مقصد ِ حیات
عبداللطیف تانتر ے
اگر ہم زندگی کے مفہوم سے متعلق آپنے آپ سے سوال کرتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ہم زندگی کی حیاتی تعریف یعنی افزائش نسل، نمو ، خوراک حاصل کرنا اور ماحول کے مطابق ڈھلنا وغیرہ سے خود کو آشنا پاتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ زندگی پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر کا نام ہے۔ ایک جاندار چاہے وہ انسان ہو، جانور ہو یا پودا، ایک خاص وقت پر پیدا ہوتا ہے، نشو و نما پاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم انسانی زندگی کے تصور کو صرف جانداروں کی مناسبت تک محدود نہ رکھیں تو یہ تصور بہت وسیع اور متنوع ہو جاتا ہے ۔ زندگی صرف جسمانی وجود تک محدود نہیں بلکہ اس میں بہت سے دوسرے پہلو بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ زندگی ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی تصور ہے جس کی تعریف سے انسان کو خود کو متعارف کرانا آسان نہیں ہے۔ تاہم ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ بچپن میں انسان نئی چیزیں سیکھنے اور نئے تجربات کرنے پر فطری طور آمادہ بھی ہوتا ہے اور پُرجوش اور پُر عزم بھی۔ اور یہی فطری کیفیت ہے جو انسان کو نئی چیزیں سیکھنے، جاننے اور سمجھنے کے لیے اُکساتی ہے ۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو ہمیشہ سے ہی اپنی ذات، کائنات اور زندگی سے جُڑے سوالات پوچھنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ ذہنی حالت جس میں انسان نئی چیزوں کو جاننے کے لیے بے چین اور فکر مند ہوتا ہے ’’تجَّسُس‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان کے تجسُس پسند مخلوق ہونے کے سبب ہی اُسے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور ان کے بارے میں سوچ پیدا کرنے میں مدد ملی ہے ۔ یہ تجسُس ہی ہے جو انسان کو سائنس، فلسفہ، آرٹ اور دیگر شعبوں میں ترقی پانے کا باعث بنتا ہے ۔ جب انسان اپنی تخلیق کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو تجسُس کی بدولت مذہب ، فلسفہ اور سائنس جیسے علوم کو ترقی ملتی ہے ، جب انسان کائنات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسی تجسُس کی وجہ سے فلکیات ، طبیعیات اور دیگر سائنسی شعبوں کو ترقی ملتی ہے اور جب انسان زندگی کے معنی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو اسی تجسُس کی بدولت ادب، فن اور دیگر تخلیقی شعبوں کو ترقی ملتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تجسُس کے انسانی فطرت میں موجود ہونے کے دلائل موجودہ سائنسی شواہد سے بھی ثابت ہوچکے ہیں۔نفسیات دانوں نے بچوں کے رویے کا مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اَخَذ کیا ہے کہ بچوں میں تجسُس ایک فطری جِبلت ہوتی ہے اور یہ تجسُس بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے بہت ضروری ہے۔ نیورالوجی کے ماہرین نے یہ دریافت کیا ہے کہ جب انسان کوئی نئی چیز سیکھتا ہے یا کوئی نیا تجربہ کرتا ہے تو اس کے دماغ میں کچھ خاص قسم کے کیمیکل جاری ہوتے ہیں جو انسان کو خوشی اور اطمینان کا احساس دلاتے ہیں اور اُسے مزید سیکھنے اور جاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسی طرح ارتقائی حیاتیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ تجسُس انسان کے اندر ایک ارتقائی خصوصیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن انسانوں میں تجسُس کی جِبلت زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے ماحول کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور اس کے مطابق ڈھل سکتے ہیں۔ لہٰذا ان سائنسی شواہد سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجسُس انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے جو انسان کو سیکھنے، ترقی کرنے اور زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے ۔
