور ہر گلی کوچے میں اس سانحہ پر مذمت ہوتی رہی۔کشمیر کی سیاسی، سماجی، مذہبی ،تجارتی ،سول سوسائٹی اور ملازمین انجمنوں نے اس واقعے پر زبردست تشویش کا اظہار کیا اور سیاحوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے وادی کشمیر میں 2019 کے بعد پہلی بار اس طرح سڑکیں سنسان اور کاروباری ادارے بند رہے اور تو اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ وادی کشمیر کے تمام شہر و دیہات میں سڑکوں پر اس دلدوز سانحہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے اور ہر طرف ان نعروں کی گونج سنائی دی گئی
سیاح ہمارے مہمان ہیں
سیاحوں کا قتل عام بند کرو بند کرو
ہندو مسلم سکھ عیسائی
آپس میں ہیں بھائی بھائی
گویا کہ وادی کشمیر کے تمام لوگ بزرگ نوجوان عورتیں بچے اس دکھ میں ان غم زدہ خاندان کے ساتھ مصیبت کی اس گھڑی میں برابر شریک ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جس نے اپنے جذبات پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے اشکوں کو روکا ہوگا۔کشمیر غمزدہ ہے۔کشمیریت شرمسار ہے عام لوگ نڈال ہیں ہر دل چھلنی ہے ہر آنکھ پرنم ہیں ۔اس کے علاوہ ایک عام کشمیری کر بھی کیا سکتا ہے جس تعداد میں ان بے گناہوں کے قتل کے خلاف آج کشمیری مرد و زن اور بچے سڑکوں پر نکل آئے ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیریت آج بھی زندہ ہے اور ان سیاحوں کے قتل عام نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔مگر مصیبت کے وقت امن اور بھائی چارے کی ضرورت ہے اور ہندو مسلم سکھ اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کا وقت ہے تاکہ ان بزدلوں اور درندہ صفات لوگوں جنہوں نے اس نا قابل برداشت سانحہ کو سبق ملے اور سب لوگ اللہ سے دعا کریں کہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جو بھی اس دلدوز سانحہ کو انجام دینے میں ملوث ہیں وہ جلد از جلد سیکورٹی فورسز کے ہاتھ لگ جایئں اور انکو ایسی سزا دی جائے کہ وادی کشمیر میں دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