گھر سنسار
نعیمہ بنت غلام محمد
میں جس معاشرے میں پلی بڑی ہوں ،اس میں سماجی اصلاح کا فقدان ہے ۔ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے اگر میں خواتین کے کردار کو عام روزمرہ زندگی میں جس طرح دیکھتی ہوں تو کافی کچھ سدھار کی گنجائش ہے۔اس جدید دور میں اگر چہ ہمارے گھروں میں زندگی کی ہر آسائش میسر ہے لیکن سکون اور اطمینان کی کمی لاحق ہے ۔ایک جوڑے سےایک کنبہ ،کنبے سےخاندان پھر ایک قوم اور پورا معاشرہ بنتا اور پنپتا ہے تو اگر بنیاد اچھی ہوگی تو قوم اور معاشرے کی عمارت مضبوط ہوگی ۔گویا عمارت کا انحصار اسی جوڑے پر ہے جو ازدواجی بندھن میں بند جاتے ہیں ۔ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہئے یہ قابل غور بات ہے۔
ازدواجی زندگی میں شوہر بیوی کو چاہیے کہ آپسی معاملات اور تعلقات ایسے رکھیں کہ ان کے بچے ذہنی اور جسمانی ہر لحاظ سے تندرست رہیں، آپس میں کھبی کبھار اگر کہیں اختلاف بھی ہو، اسکو ایسی حکمت عملی سے بچوں سے پوشیدہ رکھا جائے تاکہ ان کے ذہن کو منفی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
کہیں کہیں شوہر بیوی کے آپسی اختلافات کی وجہ سے ابتدا میں تو بچوں کا معصوم ذہن، والد کو ظالم اور والدہ کو قابل رحم تصور کرنے لگتا ہے۔اس بارے میں اس کی ذمہ داری بچے کی ماں پر ہی عاید ہوتی ہے۔کیوں کہ اکثرہم مائیں یہیں پہ وہ سنگین غلطی کر جاتی ہے جس کا مواخذہ بعد میں ماں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ پوری زندگی اولاد ماں کی اس کوتاہی کو کسی نہ کسی بہانے سامنے لاتا ہی رہتا ہے،یہ تو وہی بات ہو گئ کہ:
لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی
اسےکوتاہیاں کہیں یا غلطیاں بچے کو ذہنی طور کمزور بنادیتی ہیں ا ور تو اور بچے اور والد کے بیچ والدہ کے آنسو ایسی متنفر دیوار کھڑی کر سکتے ہیں،جس کا ازالہ کرنا نا ممکن سا ہو جاتا ہے۔بچے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر بہت بڑی نعمت ہیں لیکن یہ امانت بھی ہوتے ہیںاور امانت میں خیانت کرنا کتنا بڑا جرم ہے،لیکن جوانی میں یہ احساس کہاں ہوتا ہے ۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ان آپسی اختلافات کا شکار نہ بنائیں۔ساس ، دیوراورنند کی شکائتیں بچوں کے سامنے ہرگزنہ کیا کریں ۔ورنہ کل کو آپ کی یہی اولاد آپ کو تانے دیںگی اور آپ اُس لمحے کو کوستے رہیں گے لیکن لا حاصل ،کیونکہ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔
ہم مائیں کچھ مدت کے لئے خود غرض بن جاتی ہیں اور زرا سی مختصر سی خوشی کے لئے بچے کے ذہن میں ایسی باتیں ڈال دیتی ہیں جو بعد میں اپنی ہی اولاد وہ سارے پینترے ماں پر ہی آزماتے ہیں ۔اگر واقعی ہم اپنے معاشرے یا اپنی قوم کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو ہم ایک ذمہ دار با شعور شہری دے سکتے ہیں، اچھی تربیت کر کے۔
بیٹے کا نکاح :رشتے کی تلاش میں اچھائی کو ترجیح دی جائے نہ کہ بڑائی کو، تاکہ نکاح باعث برکت بن جائے۔چونکہ کسی دوسرے گھر میں پلی بڑھی یہ لڑکی اب آپ کے گھرآپکےساتھ، آپ کے کنبے کا مستقل فرد بن کے رہے گی ،تو گھر کا ماحول خوش گوار رکھنے کے لئے خود کو اور گھر کے سبھی افراد کو چاہئے کہ ذہنی طور تیار ہو جائیں۔ خاصکر لڑکے کی ماں اور بہن ،کیوںکہ زیادہ تر معاملات میں اَن بن اِنہی رشتوں سے شروع ہوتی ہے۔ظاہر سی بات ہے بہو سے پہلے بھائی کی ہر چیز پر بہن اپنا حق جتاتی ہے اور بھائی بھی ہر چیز ،ہر بات اور ہر کام ماں اور بہن کے ساتھ ہی بانٹتا ہے۔