اگرچہ تجسُس انسان کو فطرت کی طرف سے عطا کردہ ایک امتیازی صفت گردانا جاتا ہے۔ تاہم اس کا متوازن اور مثبت ہونا یقینی بنانے کا ذمہ انسان کواپنے آپ لینا ضروری ہے ۔ کیونکہ انسان کے اندر فجور و تقویٰ یعنی نیکی اور بدی کے متضاد داعیات بھی موجود ہوتے ہیں اور تجسُس انسان کے اِن ودیعت شدہ دونوں میلانات کے لیے پیدا ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اگر انسان میں نیکی پر مبنی حقائق کا تجسُس پیدا ہو جاتا ہے تو کامیابی اُس کا مقدر بنتی ہے اور اگر بدی یا شر پر مبنی افعال کا تجسُس پیدا ہو جاتا ہے تو انسان اَسفَلَسَافِلِین میں شمار ہو جاتا ہے۔ انسانی اِرتقاء میں ہمیشہ سے ان دونوں داعیات کی اور تجسُس رکھنے والے لوگ موجود تو پائے گئے ہیں تاہم تناسب کے اعتبار سے تجسُسِ خیر پر محیط ادوار میں انسانی عروج قابل ستائش اور تجسُسِ شر پر محیط ادوار میں انسانی پستی قابل مذمت قرار پائی ہے ۔ دور حاضر جو انسانی ارتقاء میں تجسس اور ترقی میں حدِ کمال پر پہنچنے کا اعزاز رکھتا ہے خیر و شر سے متعلق تجسُس میں توازن کو قائم رکھنے میں بُری طرح ناکام نظر آرہا ہے اور اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے قابلِ تجسُس پہلو کو نظر انداز کرنے کا مرتکِب ہو چکا ہےاور وہ پہلو زندگی اور مقصدِ زندگی کی حقیقت ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کمالِ زندگی گزارنے کے لیے چُنِندہ یہ ذُرِّیتِ آدم ہمیشہ سے بکثرت اپنے اصل مقصد سے غفلت برتتی پائی گئی ہے اور دورِ حاضر کئی وجوہات کی بناء پراس غفلت شعاری میں سب سے زیادہ مبتلا ہوچکا ہے۔انہی وجوہات میں ایک اہم وجہ موجودہ دور کا زندگی اور مقصدِ زندگی سے متعلق نظریات کا غیر اصولی تعین ہے۔کیونکہ صاحب عقل و دانش نے جو زندگی اور مقصدِ زندگی پر اپنے عقلی فلسفیانہ نظریات پیش کئے ان نظریات میں کوئی بھی ایک کُلی طور فلسفہ زندگی کا ترجمان نہیں بن سکا ہے بلکہ چند نظریات میں زندگی کے مقاصد کی جُزوی ترجمانی پائی جاتی ہے اور بہت سارے نظریات زندگی کی مقصدیت کو اور زیادہ معدوم کر کے انسانیت سوزی اور فجور کو تقویت دینے والے ثابت ہو چُکے ہیں ۔عصر حاضر کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ زندگی سے متعلق حق اور سچائی پر مشتمل نظریات اور باطل اور جھوٹے نظریات کو یکساں سمجھا جارہا ہےاور ان نظریات میں حق اور باطل یا اعلی اور ادنیٰ کی تمیز کرنا آزادی افکار کے کھوکھلے دعوے کے تناظر میں ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ ؎
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہو ہر بند سے آزاد
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے اِبلیس کی ایجاد
