خوشگوار زندگی کے لئے فضولیات سے بچنا ضروری!

دور ِحاضر میں جب ہم اپنے کشمیری معاشرے پر نظر ڈالتے ہیںتو وہ ہر معاملے میں ہمیں اچھائیوں کی بہ نسبت بُرائیوں کا ہی مرکز بنا ہوا نظر آتا ہے۔آج سےقریباً پندرہ سوسال قبل ہمارے دین ِ مبین نے اسلامی معاشرے کوجن برائیوں سے صاف و پاک کیا تھا، وہی بُرائیاں آج ہمارے معاشرے میں عام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ایک طرف جہاںہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں بے جا رسومات،دکھاوے اور فضولیات کا جو طرزِ عمل رائج ہوچکا ہے،وہ معاشرےکی تباہی کا سبب بن ہی رہا ہے،تودوسری طرف جب عیدین یا دوسراکوئی مبارک تہوار آتا ہے تو ان موقعوں پربھی ہمارے معاشرے کے زیادہ ترلوگ فضولیات اور بدعات کے اپنے غلط طرزِ عمل کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں بلکہ اس معاملے میں ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے ہر وہ کوشش کرتے رہتے ہیں،جن سے اِن مقدس دینی تہواروں کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔جس طرح نکاح اور شادی کے مقدس رشتوں کو لوگوں نے اپنے غلط طریقۂ کار،منفی سوچ ،لالچ ،اَنّاپرستی،دِکھاوے ،اسراف اور کئی دیگر بے جا رسومات ِ بد سے مشکل اور پیچیدہ بناڈالا ہے ،اُسی طرح عیدین کے مقدس دینی تہواروںکو بھی اپنے اصل معنوں اور مقاصد سے دور کردیا ہے۔حالانکہ سبھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دورِ جدید میں ہم جہاں سیا سی اور معاشرتی مسائل سے دوچارہیں، وہیں معاشی مسائل نے بھی ہمارے معاشرے کے بہت بڑے حصےکو توڑ کر رکھ دیا ہے ۔ چاہے غریب ہو یا مالدار ہر شخص اس سلسلہ میں پریشان ہی نظر آتا ہے، قدم قد م پر ہمیں مسائل کا سامنا ہے اور اب صاف یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اس سلسلہ میں بروقت فکر نہ کی توآگے چل کر یہ مسائل ہمارے لئے کسی بڑی لاچاری و تباہی اورپریشانی کا باعث بن جائیں گے۔ اگر معاشی مسائل پر نظر ڈالیں تواس پریشانی کی بنیادی وجہ فضول خرچی کا بڑھتا ہوا رجحان اور قناعت پسندی کا فقدان ہی نظرآتا ہے۔ ہمارے اندر فضول خرچی کی ایسی عادت پڑگئی ہے کہ ہم نے اس سلسلہ میں احکام ِ خداوندی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور بناکچھ سوچے سمجھے، محض اپنی اَنّا ،دکھاوے اور ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لئے بہت زیادہ پیسے خرچ کردیتے ہیں۔تعجب ہے کہ ہم ایک طرف مہنگائی کا رونا تو روتے ہیں مگردوسری طرف ہوٹلوں‘تفریح گاہوں اور خریداری کے مراکزکو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے لوگوں کا سیلاب امڈآیا ہو اور ہمارے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن ِ کریم میں جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کنجوسی سے منع کیا ہے ،وہیں کفایت شعاری پر بھی زور دیا ہے اور فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے ۔اب جبکہ عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہےاور سنتِ ابراہیمیؑ کی یاد تازہ کرنے کے لئے قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت شروع ہوچکی ہے اور لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کے جانور خرید رہے ہیں،لیکن اس معاملے میں معاشرے کے بعض لوگ دکھاوے،نمود و نمائش اور ریا کاری کا مظاہرہ کرتےہوئے نظر آرہے ہیں۔حالانکہ قربانی کا سارا مداردِل کی کیفیات پر ہےاور یہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دی جاتی ہے۔اسی طرح دیگر چیزوں جن میں بیکری اور ملبوسات وغیرہ شامل ہیں،یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں اوردین و شریعت کے تقاضوں کے مطابق قربانی کا فریضہ ادا کریںاور ساتھ ہی دیگر چیزوں کی خریداری میں بھی اعتدال برتیں۔ یاد رکھیںکہ اسلام نے ہر حال میں قناعت ،میانہ روی اور سادگی کا درس دیا ہے۔جبکہ ہمارے پیارے نبیؐ نےوضو اور غسل میں بھی پانی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو منع فرمایا ہے۔ عید الاضحیٰ کی خوشی کے موقعے پربھی ہمیں بے مقصدپیسے خرچ کرنے سے گریز کرنا چاہئے،کیونکہ معاشرے میں وہی شخص خوشحال زندگی گذار سکتا ہے،جسے کمانے کے ساتھ ساتھ خرچ کرنے کا بھی طریقہ آتا ہو اورخرچ میں اعتدال سے کام لینا کا سلیقہ بھی آتا ہو۔جس دن ہمارے معاشرے کی سمجھ میں یہ بات آجائےاور اُنہیں اپنی خواہشات اور ضروریات میں فرق کا پتہ چل جائے،یقیناً اُس دن سے ہم ایک اچھی ،خوبصورت اور پُر سکون زندگی کفایت شعاری کے ساتھ گزار سکیں گے۔