فلاسفروں کا قول ہے کہ جن لوگوں کے پاس ضرورت سے کم دولت ہے ،وہ انسانیت کے درجے سے گِر جاتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت ہے وہ بھی انسانیت کے راستوں سے بھٹک جاتے ہیں،پھر گمراہی میں اُن کا ذہن اتنابوسیدہ ہوجاتا ہے کہ اُنہیں ٹھیک و غلط،جائز و ناجائز ،حلال و حرام اور حق و ناحق میں کوئی فرق نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ جو پیسہ جائز و ناجائز طریقہ سےانہیں حاصل ہوتا ہے ،وہ اُن کی سوچ و سمجھ اور فکرو فہم کے لئے حجاب بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میںوہ جو کچھ بھی کرجاتے ہیں،اُس سے انسانیت کا دامن داغدار ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے کہ انسانیت کی نشو ونُما مذہب سے ہوئی ہے اور مذہب کے ساتھ وابستگی سےہی انسانیت کی قوت فروغ پاتی ہے مگر جب انسان مذہب سے کوسوں دور ہوجائے تو اُس میں انسانیت کی قوت معدوم ہوجاتی ہےاور وہ شرف ِ اشرف سے بھی محروم ہوجاتاہے۔ہمارا دین سیدھا سادہ ہے جس کی عام فہم تعلیم ہر ایک کی سمجھ میں با آسانی آجاتی ہے۔یہ دین جو انسان کی سرشت بیا ن کرتا ہےاور ایسے اصول بتاتا ہے جن میں تبدیلی ناممکن ہے،جوانسان اس کو ملحوظ نظر نہیں رکھتا ہے ،وہ حرمان نصیب ہے۔ظاہر ہے کہ ایک طرف جہاں انسان کا عظیم ہونا اُس کا معجزہ ہے اور انسان کا انسان ہونا اس کی فتح ہے تو وہیں دوی طرف انسان کا شیطان بن جانا اس کی شکست ہے۔اسی طرح جہاں انسان سے برتر و اعلیٰ چیز کائنات میں نہیں ہے ، وہیں جب یہی انسان انسانیت کے درجے سے گِر جاتا ہے تو حیوان سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔ تاہم انسان جب تک خدا کی حرام کردہ روزی سے بچتا رہتاہے ،تب تک عابد رہ جاتا ہے،جب خدا کی تقسیم کی ہوئی روزی پر قانع اور راضی رہتا ہے تو غنی بن جاتا ہے اور اگر اپنے ہمسائیوں سے تواتر کے ساتھ نیکی اور احسان کرتا رہتا ہے تو سلامت و سکون سے زندگی گذارتاہے اور اگر دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی بہتر سلوک کرتا ہے تو منصف کہلاتا ہے۔لیکن ہمارے معاشرے کاجو افسوس ناک منظر ہمارے سامنے آرہا ہے،وہ بالکل ان چیزوں کے برعکس ہوتا ہےبلکہ مختلف نقائص اور بُرائیوں سے اَٹا ہوادکھائی دیتاہے،یہاں تک کہ وہ اپنی اصل ضروریات اور محض عارضی خواہشات میں فرق کرناکھو بیٹھا ہے۔ ذرا غور کریں کہ جہاں پہلے قرض لینا ایک غیر معمولی اور مجبوری کی حالت میں کیا جانے والا قدم سمجھا جاتا تھا، وہاں آج یہ ایک عام طرزِ زندگی بنتا جا رہا ہے۔ گویا قرض اب محض ایک سہولت نہیں بلکہ ’’چمک دمک کی دوڑ‘‘ میں شامل ہونے کا ٹکٹ بن گیا ہے۔ کئی لوگ اپنی استطاعت اور آمدنی کے پیمانے سے بہت آگے نکل کر مہنگے شادیانے، جدید ترین موبائل اور گاڑیوں کے حصول کے لیے بینکوں اور مالی اداروں سے قرضے لیتے ہیں اور اس طرح چند لمحوں کی مسرت کے لئے مہینوں اور بعض اوقات برسوں کی قسطوں کا بوجھ سَر پر لے کر اپنے ہی ہاتھوں اپنے مستقبل کو زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں۔جس کے نتیجےمیں قسطوں کی ادائیگی کی آخری تاریخیں ،اُن کے دل پر بوجھ، ذہن پر دباؤ اور گھر میں کشیدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔بلاشبہ جہاں زندگی ایک عظیم نعمت ہے، اس کی قدر و قیمت بیش بہا ہے۔ یہ صرف ایک بار ملتی ہےجو کسی کی دی ہوئی امانت ہے،امانت کو ضائع یا خیانت کرنا جرم عظیم ہے۔وہیں زندگی ایک امتحان بھی ہے۔خوشی اور غم ،آسانیاں اور مشکلات اس کا حصہ ہے، اس لئےانسان کی ساری خواہشیںدنیا میں پوری ہوجائیں اور اِسی تصور کے ساتھ زندگی بسر کی جائے تو بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ جن کے پسِ منظر میںہمارے کشمیری معاشرے کی نوجوان نسل کو نہ صرف منشیات کی لَت میں مبتلا ہوگئی بلکہ انہیںخودکشی کی کی راہ پر بھی ڈال دیا ہے۔ ہماری غفلت کی اگر یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب اس صورت ِ حال کا تناسب بڑے پیمانے پر سامنے آسکتاہے۔حالانکہ انسان محض جسم کا نام نہیں بلکہ انسان جسم وروح دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ لہٰذا خوشی اورکامیابی کا معیار وتصوّر بھی وہی دُرست اور کامل ہوتا ہے، جس میں انسان کے مادی اور روحانی دونوں پہلوئوں سے متعلق جملہ ضروریات اور حاجات کو مدِ نظر رکھا جائے اور جو انسان کے جسمانی اور روحانی تقاضوں کو بحسن وخوبی پورا کرپائے۔