اگرچہ دور حاضر میں باطل اور من گھڑت نظریات کو منظم طور پر فروغ دینے میں دنیا کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والے خود غرضوں اور مادہ پرستوں نے کوئی کَسر باقی نہیں چھوڑی ہے تاہم اِن منفی نظریات کا منفی اثر بھی پوری عالمِ انسانیت کے سامنے واضح طور پر عیاں ہو چکا ہے ۔ یہ انہی نظریات کی دین ہے کہ آج کے انسان میں مادہ پرستی کی اور ایک جہتی تجسُس پایا جاتا ہے اور یہ غیر متوازن تجسُس انسان کےلیے اپنا مقصد حیات پانے میں اور زیادہ مشکلات پیدا کررہا ہے اب انسان صرف اپنی مادی ترقی چاہتا ہے اور چونکہ مادی ترقی میں انسانی نفس کی خواہشات کی تکمیل ناممکن ہے، لہٰذا انسان روز بروز غیر محسوس انداز میں اپنی پریشانیوں اور مشکلات میں اضافے کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہورہا ہے۔ اور جب فرد ذہنی طور تناؤ کا شکار رہتا ہے تو معاشرہ خود بخود شورِش زدہ بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عصرِ حاضر کو عصرِ خطرہ، عصرِ بحران اور عصر عدم یقینیت جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ صاحب علم و دانش کی چِیخ و پکار کے باوجود دنیا کے نظام پر قابض اربابِ اقتدار اس خطرے، بحران اور عدم یقینیت کے تباہ کن اثرات کی اور توجہ مبذول کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ لہٰذا مایوسی کے اس دور میں اجتماعی سطح پر باطل نظریات سے چھٹکارے کی مستقبل قریب میں کوئی اُمید دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم صاحبِِ علم و فہم افراد کو اس اجتماعی انحطاط میں اُمید کی کِرن جلائے رکھنے کی سعئ پیہم جاری رکھنی چاہیے اور انفرادی سطح پر بیداررہ کر حق و صداقت پر مشتمل نظریات پر عمل آوری سے مقصدِ زندگی پانے کا تجسُس بحال رکھنا چاہیے۔ انہیں لوگوں کو سمجھاناہوگاکہ انسان روزِ اول سے ہی دین و مذہب سے وابستگی کا فطری طور طالب رہا ہے اور اس اہم ترین تناظر میں ایک فرد کو اپنے ادیانی فلسفے اور نظریے کو ترجیح اول دے کر ہی نظریاتِ باطلہ سے فرار حاصل ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ یہ ادیانی نظریات ہی ہیں جن میں انسان کی ظاہری اور باطنی تسکین کا انتظام پایا جاتا ہے ۔ یہی نظریات مقصدِ زندگی حاصل کرنے کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں اور اس کے لیے درکار تجسُس کو بڑھاوا دینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ جن نظریات میں انسان کے باطنی وجود کی کوئی حیثیت ہی نہیں، جن نظریات میں نفس کو بے لگام چھوڑنے کی ترجمانی ہو، جن نظریات میں تزکیۂ نفس کو انسانوں پر ظلم سے تعبیر کیا گیا ہو، اور جن نظریات میں تہذیب، اخلاق اور اقدار کو خاطر میں ہی نہ لایا گیا ہو، ان نظریات کے بُرے اور منفی اثرات سے بچنا انسان کے لیے ناگزیر ہے۔
اگر ہم دین اسلام کے پیش کردہ فلسفۂ زندگی پر غور کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہمہ جہت ترقی اور بلندی کیلیے یہ نظریہ قابلِ عمل بھی ہے اور مطابقِ فطرت بھی ۔ قران و سُنت پر مبنی یہ فلسفہ انسان کو زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ عقیدہ توحید پر یقین رکھنے سے انسان کو زندگی کا ایک واضح مقصد ملتا ہے ، عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے انسان کو اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے۔ اسلام انسانیت کا ترجمان بن کر تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے، سلام اچھے اخلاق کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور اسلام انسان کو ایماندار، سچ بولنے والا، رحم دل اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو مقصدِ زندگی، اخلاقی رہنمائی، امید، حوصلہ، روحانی سکون ، معاشرتی ہم آہنگی اور ماباقی معاملاتِ زندگی میں کمال حاصل کرنے کا اعلی ترین اسلُوب اسلام فراہم کرتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنے اندر حق و صداقت پر مبنی مقصدِ زندگی پانے کا تجسُس پیدا کرے۔
(رابطہ۔7006174615)
[email protected]