پرویز مانوس
شام کا اندھیرا رفتہ رفتہ بڑھتا جارہا تھا- اسی کے ساتھ سڑکوں پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کی آمد و رفت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا، سڑکوں کے کناروں پر لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں پر بلب روشن ہو چکے تھے، سڑک کی دونوں جانب دکانیں اس طرح سجی ہوئی تھیں جیسے دیوالی کا تہوار ہو _۔
کاشف بھی اپنی کار سے گھر کی طرف جارہا تھا، اُس کے دماغ میں سوچوں نے ایک تلاطم مچا رکھا تھا اور وہ خود کو کوس رہا تھا _۔
اُس کے کانوں میں بار بار مساج سینٹر والی عورت کے الفاظ گونج رہے تھے، دفعتاً سامنے لگے ہوئے آئینے میں شبنم کا چہرہ رقص کرنے لگا تو وہ شبنم کے بارے میں سوچنے لگا،،
کاشف ایک سرکاری دفتر میں اسٹاف افسر تھا۔ اس کی بیوی شبنم ایک سادہ گھریلو عورت تھی، جس نے اپنی زندگی کا محور گھر اور بچوں کی پرورش کو بنا رکھا تھا۔
وہ ہمیشہ مسکراتی نظر آتی مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک گہرا احساسِ کمتری چھپا ہوا تھا۔ کاشف کا رویہ اور اس کی بے توجہی اس کے دل میں یہ سوال پیدا کرتے تھے کہ شاید وہ کاشف کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پا رہی۔
کاشف کے دفتر کی فضا ہمیشہ ایک الگ ہی دنیا کی طرح لگتی تھی۔ ہر صبح جب کاشف دفتر پہنچتا، تو وہاں کی خواتین اپنی موجودگی سے ماحول کو بدل دیتیں۔ وہ اونچی ایڑیوں والی سینڈلوں پر مٹک مٹک کر چلتیں، ان کی نرم کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں کھنکتی اور مہنگے پرفیوم کی خوشبو آفس میں ہر طرف پھیل جاتی۔ رنگ برنگے زرق برق ملبوسات میں ملبوس یہ عورتیں اپنے چہروں پر چمکتا غازہ اور ہونٹوں پر گہری لپ اسٹک لگائے ایک خوابناک منظر پیش کرتی تھیں۔
کاشف کی نظریں اکثر ان خواتین کی طرف اٹھ جاتیں، خاص طور پر جب وہ قہقہے لگاتیں یا اپنی نشستوں پر بے فکری سے بیٹھ کر باتیں کرتیں۔ ان کے لہجے میں ایک خود اعتمادی اور بے ساختگی تھی جو کاشف کے لیے کسی کشش سے کم نہ تھی۔ وہ خواتین دفتر کے مختلف کاموں میں مصروف ہوتیں مگر ان کی چمکتی ہوئی شخصیات کا اثر کاشف کے ذہن پر دیر تک رہتا-
کاشف اکثر سوچتا کہ ان عورتوں کی زندگیاں کتنی مختلف ہیں۔ وہ ہماری پسند کے لباس پہنتی ہیں، اپنی خوشبوئیں خود چنتی ہیں اور ہر لمحے اپنی زندگی کو جیتی ہیں- ایک طرف اُس کی بیوی ہے جسے اپنے شوہر کی پسند کا ذرا بھی خیال نہیں۔ ان عورتوں کی موجودگی کا ایک عجیب سا جادو تھا، جس کے سامنے کاشف اپنی زندگی کو ماند محسوس کرتا تھا۔
یہی جادو کاشف کے خیالات کو الجھانے کا سبب بن گیا۔ اس کے دل میں ایک خلش پیدا ہو گئی، جس نے اسے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی شبنم کو ان عورتوں کے مقابلے میں دیکھے –
ایک دن اس کے قریبی دوست ناصر نے اس کی اداسی بھانپ لی-
یار کاشف ……..! کب تک ان اداسیوں میں ڈوبے رہو گے، زندگی کا مزہ لینا ہے تو میرے ساتھ چلو۔ تمہارے دماغ کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی۔ اصلی لُطف تو وہاں ہے، ذہن کے ساتھ ساتھ جسمانی سکون بھی میسر ہےاُٹھو چلو…!
تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد کاشف نے رضامندی ظاہر کر دی آفس سے نکلتے ہی ناصر اسے ایک انڈر گراونڈ مساج سینٹر لے گیا، جو درحقیقت جسم فروشی کا اڈہ تھا۔ پہلے تو وہ داخل ہونے سے کترا رہا تھا پھر جب ایک عورت نے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا
“ارے چل نا، بھاؤ کاہے کو کھاتا ہے تو وہ پسینہ پسینہ ہوگیا ،چونکہ ناصر کا یہاں روز کا آنا جانا تھا وہ بلا جھجھک کمرے میں گھس گیا اور کاشف حیرت سے اپنے ارد گرد کے مناظر کو دیکھتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ وہاں کی فضاؤں میں مہکتی خوشبوؤں سے مدہوش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک عورت کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ عورت اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوکر بیٹھی تھی وہ خوبصورت مگر غمزدہ آنکھوں والی تھی-وہ اُسے ایک ٹک دیکھنے لگا تو عورت نے کہا-
” اے بابو، کیا پہلی بار عورت دیکھ رہے ہو ؟”
آؤ آگے بڑھو، اپنا کام کرو اور چلتے بنو، مجھے اور بھی گراہک نپٹانے ہیں _۔
کاشف اس کے سوال پر ہڑبڑا گیا۔
اُس کی حالت دیکھ کر وہ بیڑی کا کش لگاتے ہوئے بولی”شادی شدہ ہو کیا؟”
“ہاں،” کاشف نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔
“پھر یہاں کیوں آئے ہو؟ تیری بیوی تیری خواہش پوری نہیں کرتی کیا ؟”
کاشف نے نظر جھکا کر کہا، ” نہیں ایسی بات نہیں ہے، دعوت تو دیتی ہے لیکن مجھے اس سے دھویں کی، مسالے اور سالن کی بو آتی ہے۔”
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔عورت نے زور سے قہقہہ لگایا۔
” سالے یہ سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ _پہلے میرے شوہر کو مجھ سے بھی یہی شکایت تھی لیکن اب وہ یہ نہیں کہتا، کڑک کڑک نوٹ گنتے ہوئے اُسے سب بھول جاتا ہے، مرد تو ہمیشہ اپنے جذبات کو بہانہ بناتے ہیں۔ لیکن کیا تم نے کبھی سوچا کہ تمہاری بیوی کے جذبات کیا ہوں گے؟”
وہ تم سے کیا سُننا چاہتی ہے، وہ تم سے کیا پانا چاہتی ہے؟
فوکٹ میں ٹائم کھوٹی کیا، چل جاسالا….!
کہہ کر وہ اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
عورت کی باتیں سن کر کاشف چونک گیا۔ عورت کے الفاظ اس کے دل کو چیرتے ہوئے گزر گئے – اُس نے اپنا بیگ اٹھایا اور خاموشی سے وہاں سے نکل آیا- باہر نکل کر اُس نے مڑ کر عمارت پر آویزاں بورڈ کی طرف دیکھا جہاں لکھا تھا “یونیک مساج سینٹر” ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیل گئی-
گاڑی میں بیٹھتے ہی کاشف کی آنکھوں کے سامنے شبنم کی تصویر ابھری۔ صبح پانچ بجے سے رات کے کھانے کے بعد تک وہ رسوئی میں رہتی ہے، جھاڑو پونچھا کرتی ہے، بچوں کے کپڑے دھوتی اور اسکول کے ہوم ورک میں ان کی مدد کرتی ہے –
وہ عورت جس نے اپنی زندگی کے پندرہ برس اس کے اور بچوں کے لیے وقف کر دئے- جس نے اپنی خوشبوؤں کو دھویں اور مصالحے میں دفن کر دیا- اُس کے ماتھے پر کبھی شِک تک نہیں ہوتی، جب بھی گھر میں داخل ہو ہمیشہ خندہ پیشانی سے استقبال کرتی، جس نے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی _ جس نے کبھی شاپنگ کی ضد نہیں کی۔ کاشف کو یاد آیا کہ کیسے وہ صبح سب سے پہلے اٹھتی، کچن کا کام سنبھالتی، بچوں کو اسکول بھیجتی اور گھر کی ہر ذمہ داری نبھاتی۔ اس سب کے بدلے میں کاشف نے اُسے کیا دیا؟
دفعتاً ایک جھٹکے کے ساتھ اُس کی کار ایک دکان کے سامنے رکی۔ کاشف نے کھڑکی سے ہی موگرے کا گجرا خریدا اور آگے بڑھ گیا۔
آج اُس کے چہرے پر عجیب سی مسرت چھائی ہوئی تھی گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے بڑے پیار سے پُکارا
” شبنم……..! شبنم……..! اری بھئی کہاں ہو؟
کپڑے سے گیلے ہاتھ پونچھ کر وہ بیچاری سیدھا ڈرائنگ روم میں آئی اور کاشف کے چہرے پر خوشی کا ماہتاب دیکھ کر حیران رہ گئی۔
جی بولئے…! خیریت تو ہے؟
ہاں ہاں خیریت ہی ہے-
“یہ تمہارے لیے ہے -” کاشف نے گجرا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا-
شبنم نے گجرے کو اُلٹ پلٹ کر حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا “یہ کیا ہے ؟
“گجرا ہے” – کاشف نے مخمور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا-
وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں، لیکن کس لئے؟ اور کیوں؟
“تمہارے لئے، بس یوں ہی، شاید شکریہ ادا کرنے کے لئے یا شاید اپنی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے”
کاشف کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر شبنم کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ کاشف نے پہلی بار محسوس کیا کہ شبنم کی سادگی، اس کی محبت اور اس کی قربانیاں کسی مصنوعی خوشبو یا زرق برق لباس سے کہیں زیادہ قیمتی تھیں- اُس نے آگے بڑھ کر شبنم کو سینے سے لگا کر کہا” I Love you Always،،، پھر دھویں، مصالحے اور سالن کی بدبو گجرے کی خوشبو میں گھل مل گئی _۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9419463487