اس کی پسند نا پسند ہر بات کا ہر آسائش کا خیال رکھتی ہیں۔اب ظاہر سی بات ہے بہو کے آنے کے بعد بھائی کی ہر چیز پر اس کا بھی حق ہے یا یوں کہیں کہ اسکا زیادہ حق ہے ۔ لڑکے کی والدہ کا اس میں خاص رول ہے ۔بہو کو بیٹی کی طرح پیار دینا، اپنے پیار اور اخلاص سے اسکا دل جیتناہے ۔ماں ہے تو ماں کے تقدس کو برقرار رکھناہے ۔اپنا رول ایسے نبھانا کہ بہو کے لئے رول ماڈل بن جائے۔ہوتا کیا ہے کہ بہو نے کھانا بد مزہ بنایا ،بہو بہت دیر تک سوتی ہے ،بار بار اپنے کمرے میں جاتی ہے،۔اداس رہتی ہے ۔وغیرہ وغیرہ
دیکھا جائے تو کتنی چھوٹی سی معمولی سی باتیں ہیں نا یہ ۔کیا آپکو نہیں لگتا ایسی چھوٹی باتوں پر اتنی توجہ دینا اور ہنگامی صورتحال گھر میں بنا دینا کتنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔پہلی بات جس کا جس کا میں نے ذکر کیا، یعنی بہو کو لذیز کھانا بنانا نہیں آتا ۔ساس کو چاہئے کہ اپنا ماضی یاد کرلے، کیا سسرال آتے ہی اس نے لذیز پکوان بناکے ساس سسر کو خوش کر دیا تھا ۔چھوڑیں اِن معمولی باتوں کو اتنا ضروری بنانا ۔دیر تک سونا ۔۔کیا آپکے بچے دیر تک نہیں سوتے ؟کیا آپکے بچے ابتداء سے ہی علی الصباح جاگنے کے عادی ہیں ؟ اگر ہاں تو اچھی بات ہے ،سویرے جاگنا باعث برکت ہوتا ہےاور مسلمان ہونے کے ناطے فجر ادا کرنے کے لئے تو بہت ضروری ہے۔ لیکن اس پر بھی ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔دھیرے دھیرے آپ کی یہ بیٹی بھی سویرے جاگنا سیکھ جائے گی، لیکن وہ ڈر سے نہیں ،آپکی محبت اور اخلاق سے سیکھ جائے گی۔ہمارے یہاں تو صدیوں سے یہی ریت چلی آرہی ہے کہ بہو کو صبح سب کے جاگنے سے پہلے ایک فوجی کی طرح کمر باندھ کے نماز پڑھے یا نا پڑھے، سب کے لئے ناشتہ چائے ،روٹی تیار ہونے چاہئے۔اگر نہ کر پائی تو برداشت کرنا ناممکن سا بن جاتا ہے۔اپنی بیٹی ہر وقت عمر اور حرکات و سکنات سے معصوم تصور کرنے والے اتنے سنگ دل کیسے بن جاتے ہیں کہ اپنی اس دوسری بیٹی (بہو) کے ہر عمل میں نقص ہی نقص نظر آتے ہیں۔رہی بات اداسی یا کمرے میں اکیلے بیٹھنے کی ۔اللہ کے بندو!ذرا غور کر لو، کیوں آپ اس چھوٹی سی ننھی سی بچی کے پیچھے پڑ گئے ہو۔کہاں چلی جاتی ہے ہماری انسانیت ہماری غیرت ۔اپنا گھر چھوڑ کے آئی ہے، اس گھر میں ابھی آئی ہے ۔اپنے والدین ،بھائی بہن کی یاد ستاتی ہوگی، اس نئے گھر ،نئے ماحول، نئے افراد کو اپنانے میں وقت تو لگتا ہی ہےاور وہ بھی ایسے حالات میں جہاں گھر کے ہر فرد کی نظر اُسی پہ ٹکی رہتی ہے۔
بیٹا اگر اپنی اہلیہ کے لئے کچھ خرید کے لائے تو ماں اور بہن کا منہ پھول جانا، اسی ذرا سی بات پر اپنے ہی بیٹے اور بھائی کو موردِ الزام ٹھہرانا، کہاں کی سمجھداری ہے۔ اسکے بعد بیٹا بھی سمجھ لیتا کہ اہلیہ کو کچھ دینا ہو تو چھپ چھپا کے دینا پڑے گا۔اپنی ہی ماں سے کتنا کچھ چھپانے لگتا ہے، اسطرح بھائی بہن ،ماں بیٹے میں ایک خلاء بننا شروع ہو جاتا ہےاور بحث و تکرار ہونا معمول سا بننے لگتا ہے۔اس طرح گھر کا سکون دھیرے دھیرے گھر سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔اسکے بعد وہی سب کچھ ہوتا ہے جس نے ہمارے معاشرے کو آلودہ کر رکھا ہے۔برعکس اس کے ہونا یہ چاہیے کہ ماں، بہن، خود اپنی اولاد ،اپنے بھائی کو بہو کو تحفے تحائف دینےاور گھومنے سیر سپاٹے پر لے جانے کے لئے کہتے تاکہ بیٹے کو چوری چھپے یہ سب نہ کرنا پڑے اور گھر کا ماحول بھی پر سکون رہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کوہدایت دے اور ہمارے گھروں میں خوشی اورہمارےدلوں میں سکون عطا کرے۔آمین
[email protected]