عور ت کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے۔یہ بیٹیکی صورت میں پورے خاندان کی لاڈلی ہوتی ہے ، اپنے بھائیوں کی سب سے مخلص بہی خواہ کہلاتی ہے۔ جب بوڑھی ہوتی ہے تو ایک پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ہر دکھ سکھ کی ساتھی بن جاتی ہے ۔ ماں کی صورت میں اِسے اللہ تعالیٰ نے شرف کا مقام عطا کیا ہے بلکہ جنت کو اِسی ماں کے قدموں تلے لا کھڑا کیا ہے لیکن آج اس عورت کی آنکھوں سے آنسو کیوں ٹپک رہے ہیں؟ کیا اسی عورت سے وجود ِ انسانی کا تسلسل قائم و دائم نہیں ہے؟ آخر عورت کو یہ معزز و مکرم مقام حاصل ہونے کے باجود بھی ذلت و پستی کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے؟
بیٹی گھر میں پیدا ہوتی ہے تو گھر پر ایک رحمت کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ والدین دن رات ایک کر کے اپنی اس پیاری بیٹی کو پالتے پوستے ہیں ۔ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی تعلیم و تربیت کے لیے اسے کسی اسکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جب سے بڑھی ہوتی ہے تو والدین اس کی شادی کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور اس کا نیا گھربسانے کا خواب سجاتے ہیں ۔ والدین کی کوشش رہتی ہے کہ اُن کی بیٹی کی شادی کسی خوشحال گھرانے میں ہو پائے تاکہ مستقبل میں اُن کی یہ لاڈلی بیٹی پُر سکون زندگی گزارے اور جہاں سسرال والے اسے ملازمہ نہ سمجھیں بلکہ اپنے گھر کی لاڈلی جانیں۔اسی بیٹی کی رخصتی کا وقت آتاہے تو والدین کی آنکھوں میں خوشی و غم کے ملے جلے تاثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خوشی اس لئے کہ ہمای بیٹی آباد ہو رہی ہے اور جدائی کے غم میں آنسو بھی رواں ہوتے ہیں ۔اپنے سسرال میں وہ پہلے پہل انجان ہو تی ہے لیکن اسے اپنے شوہر سے نسبت ہونے کی بنیاد پر کئی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔میاں بیوی کے اس مقدس رشتے کی استواری سے ہی لڑکی اور لڑکے کے ان دو اجنبی خاندانوں کی خوشیاں اور عزتیں مشروط ہوتی ہیں۔
یہ عورت دراصل دوچیزوں کی طلب گار ہوتی ہے: ایک عزت اور دوسری محبت۔ اگر عورت کو یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو وہ اپنے شوہر اور اپنے گھر کے لیے سب کچھ تیاگ دینے میں باک محسوس نہیں کرتی لیکن اگرشوہر اپنی بیوی کو ملازمہ یا نوکرانی سمجھے اورجب چاہے اُسے ذلیل کرے اورجب چاہے نوکروں جیسا سلوک کرے تو اِس شوہر کے ساتھ بیوی کا ایک منٹ بھی گزارنا موت کے مترادف ہوتا ہے ۔میں شادی شدہ جوڑوں سے ادباً ملتمس ہوں کہ خدا را قرآن کے احکام اور بنی مہربان ﷺ کی تعلیمات پر عمل کر کے ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔اپنے باہمی حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھیں تا کہ کسی کاگھر نہ اُجڑے ،کسی کی زندگی تباہ نہ ہو اور کوئی بیٹی اپنے ماں باپ کے پاس واپس آنے کے لئے مجبور نہ ہو اور ہر شوہرا ور بیوی کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شر یک حیات کی قدر کریں اور ان کے حقوق کو بجا لائیں ،تبھی جا کر ایک گھر امن و سکون کا گہوارا بن سکتا ہے ۔